Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال اور سیلاب کی تباہ کاریاں …..محکم الدین ایونی

شیئر کریں:


چترال میں گذشتہ ڈیڑھ مہینے سے یکے بعد دیگرے مختلف مقامات پر طوفانی بارشوں اور موسم میں غیر معمولی گرمی کے نتیجے میں گلیشئروں کے پگھلنے سے سیلابوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ۔ 25اگست کے روز لوئر چترال کے کالاش ویلی رمبور میں اور 26اگست کو اپرچترال کے رومانوی گاءوں ریشن میں آنے والے سیلاب نے ان علاقوں کی خوبصورتی کا نقشہ ہی بدل دیا ہے ۔ اور لوگوں کو مصائب و مشکلات کے بھنور میں دھکیل دیا ہے ۔ کئی لوگ برسوں کی محنت شاقہ سے تعمیر کئے گئے مکانات سے محروم ہو گئے ہیں ۔ تو کئی دکانات ، ہوٹلوں زمینات ، باغات ، نہروں اور آبنوشی سکیموں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ جن کی دوبارہ بحالی وآبادکاری کسی کو سمجھائی نہیں دیتا ۔ ریشن میں لوگوں کو دوہرے آفت نے گھیر لیا ہے ۔ اوپر پہاڑوں سے بارش کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے کئی گھروں کو نگل لیا ہے ۔ تو دریائے چترال کے ساتھ آباد لوگوں کو دریا کے کٹاءو کا سامنا ہے اور یہ لوگ خود اپنے مکانات اپنے ہاتھوں سے اکھاڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ سیلاب سے دوچار تباہی کا یہ منظر کسی ایک گاءو ں کا نظارہ نہیں ہے ۔ بلکہ چترال کے تمام علاقے اس آفت کی لپیٹ میں ہیں ۔ ابتدائی طور پر سیلاب کا آغاز گولین کے از غور گلیشئر کی ٹوٹ پھوٹ سے شروع ہوا ۔ جس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے گولین میں دس گھر، مدرسہ ، واٹر سپلائی اور کھڑی فصلیں و باغات اس کی زد میں آ کر ملیا میٹ ہوئے اور106میگاواٹ گولین بجلی گھر کی انٹیک کو دوسری بار شدید نقصان پہنچا ۔ جو پچھلے سال کے سیلاب سے متاثر ہونے کے بعد دوبارہ مکمل طور پر بحال بھی نہیں ہوا تھا ۔ کہ ایک اور سانحہ سے دوچار ہوا ۔ اسی طرح گولین روڈ اور مختلف مقامات کے پاءپ لائن جو سڑک کے ساتھ ساتھ بچھائے گئے تھے ۔ سیلاب کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ سیلاب نے کا لاش ویلی بمبوریت میں برون گاءوں کے کئی مکانات ، کالاش ڈانسنگ پلیس ، کالاش بشالینی ( میٹرنٹی ہوم ) ہائرسکینڈری سکول کی زیر تعمیر عمارت ،ہوٹلز ،بجلی گھر سمیت مکئی اور لوبیا کی کھڑی فصلوں ،اور باغات کو بھی نہیں بخشا ۔ اور اسی سیلابی ملبے نے ایون پہنچ کر دریائے چترال کو ایک مرتبہ پھر ڈیم میں تبدیل کرکے علاقے کے وسیع زمینات اور فصلوں کو جھیل میں ڈبو دیا ہے ۔ شیشی کوہ ، عشریت ، دروش ، دمیل ، ارسون ، جنجریت کوہ ، ایون ، بمبوریت ، مروئے ، برنس اور اپر چترال کے زئیت ، کوراغ ،بونی ، بریپ، ڈیزگ ، یارخون لشٹ غرض کوئی گاءوں ایسا نہیں ۔ جہاں سیلاب نے چھوٹے یا بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی نہ پھیلائی ہو ، یارخون لشٹ میں سکول کی طالبہ بھی سیلاب کی بے رحم تھپیڑوں کا شکار ہوئی ۔ جس کی لاش بعد آزان سیلابی ملبے سے نکال لی گئی ۔ سیلاب کے بارے میں کئی بار این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات کی طرف سے الرٹ جاری ہوتے رہے ۔ اور یہ پیشنگوئیاں بہت حد تک درست بھی ثابت ہوئیں ، لیکن جس طرح ہمارے لوگوں کا حکومت کے کسی اعلان پر اعتبار نہیں رہا ہے ۔ موسمیاتی اداروں کے پیشگوئی کو بھی انہوں نے آن سنی کر دی ۔ یوں سیلاب سے بچنے کی تیاری نہ کرنے کے سبب دوہرے نقصا نات اُٹھانے پڑے ۔ اس لئے 2015کے بعد موجودہ سال کو چترال کے دونوں اضلاع کیلئے سیلابی تباہی کا سال قرار دیا جا سکتا ہے ۔
سیلاب کی شکل میں اس آفت نے چترال کو انتہائی غیر محفوظ بنا دیا ہے ۔ کیونکہ جن علاقوں کو انتہائی محفوظ قرار دیا جاتا تھا ۔ جو اپنی زرخیزی و خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھے ، وہ اب سب سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئے ہیں ۔ اس لئے چترال کے کسی بھی علاقے کو انسانی زندگی کےلئے محفوظ ترین قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ چترال کی کالاش وادیاں ، ایون کا وسیع قصبہ جو اپنے قدرتی وسائل اور محفوظ علاقہ ہونے کی وجہ سے مشہور تھے ۔ اب محفوظ نہیں رہے ۔ اسی طرح اپر چترال کے خوبصورت رومانوی گاءوں ریشن ، سنوغر ، بریپ، بونی جیسے خوبصورت اور دونوں اضلاع میں خاص مقام و قدرتی وسائل رکھنے والے گاءوں غیر محفوظ علاقوں کی فہرست میں آچکے ہیں ۔


چترال قدیم زمانے سے سیلاب سے اشنا علاقہ ہے ، لیکن 2005سے چترال میں سیلاب سے تباہی کا جوسلسلہ شروع ہوا ہے ۔ اس کی مثال چترال کی قدیم تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے ۔ کہ سیلاب سے نمٹنا حکومت کے بس سے بھی باہر ہو چکا ہے ۔ حکومت کی طرف سے پچھلے سیلاب سے متاثرہ سرکاری املاک کی بحالی مکمل نہیں ہو پاتی ۔ کہ ایک نئے سیلاب سے پلے پڑتا ہے ۔ اور یوں سیلابی نقصانات کی بحالی کا کام مکمل ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ اسی طرح عوامی نقصانات میں بھی امداد کے طور پر متاثرین پر بھاری رقم خرچ کی جاتی ہے ۔ جن میں جانی نقصانات ،مکانات و مال مویشیوں کے امدادی چیک اور ریلیف میں ٹینٹ و خوراک وغیرہ دیے جاتے ہیں ۔ جبکہ نجی مخیر اداروں کا بھی متاثرین کی مدد میں بہت بڑا حصہ ہے ۔


سیلاب کی وجہ سے ایک بڑا خسارہ چترال کے دونوں اضلاع کو یہ ہو رہا ہے ۔ کہ سیلاب سے متاثرہ سرکاری املاک کی بحالی کیلئے دیے جانے فنڈ کی وجہ سے نئے پراجیکٹ تعمیر نہیں ہو رہے ۔ جبکہ بحالی فنڈ کی فراہمی میں بھی تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جس سے متاثرہ علاقوں کے لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ 2015کے ریشن سیلاب میں ریشن ہائیڈل پاور سٹیشن ، اور بعد میں گولین سیلاب سے متاثرہ گولین ہائیڈل پاور سٹیشن کے انٹیک کو پہنچنے والے نقصانات میں سیلابی ملبے کو ہٹانے میں حکومتی عدم توجہی اس کی واضح مثال ہیں ۔ جن کی بحالی کیلئے اپر اور لوئر چترال کے عوام کو کئی بار احتجاج کرنا پڑا ۔ بالاخر عوامی احتجاج پر ہی ان منصوبوں پر کام کا آغاز کیا گیا ۔ اور گولین ہائیڈل سٹیشن تو بحال ہو چکی ہے ۔ لیکن ریشن ہائیڈل پاور سٹیشن بدستور بحالی کا انتظار کر رہا ہے ۔ اب نئے سیلاب نے اس کو قابل استعمال بنانے کی راہ میں مزید رکاوٹ پیدا کر چکی ہے ۔ اسی طرح 2015کے سیلاب سے متاثرہ مختلف ویلیز روڈ تاحال مکمل بحال نہیں ہوئے ہیں ۔ کہ پھر سے سیلابی ملبے کے ڈھیر تبدیل ہو چکے ہیں یا کٹاءو کا شکار ہو چکے ہیں ۔ اس لئے لوگوں کی آمدورفت کی راہ میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ مریضوں کی ہسپتالوں تک رسائی ، اشیاء خوردو نوش کی گھروں تک ترسیل لوگوں کیلئے بڑے مسائل بن گئے ہیں ۔ اور سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ سے آمدورفت منقطع ہونے کے نتیجے میں لوگوں کوگاڑیاں بدلنی پڑتی ہیں ۔ اور کرایہ بھی دگنا ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اپر چترال کے متاثرہ گاءوں ریشن میں رابطے کا واحد آر سی سی پُل سیلاب برد ہونے کی وجہ سے تورکہو ،موڑکہو ، مستوج ، لاسپور ، بریپ ، بروغل اور گلگت بلتستان جانے والے مسافروں اور سیاحوں کو آمدورفت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ سیلاب کی حالیہ مشکلات کی وجہ سے بروغل فیسٹول بھی 13ستمبر تک ملتوی کردی گئی ہے ۔


چترال کو جہاں ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے ۔ وہاں سیلاب کے دوران امدادی کاروائیوں کے نام پر حکومتی خزانے کی مختلف اداروں کے ذریعے کرپشن بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ بعض ادارے مشکل میں گھرے لوگوں کے مصائب کا فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ اورجہاں ایک لاکھ لگایا جاتا ہے ۔ اُس کے دس گننا وصول کئے جاتے ہیں ۔ اور ایسے ادارے کسی کو جواب دینے کے پابند بھی نہیں ہیں ۔ یوں ایک علاقے میں آنے والی مصیبت بعض اداروں کیلئے ایک اپرچونیٹی بن جاتی ہے ۔ اور پیسے کمانے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ 2015سے چترال میں اس قسم کی سرگرمیاں مشاہدے میں آئی ہیں ۔ ریلیف ایکٹی وٹی ہوں ،کہ ریسٹوریشن یا بحالی کے کام ، اُن پر بھاری فنڈ لٹائے گئے ۔ جبکہ کام اس کے عشر عشیر بھی نہیں ہوئے ۔ یوں کرپشن کا شکارناقص بحالی منصوبے بار بار سیلاب کی نذر ہو کر کرپٹ اداروں کیلئے آمدنی کا ذریعہ بن گئے ہیں ۔ اس لئے لوگوں کی مشکلات میں کمی آنے کی بجائے اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔


سیلاب نے جہاں کئی امور کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ وہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے ۔ کہ اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ہائیڈل پاور سٹیشنز کا مستقبل کیا ہے ۔ کیا بجلی کے ان بڑے پراجیکٹ کی تعمیر انتہائی رف جائزے اور سروے اور فزیبلیٹی اسٹڈی کے تحت کی گئی ۔ اگر گولین ہائیڈل سٹیشن کی ابتدائی سروے کے موقع پر گلوبل وارمنگ اور گلوف کے بارے میں معلومات کم تھے ۔ تو کیا لاوی پراجیکٹ کے آغاز پر اس کو نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ جو شروع ہوئے بہت کم عرصہ ہوا ہے ۔ کیا ایسے منصوبے صرف بیرونی ڈونرز سے فنڈز حاصل کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں ۔ جن کے معیار ،پائیداری ساءٹ سلیکشن اور فزیبلٹی سٹڈی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی ۔ جن کے نتیجے میں اربوں روپے کے یہ پراجیکٹ بھاری آمدنی کی بجائے وبال جان بن گئے ہیں ۔ چترال کے لوگوں کو خد شہ ہے ۔ کہ سیلاب سے ہونے والے تباہی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا ۔ تو چترال بڑے بڑے پن بجلی گھروں کے ہوتے ہوئے بھی بجلی کے مسائل سے دوچار ہوتا رہے گا ۔


عالمی ماحولیاتی سائنسدان آج سے پچیس تیس سال پہلے جب دنیا میں دن بدن حدت میں اضافے کی بات کررہے تھے ۔ اور گلیشئرز کے پگھلاءو کے خطرات سے آگاہ کر رہے تھے ۔ تو کسی کے پلے نہیں پڑتی تھی ۔ لیکن افسو س کا مقام یہ ہے ۔ کہ آج سائنسدانوں کے ان خدشات کو حقیقت کے روپ میں دیکھنے کے باوجود بھی ان سے بچنے کیلئے حکومت سنجیدہ ہے ۔ اور نہ عوام ان مصیبتوں سے چھٹکارا پانے کیلئے اقدامات پر تیا رہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر چترال میں ہزاروں من لکڑی قدرتی جنگلات سے جلانے کیلئے کاٹے جاتے ہیں ۔ تو عمارتی لکڑی کے حصول کیلئے قانونی اور غیر قانونی کٹائی کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ۔ تناور درختوں کی بیخ کنی کرکے ایک فٹ کا پودہ لگانے سے ہم ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں اور نہ بڑھتے ہوئے گرمی کے زور میں کمی لا سکتے ہیں ۔ اس کیلئے چترال کی سطح پر ایک سنجیدہ حکومتی اور عوامی نمایندوں کے اشتراک سے حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ جس کے ذریعے جنگلات کی کٹائی پر کنٹرول ، جلانے کی لکڑی کی بجائے گیس کا استعمال ، بے ہنگم ٹریفک اور گاڑیوں کی تعداد میں کمی ، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا خاتمہ ، گلیشئر والے علاقوں میں بھر پور طریقے سے شجر کاری ، پولی تھین بیگ ( پلاسٹک بیگ ) پر مکمل طور پر پابندی ، کولڈ ڈرنک کی پلاسٹک بوتلوں کو متعلقہ کمپنی کو واپسی ، ٹاءون و نائبر ہوڈ کونسلوں اور ویلج کونسلوں کے ذریعے پینے کے پانی اور صفائی کا منظم انتظام کیا جاسکے ۔ ان اقدامات پر اگر نیک نیتی سے عمل کیا گیا ۔ توامید ہے کہ چند سالوں میں کافی بہتری آئے گی ۔ ورنہ ہم مکانات بجلی گھر ، سکول ، ہسپتال ، واٹر سپلائی ، آبپاشی نہروں اور زمینات پر جان مال خرچ کرتے رہیں گے ۔ اور ہر سال بعد سیلاب اُنہیں بہا کر لے جائے گا ،

chitral flood 2020 3
chitral flood 2020 1
Zait chitral flood damages 4
Reshun flood damages 2020 8
reshun flood and alkhidmat
akah volunteers at reshun flood6

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
39660