Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مسئلہ قومیت اور مولانا مدنی رح……تحریر عمران الحق

شیئر کریں:

گزشتہ چند دنون سے فیسبک پر ایک محترم دوست، مولانا حسین احمد مدنی رح کی کتاب نقش حیات سے اقتباس لیکر مولانا پر بحث چھیڑا ہے۔ کسی دوست کے ٹیگ کرنے پر شروع کی ایک پوسٹ پڑھ لی تو “نظریہ قومیت” پر لاحاصل بحث پڑھنے کو ملی۔ اس طرح کے کاموں میں سوائے افتراق کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کمنٹ سیکشن میں مبصریں کی آرا پڑھ کر ایک پوسٹ لگانے کا سوچا تاکہ مسئلہ قومیت کا ایک مختصر تعارف پیش کیا جائے تاکہ احباب کو دونوں کے موقف کا اندازہ ہوسکے اور ان اکابریں کی اس گستاخی سے بچا جاسکے جو تاریخی  لاعلمی کی وجہ سرزد ہوتی ہے۔اس بحث کی تفصیل میں جانے سے پہلے اس کا تاریخی پس مںنظر دیکھا جائے تو مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ جنگ عظیم اول سے قبل تمام مسلم ممالک یورپ سے ایشیاء تک، خلافت عثمانیہ کے زیر سایہ یکجا تھے۔ پوری امت مسلمہ ایک سلطان کے حکم کے ماتحت تھی۔ سلطان کے زیر سایہ وہ حکومتیں بھی تھیں جو بظاہر آزاد ریاست یا سلطنت کی صورت کام کرہی تھیں۔ ہندوستان کی مثال لیتے ہیں یہاں کے مسلمان ہمیشہ سے سلطان کے تابع رہے ہیں۔ حتی کہ دہلی کے تخت کے الٹنے کے بعد بھی یہ تاثر بدستور جاری رہا۔ اسکی ایک مثال یہ ہے کہ جب 1916ء کو “تحریک ریشمی رومال” کے تحت شیخ الہند نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا منصوبہ تیار کروایا تو جہاد کیلئے اجازت لینے ترکی چلے گئے۔ اس وقت کے سلطان غالب پاشا نے جہاد کا حکم نامہ جاری کیا جو تاریخ میں “غالب نامہ” کے نام سے مشہور ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کے خلاف جرمنی کیساتھ خلافت عثمانیہ بھی میدان میں اتر ائی۔ 1918ء کو جرمنی اور اسکے اتحادیوں کو شکست ہوئی۔ خلافت عثمانیہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جس سے عراق، مصر، شام، لبنان وغیرہ جیسے ممالک مذہب کے بجائے قومیت کی بنا پر وجود میں آگئے۔ یورپ میں جرمنی اور اسٹرو ہنگیرائن ایپمپائر کی شکست سے متعدد ایسے ممالک وجود میں آگئے جو قومیت کی بنا پر قائم تھے۔ اس طرح دنیا میں “نیشن اسٹیٹ” کا تصور پروان چڑھتا گیا۔

نیشن اسٹیٹ کا سادہ مطلب یہ ہے کہ کسی ریاست کی وجود قومیت کی بنا پر ہو، یعنی ایک جیسی ثقافت، زبان، جغرافیہ یا تاریخ رکھنے والے لوگ ایک ریاست کے اندر زندگی بسر کرے اور ساتھ دوسرے اقوام کی سالمیت کی عزت کرے۔ نیشن اسٹیٹ سسٹم یقینا بیسویں صدی کا وہ عظیم تحفہ ہے جس نے خونخوار جنگوں کا سد باب کرکے ایک پرامن عالمی دنیا کی بنیاد رکھی۔ عین اس وقت برصغیر بھی اپنی آزادی کی جنگ ان انگریزوں کے خلاف لڑرہا تھا جو پہلی جنگ عظیم کا فاتح بن ابھرا تھا۔ نیشن اسٹیٹ سسٹم کا تصور پھیلتا ہوا برصغیر تک بھی پہنچا اور یوں ہندوستان میں اس بات پر بحث ہونے لگی کہ ہندوستان میں قومیت کی بنیاد کس چیز کو ٹھہرائی جائے—-

زبان، ثقافت، یا پھر مذہب۔ اہل ہند کیلئے یہ بحث انتہائی اہم تھا کیونکہ اس کے ساتھ آنے والا مستقبل منسلک تھا۔ چنانچہ سکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور مدارس میں اس پر مباحثے ہونے لگے، اخباروں میں کالم چھپنے لگے اور سیمینار میں ان پر گفتگو ہونے لگیں۔ اس طرح کے صورت حال میں دارالعلوم دیوبند کے صدر مولانا حسین احمد مدنی رح نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اس  عالمی تصور کی تائید کی جس کی بنا پر باقی مسلم ممالک وجود میں ائے تھے۔ چنانچہ مفتی صاحب ہندوستانی قومیت کو مذہب کے بجائے وطن کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے مشہور جملہ کہ دیا کہ “قوم اوطان سے بنتی ہیں”۔ مولانا مدنی رح کے مطابق قوم وطن سے بنتی ہے۔ یعنی جن لوگوں کا وطن ایک ہو وہ ایک قوم کی حیثیت سے ایک ملک قائم کرسکتے ہیں۔ ان کے مطابق اہل ہند کا وطن ایک ہندوستان ہے تو وہ مذہبی اختلاف (مختلف ہونا) کے باوجود ایک ہی ریاست میں رہ سکتے ہیں۔ یوں مولانا مدنی نے متحدہ ہندوستان کی تائید کی۔ اس موقف میں مولانا مدنی رح یکتا نہیں تھے بلکہ متعد جید علما اور سیاستدان اس کے ساتھ کھڑے تھے۔ 

مثال کے طور پر، 1930 کے گول میز کانفرنس کے دوران مولانا محمد علی جوہر نے اپنی تقریر میں فرمایا “اگر مذہب کی بات ہو تو پہلی بار مسلمان ہوں دوسری بار بھی مسلمان اور تیسری بار بھی مسلمان، مگر سیاست کی بات ہو تو میں پہلی بار ہندوستانی، دوسری بار بھی ہندوستانی اور تیسری بار بھی ہندوستانی”۔ مولانا مدنی رح کے اس بیان پر بیشمار اعتراضات سامنے ائے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلم ہندووں کیساتھ کیسے رہ سکتے ہیں۔ مولانا نے اپنی اس بیان کی تائید میں بےشمار دلائل پیش کئے جن میں سے ایک کا ذکر کردیتا ہوں۔  ہجرت کے بعد حضور صل نے اہل مدینہ کیساتھ میثاق مدینہ کے تحت مشترک حکومت بنائی۔ اس معاہدے میں حضور صل محمد رسول اللہ صل کی حیثیت سے نہین بلکہ محمد بن عبد اللہ کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ چنانچہ اس معاہدے میں یہود اور مشرکین بھی شامل تھے اسلئے غیر مسلموں سے مشترکہ حکومت اگر باطل ہوتی تو حضور صل  یہ کبھی سر انجام نہ دیتے۔ اس بیان کے بعد علامہ اقبال نے بھی اپنا نظریہ قومیت پیش کی اور مولانا مدنی کے نظریے کو رد کرتے ہوئے مسلم قومیت کی بنیاد مذہب کو ٹھہریا اور اپنا مشہور نظم پیش کیا۔ اسکا نظم آج بھی ارمغان حجاز کا حصہ ہے جس میں علامہ نے مولانا مدنی رح پر تنقید کچھ یوں کیا ہے۔ زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی استسرود بر ممبر کہ ملت از وطن استچہ بے خبر مقام محمد عربی استبمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست مولانا مدنی رح کے ساتھ اختلاف میں مولانا مودودی رح بھی سامنے ائے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب مولانا مودودی رح نے جماعت اسلامی کی بنیاد نہیں رکھی تھی۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی رحماھما اللہ دونون نے یہ موقف پیش کیا کہ قوم مذاہب سے بنتی ہیں نہ کہ اوطان سے۔ یعنی مسلمان مذہب کی بنیاد پر الگ قوم ہیں۔ ہماری قومیت زبان، ثقافت یا جغرافیہ پر منحصر نہیں بلکہ مذہب پر منحصر ہیں۔ اس موقف سے نہ صرف مسلم لیگ کو فائدہ پہنچا بلکہ دو قومی نظریہ کو بھی استحکام مل گئی۔ شروع میں مدنی نظریے کو کافی تقویت مل گئی چنانچہ 1937 کے انتخابات میں سارے مسلمان کانگریس کے حق مین ووٹ ڈالے اور یوں مسلم لیگ کو بد ترین شکست ہوئی۔ لیکن کانگریس دور حکومت کے ظلم و ستم کو دیکھ جلد ہی مسلمانوں کو اندازہ ہوگیا کہ متحدہ قومیت ہندوستان میں کارامد نہین اسلئے مسلمانوں کی ایک عظیم اکثریت 1940 کو قرارداد لاہور کے ذریعے علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے پیش کردہ نظریہ قومیت کی تائید کی اور یوں 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بھاری اکثریت حاصل رہی۔

اس بحث کے بعد میں چند سطرون میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں،اول یہ کہ علما اور اکابریں میں جتنی بھی اختلافات ہوئیی ہیں وہ سب علمی، تاریخی اور فقہی اعتبار پر ہوئیں ہیں۔ مولانا مدنی ہو یا مولانا مودودی، مولانا آزاد ہو یا علامہ اقبال و جناح، یہ سب ہمارے اکابر تھے جنہوں نے اجتماعی مفاد میں اخلاص کیساتھ اپ ی فہم کے مطابق اختلاف کیا۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اقبال اور قائد اعظم کی حکمر عملی کیساتھ اتفاق کیا۔ تاہم اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ ان سے اختلاف رکھنے والا ہمارے اکابر سے خارج ہوجائیں۔ اگر دین کی تفہیم اور فقہ میں اختلاف رکھنے والے، اتفاق اور عدم اتفاق سے قطع نظر، یکسان طور پر احترام کے مستحق ہیں تو سیاسی مسائل میں اختلاف رکھنے والے احترام کے کیوں مستحق نہیں ہوسکتے؟

دوم مولانا مدنی رح ہندووں کے حواری نہیں تھے بلکہ اسکی رائے میں اس دور کی عالمی سیاست کے ساتھ ان تمام مسلم ممالک کا نقشہ موجود تھا جو خلافت عثمانیہ کے بعد اپنی ریاستیں خالص اوطان کی بنیاد پر قائم کرنے پر رضامند ہوگئے تھے۔ سوم مولانا مودودی رح کے رائے سے مسلم لیگ کو تقویت پہنچی اسلئے 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو مذہبی بنیاد پر سب سے زیادہ ووٹ پڑیں اور یوں پاکستان کی ازادی ممکن ہوئی۔ چہارم مولانا مدنی رح کے رائے سے نہ صرف مودودی رح اورمسلم لیگ نے اختلاف کیا بلکہ علما دیوبند کا ایک گروہ باقاعدہ مسلم لیگ کی معاونت اور تحریک پاکستان میں بڑچڑھ کر حصہ لیا۔ جن میں مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر عثمانی، مولانا شفیع عثمانی، وغیرہ شامل تھے۔ مندرجہ بالا کلمات سے میں اتنی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اختلافات ہر وقت ہوتے رہے ہیں بلکہ ائندہ بھی ہونگے۔ اس لئے ہمیشہ دلائل سے بات کی جائے اور دوسروں کو بھی سنی جائے۔

اختلاف رکھتے ہوئے سینہ چوڑا اور دل کشادہ رکھنا چاہئیے۔ حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اخلاقیات کے نازک راہداری سے اپ اپنی دامن کو بچاتےہوئے گزرنا چاہیے۔ مولانا مدنی ہو یا مولانا مودودی سب نے دین کیکئے اپنی فہم اور سمجھ کے مطابق اخلاص کیساتھ کام کیا۔ ہم قیامت کے دن نہ مولانا مدنی کے متعلق جوابدہ ہیں اور نہ مولانا مودودی کے، بلکہ ہم صرف ان الفاظ کے متعلق حساب دینے کے مکلف ہیں جو ہم ان حضرات کی متعلق بولتے یا لکھتے ہیں۔ اخری گزارش یہ ہے کہ ہر زمانے کی اختلاف کو اسی زمانے کے ساتھ رکھا جائے تو امت کیلئے بہتر ہے۔ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جو پڑھنا چاہتا ہے وہ کتب سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ہمیں اگے کی سوچنا چاہیئے نہ کہ ماضی کے گھاٹیوں میں بھٹکتے رہنا چاہئے۔۔۔


شیئر کریں: