Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انقلاب حسینی کے عظیم کردار….. محمد آمین

شیئر کریں:


داستان کربلا میں بہت سے عظیم کردار ہیں جن کی وجہ سے واقعہ کربلا جاویدان ہے جن میں جناب زینب بنت علی ابی طالب سر فہر ست ہیں اور یہ وہ عظیم ہستی تھی جس نے میدان کربلہ میں اہل حرام کی نہ صرف پاسداری کی بلکہ اسیران کربلہ کی ایسی سالار بنی جسے دنیا ہمیشہ کے لیے یاد رکھے گی۔یہ نبی آخری الزمانﷺ کی پیاری نواسی اور علی و فاطمہ کی لخت جگر تھی جس نے ان پاک ہستیوں سے علم و بلاغت وفصاحت اور شجاعت و پیکر حاصل کی تھی۔جب یزیدی لشکر امام اعلی مقام اور ان کے بہادر ساتھیوں کو یکے بعد دیگر شیہد کر ڈالے اور یہاں تک امام اعلی مقام کے سر مبارک کو تن سے جدا کرکے اس کے مبارک جسم پر گھوڑے دوڑائے اپ ہمت نہیں ہاری۔کربلہ کا دردناک واقعہ ایک عجیب منظر پیش کرتی ہے کہ لشکر یزید نے ابن سعد کے حکم پر خیموں کو جلادی اثاثے لوٹے اور اہل حرام کے ذیور لوٹے اور سر پر چادریں بھی چھیں لیے۔ ایسا سماں تھا کہ سارے وحشت سے نڈھال تھے اور اہل حرام کے بچے اور خواتین خوف زدہ تھے۔ فاتح فوج کے امیر نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ بنی ہاشم کے کسی بھی نوجوان کو نہ چھوڑا جائے تاکہ وہ بعد میں اسلامی ریاست اور حاکم کے لیے کوئی فتنہ برپا نہ کر سکیں۔جوانان بنی ہاشم میں صرف علی ابن حسین (امام ذین العابدین) ہی باقی تھا جو شدید بیما ر تھا جب ابن سعد کے لشکر کے سپاہ سالار شمرزوی الجوشان بیمار اما م کو قتل کرنا چاہا اوروہ جناب زینب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے عورت تو کوں ہے جب کہ خیمون میں اگ لگائی جارہی ہے تو بڑی بے خوفی سے بھیٹی ہوئی ہے تھجے ابن سعد کی لشکر کی کوئی خوف بھی نہیں ہے۔شیر خدا کی بہادر بیٹی جواب دیتی ہے ہاں میں دیکھ رہی ہوں کہ لشکر سعد اس قدر بہادر اور قوی ہوا ہے کہ ہمارے مولا و اقا حسین کی قتل کے بعد ہمار ے جلے خیمے لوٹنے کے بعد بچوں اور عورتوں کو ستانے میں مشغول ہیں اب دیکھ رہی ہوں کہ بیمار و ناتوان جوان کے علاوہ تمہارا کوئی حریف نظر نہیں ارہا اور جب کام تمام ہو جائے تو اپنے حاکم و سردار ابن سعد کے پاس جاکر افتخار کروگے کہ ہم نے ایک تنہا عورت اور ایک بیمار جوان پر حملہ کرکے اسے تلوار کے بھینٹ چڑھا دیا۔جاو ان خیمون کو لوٹ لو ان کو اجھاڑ دو اگ لگا دو لیکن خدا کی قسم میں اس جوان کو قتل نہیں کرنے دوں گی مگر یہ کہ پہلے مجھے قتل کردو۔یہ وہ صورت حال تھی کہ امام علی ابن حسین کا وجود سن 61ہجری کو دشمنوں کے کینے و بضض سے محفوظ رہا اور اپ امت کے لیے چراغ ہدایت بنے اور یہ جناب زینب کی بہادری کا ثمر تھا۔
اب جناب زینب جو کربلہ کی قافلہ کربلہ کی سالار بنی۔ اب زینب ہے جو تن و تنہا حسینی فرائض ادا کرنی ہے اب زینب ہے جنہیں کربلہ کا کارنامہ اور پیغام کوفہ پہنچاناہے۔ابن سعد کے حکم پر اسیران کربلہ کو بے کوزے اونٹون پر سوار کرکے کوفے کی طرف روانہ کی گئی اور اس طرح ان اسیرون کا قافلہ گیارہ محرم عصر کے وقت کوفہ کی طرف روانہ ہوگئی۔امام علی ابن حسین کو بھی ایک ننگی اونٹ پر سوار کرکے رسی سے بندھی گئی تاکہ بیماری کی حالت میں اونٹ سے نہ گر ے۔جب اسیران کربلہ کا بے یارو مدد گار قافلہ شہر کے دروازے پر پہنچا،لگتا تھا کہ امام حسین اور اس کے رفقاء کار کی شہادت کی خبر سنکر اہل کوفہ کا عظیم ہجوم وہ پہنچ چکے تھے۔اور لوگ اہل بیت کے اردگرد جمع ہورہے تھے کوفہ کی عورتین بغیر چادر کے خانوادہ رسول کو دیکھ کر چادریں ان کے سروں پر ڈال دیے جب قافلہ شہر میں داخل ہوا تو لوگوں کی بھیڑ تھی اور جناب زینب ایک ننگی اونٹ کی پیھڈ پر سوار تھی جو سب سے اگے چل رہا تھا،نہ اپ کی چہرے پر گھبراہٹ تھی نہ نالان۔اپ کی نگاہیں کوفیون کی سینون کو چیر رہی تھی وہ حسینی انقلاب کی پیامبر تھی اور وہ عاشورہ سے گزر کر اس لیے ائی تھی کہ جھوٹے پروپگنڈون کے درمیاں شیہدون کا پیغام لوگوں تک پہنچایا جائے وہ اپنی بھائی کی امانت دار بہن تھی جو شہادت کی سرخ گلزاروں سے گزر کر ائی تھی۔


ان حالات میں جب کوفی پیشمان و پریشان تھے اور اپنے کیے پر نالان تھے اپ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا
خاموش ہو جاو اے کوفہ کے لوگو سناٹا چھا گیا اونٹوں کے بیلوں کی اوازیں خاموش ہوئی۔کربلہ کی شیردل خاتون،اسیروں کے قافلے کی سالار بول رہی تھی۔خدا کی قسم کسی پردہ نشین عورت کو یونہی خطاب کرتے نہیں دیکھا گیا تھا اپ نے فرمایا تمام حمدو ستائش خدا یکتا کے لیے ہیں اور محمد ﷺ اور ان کی آل پر درود و سلام ہو اما بعد ا ے کوفیو اے پیمان شکن و بد عہدو اے مکرو فریب والو، ایا تم لوگ ہمارے حال پر رو رہے ہو اور ہمارے لیے تمہارے نالے بلند ہیں بس جتنا چاہو روتے رہو کہ اے کاش تمہارے انکھوں کے انسو کبھی نہ روکے۔تم اس عورت کی مانند ہو جو ایک مضبوط رسی باٹتی ہے اور اسے جگہ جگہ سے کاٹ دیتی ہے۔تم نے بھی ایمان کی رسی باٹی عہدو پیمان کی رسی بندھی اور رشتہ ایمان کو کاٹ ڈالا اور تما م عہدو پیمان توڑ دیے۔تم لوگ کیچڑ میں اگے پودے کی مانند ہو یا اس پھتر کی جو قبر کی زینت بنایا جاتاہے تم نے کتنا برا ذات سفر اپنے لیے زخیرہ کی ہو۔اپ تم کہتے ہو کہ تم ہمارے حال پے رو رہے ہو۔خدا کی قسم تم رونے کے مستحق ہو بس روتے رہو اور تمہارے نصیب میں ہنسنا کم ہو۔تم نے بس ذلت و خواری کا داغ اپنے دامن پر لگائے ہو جو کسی بھی پانی سے صاف نہیں ہوگا۔تم حیرت کر رہے ہو تم لوگوں نے جو گناہ کیا ہے اس پر اسمان سے خون ٹپکے تو کوئی تعجب نہیں ہوتا اور اس گناہ کے سبب سخت اور رسوا کنندہ عذاب تمہارے انتظار میں ہے اور تمہیں کوئی ایمان کی جگہ نہیں مل سکے گی کیونکہ بیشک خداوند گنہگاروں کو نہیں بخشتا۔اس کے بعد اس بہادر خاتون نے دربار ابن زیاد اور دربار یزید کو جس طرح للکاری اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
اور یہ تھی ایک تاریخی روایت،ایک داستان،تمام عظمت و جود کے ساتھ داستان انقلاب کربلہ۔اور یہی حسینی انقلاب تا ابد جاویدان رہے گا کیونکہ کل یوم عاشور کل عرض کربلہ (ہر روز عاشورہ اور ہر زمین کربلہ ہے)۔اب حسین تھجے کس خطاب سے یاد کریں چراغ راہ کہیں یا کشتی نجات کہیں۔ہائے وہ خون جو تاپتے صحرا میں بہایا گیا لیکن پورے جوش و خروش کے ساتھ دامن تاریخ پر روان دوان ہے،اے شہید راہ صداقت ہماری جیون اپکی خون سے جاویداں ہے۔


شیئر کریں: