Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوائے سُرود…..سوشل میڈیا اور ہماری بے پروائی…..شہزادی کوثر

شیئر کریں:

سوشل میڈیا نے ایک طرف خبر رسانی اور معلومات کی ترسیل کو آسان اور تیز تر بنایا ہے تو دوسری طرف ان خبروں کی وجہ سے پریشانی میں اضافہ بھی ہوتا ہے، کوئی واقعہ پیش ٓاجائے تو اس کے بارے میں ملنے والی ہر خبر دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔کسی سانحے یا حادثے میں جان بحق اور زخمی افراد کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی سہی تعداد کیا ہےْ؟ اس بارے میں ہر وہ شخص ذمہ دار ہے جو میڈیا کے ساتھ خود کو منسلک رکھنے میں سب سے آگے ہے۔ ٓاج کل ہر کوئی اپنی جیب میں موبائل فون لئے پھرتا ہےسکول جانے والے بچوں سے لے کر مویشی چرانے والے تک،موبائل سب کی پہنچ میں ہے۔ایسے میں اس کے سہی استعمال کی ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی، بعض بے پروا والدین ساتویں  اور ٓاٹھویں میں پڑھنے والے بچوں کے ہاتھ میں بھی تھما دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس عمر میں اس کی کیا ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہ بچہ اسے کس مقصد کے لیے استعمال کرے گا؟ یہ بہت بڑی حماقت ہے کہ اپنے ہاتھ سے ان کا مستقبل برباد کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس کچی عمر میں اگر بچوں کو فون کی لت لگ جائے تو وہ اسکول کو خدا حافظ کہنے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات سے بھی فارغ ہو جاتے ہیں ،کیونکہ اس کے ذریعے وہ انٹرنیٹ کی ایسی شیطانی دنیا میں نکل جاتے ہیں جہاں سے واپسی اگر نا ممکن نہ ہو تو مشکل ضرور ہوتی ہے۔ ماں باپ بچوں سے لاڈ کرنے اور ان کی ہر خواہش کا احترام کرنے کی غلط فہمی میں کس سنگین غلطی بلکہ جرم کے مرتکب ہو جاتے ہیں اس کا انداذہ تب ہوتا ہے جب پانی سر سے اوپر ہو چکا ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پچھتاوے کی نوبت نہ ٓائے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر وقت موبائل فون کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔بغیر تحقیق اور تصدیق کیے ایسی پوسٹ شئیر کرتے رہتے ہیں جن میں صداقت کی کمی ہو  یا حقیقت کا چہرہ مسخ کر کے شائع کرتے ہیں جس کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کو ذہنی اذیت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کی گھریلو وڈیو غلطی سے شئیر ہو جائے تو اسے بھی ایک دوسرے کو یہ کہتے ہوئے بھیجتے ہیں کہ دیکھو کتنی بےشرمی پھیل گئی ہے حیا کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔۔۔۔۔  کوئی ان سے نہیں پوچھتا اگر اس انسان میں حیا نہیں تو ٓاپ میں تو ہونی چاہیے ٓاپ نے اس کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا ؟ غیر اخلاقی چیز کو روکنا چاہیئے نہ کہ اس کی تشہیر مزے لے لے کر کیا جائے۔ کسی نے غلط کیا تو ٓاپ اس کو درست کریں اگر نہیں کر سکتے تو مزید غلط کرنے کی اجازت ٓاپ کو کس نے دی ہے؟  یہ تو کوئی جواز نہیں کہ اس نے اپنی عزت نہیں کی اپنا پردہ نہیں رکھا تو میں اس کا پردہ کیوں رکھوں؟   پردہ رکھنے کا حکم اللہ نے دیا ہے  اس لئے دوسروں کی پردہ پوشی ضروری ہے،کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ اخلاق باختہ اور قبیح فعل پر خاموش تماشائی بن کر بیٹھا جائے بلکہ کوشش یہ ہونی چایئے کہ ہم جن کے ہاتھ میں موبائل تھمانے لگے ہیں وہ اس قابل ہے کہ اپنی اور اپنے خاندان کے ننگ و ناموس کا پاس رکھ سکےْ ؟ انہیں ضروری اورغیر ضروری کا فرق معلوم ہےَ؟  وہ اتنا سنجیدہ اور میچور ہے کہ اس کے مثبت اور منفی استعمال سے واقف ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی ممتا یا پدرانہ شفقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر نا قابل ِتلافی نقصان کی طرف جا رہے ہیں ؟                                                                                       

چترال کے اندر ہی کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کے بارے میں کوئی بھی غیرت مند انسان سننا یا بولنا نہیں چاہے گا ،حالیہ دنوں میں بالائی چترال کے ایک ہی گاوں میں دہرے قتل اور خود کشی کے تین واقعات سننے میں ٓائے ہیں ،دل دہلا دینے والے ان واقعات کے پیچھے کی کہانی جو بھی ہو اجتماعی سوچ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اس خناس موبائل کی کارستانی ہے جس نے ان خاندانون کو یہ دن دیکھنے پر مجبور کیا ۔ ان سب کی ذمہ داری کن پہ ٓاتی ہے ،، کیا ہم والدین کو موردِ الزام ٹہرائیں ؟ مقتولین کی نا سمجھی ونادانی اس کی وجہ بنی؟ یا ہمارا اجتماعی معاشرہ اس گناہ میں ملوث ہے؟  خطا کار جوبھی ہو اس غم ،دکھ ،بے عزتی اور گناہ کا خمیازہ پورے سماج کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہماری نئی نسل بربادی کے جہنم میں منہ کے بل گرے ہمیں کچھ کرنا ہو گا ۔کوئی ایسا طریقہ کار ِ۔ایسی کوشش اور حکمت عملی اپنانا ہوگی جس سے ان معصوموں کو موبائل فون کی گرفت سے ٓازاد کر کے اور اپنا فرض ادا کرسکیں ۔                                              


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
39407