Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قاضی آف ورشی گھوم”مولانا محمد قربانؒ” ….تحریر: شمس الحق نوازش غذری

شیئر کریں:


ان کا گھر بیک وقت سکول بھی تھا اور ہاسپٹل بھی، کیونکہ وہ خاتونِ خانہ عالمہ بھی تھی اور طبیبہ بھی۔۔۔ مجھے بھی”الف با”سیکھنے کی آغاز کا اعزاز اسی گھر سے ہوا یعنی میری زندگی کا پہلا سکول بھی وہی گھر تھا۔یہی نہیں بلکہ بچپن میں پہلی بار میری ایک بیماری کا علاج بھی اسی گھر میں ہوا تھا۔میری والدہ کو مجھے تعلیم دینے کی فکر ہو یا میری صحت کی، میرے مستقبل کے حوالے سے کوئی پلاننگ ہو یا میری تربیت کی میری دیہاتی ماں فوراً اٹھ کے میری انگلی پکڑتی اور اس گھر کی راہ لے لیتی، میری ماں کی طرح میرے گاؤں اور میرے گاؤں سے متصل دیگر دیہاتوں کے خواتین بھی اپنے بچوں کو علاج معالجے کے علاوہ تعلیم و تربیت کے لئے اسی گھر میں لے آتیں اور وہ طبیبہ ہمیشہ ایسی ادویات تجویز کرتیں جو ہر قسم کی سائیڈ ایفیکٹ سے پاک ہونے کے علاوہ گاؤں والوں کے گھروں میں ہی دستیاب ہوتیں۔وہ اکثر اوقات ایک جنگلی پودے کی ٹہنی کو تراش کر اس کا برادہ نکالتی پھر اس برادے کو چھان کر سفوف بناتی اور ایک چٹکی کے برابر مقدار میں مریض کے بدن کے کسی حصے میں رکھ دیتی اور اور چھوٹی سی چنگاری سے اس کو جلا دیتی مریض کو جونہی جلن محسوس ہوتی وہ اس پر اپنی گیلی انگلی کا پور رکھ کر دبا دیتی اس سے مریض کو انجکشن کے برابر تکلیف ہوتی او ر مریض فوراً افاقہ محسوس کرتا ان تمام خدمات کے عوض اس مدرسے کی کوئی فیس تھی اور نہ ہی اس مطب کی۔۔۔ دنیا کے کسی بھی مدرسہ یا سکول کے چھوٹے بچوں کی معصوم خواہشات میں سے ایک چھوٹی سی بچگانہ خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن سر درد، دانت درد یا بخار کا بہانہ بنا کر سکول سے خودساختہ چھٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس مدرسے میں کوئی ناٹک، کوئی حیلہ اور کوئی بہانہ کبھی کارگر اور کامیاب نہیں ہوتا تھا کیونکہ بیماری کی صورت میں بھی وہی جانا تھا جہاں وہی معلمہ طبیبہ کی روپ میں تشریف فرما ہوتیں۔وہ مدرسہ علامہ اقبال کے ان اشعار کی عملی تفسیر تھا۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا


ایک روزحسب معمول چھٹی کے بعد ہم وہاں سے نکل رہے تھے یکایک شاہانہ لباس میں ملبوس ایک انتہائی وجیہہ اور با رعب شخص وہاں نظر آیا، چہرے پر کالی اور گھنی داڑھی خوب سج رہی تھی اور اوپر سے جناح کیپ نے ان کی شخصیت کو دوبالا کر دیا تھامیں اور میرے گاؤں کے سارے فیلوز نورانی قاعدہ ہاتھوں میں تھامے ان کو اپنے نرغے میں لئے، ہماری تجسس کر دیکھ کر انہوں نے بھی ہمارے درمیاں کھڑا ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جبکہ ہم چاروں طرف سے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے کی آس میں خودکو فراموش کر بیٹھے۔یہ منظر بالکل ایسا تھا جیسے گاؤں میں کوئی پھیری والا پٹھان پھیری لگاتا تو ہم ایسا ہی دائرہ اور حلقہ بنا کر ان کو ان کے کھلونوں کو اتنی توجہ سے دیکھتے تھے جتنی توجہ اور رغبت سے آج کے بچے کارٹون دیکھتے ہیں۔ مجھے اپنی طالب علمی کے ایک برس کے دورانیے تک اپنی گاؤں کے اس واحد میڈیکل اور ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ میں کبھی ایسا شخص دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔یہاں تو اکثر سیدھے سادھے، ڈھیلے ڈھالے اور سلوٹوں سے مزین کپڑے
پہنے ہوئے دیہاتی ہی نظر آتے تھے۔لیکن آج کے روز انہیں دیکھتے ہوئے ہم میں سے ہر کوئی بزبان حال کہہ رہا تھا:


کہاں ہم کہاں یہ نگہت گل
نسیمِ صبح، تیری مہربانی


ان کو گاؤں کے تمام بچوں کی معصومی اور سادہ لوحی کا بھرپور احساس اور ادراک تھا، وہ مسلسل مسکراتے ہوئے تمام بچوں کے سروں پر انتہائی محبت اور شفقت سے ہاتھ پھیرتا رہا اور باری باری ہم سے ہم سب کا نام پوچھتا رہا جب ہم اپنے اپنے نام اور ولدیت بتانے لگے تو ہر نام سننے کے ساتھ ان کے چہرے میں شگفتگی اور شادابی پھیلتی رہی اور ان کے چہرے کی حسن و دلکشی دوبالا ہوتی رہی۔ ان کی ساحرانہ شخصیت اور وجاہت نے مرکز مائل قوت کی طرح ہمارے وہاں سے ہٹنے کی فکر و سوچ کو زائل ہی کر دیا تھا۔جب ہماری زیارت کا عمل طوالت اختیار کر گیا اور ہم معصومیت کی حدود پھلانگ کر نادانی کی سرحد میں داخل ہوئے تو انہیں بھی ہماری دیہاتی مورکھ پن کا اندازہ ہوا۔یوں وہ مسکراہٹ کے ساتھ انتہائی ٹکسائی کھوار اور دل آویز لہجے میں “تھے جام مہ بلبلان”کہتے ہوئے حیرت زدہ بچوں کا حصار توڑ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ان کے وہاں سے چلے جانے کے بعد ہم سب سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اس وقت میرے اور میرے تمام کلاس میٹ کے ذہنوں میں ایک ہی قسم کے سوالات منڈلا رہے تھے لیکن حیرت و تعجب کی ملی جلی کیفیت نے ہمارے اوپر سکوت طاری کر دیا تھا البتہ دل ہی دل میں تمام طلبہ خود سے یہی سوال پوچھ رہے تھے یہ حیرت افزا اجنبی کون ہے اور کہاں سے آیا ہوا ہے؟انہی سوچوں میں گم صم ہو کر دوسرے بچوں کی طرح میں بھی اپنے گھر پہنچا گھر کے اندرونی دروازے کی چوکھٹ میں قدم رکھتے ہی آج کی سرگزشت کا آغاز اس خوش اسلوب شخص کی شخصیت سے کیا۔گھر والے ہماری تجسس اور بے چینی کو بھانپتے ہی ہمارے تمام سوالوں کے جواب ایک ہی سانس میں دیئے لیکن ہماری تجسس کو چین اس وقت ملا اور ہم خوشی سے اس وقت پھولے نہ سمانے لگے جب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ شخص ہماری اس معلمہ کی فرزند ارجمند ہیں جو ایک ہی وقت میں معالج بھی ہیں اور مدرس بھی جو بلا معاوضہ جاہلوں کو علم سے بھی نوازتی ہے اور بیماروں کے لے لئے دوا بھی تجویز کرتی ہیں۔غالباً اس لئے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی سنت اور انسان کی آئین میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔ انسان ہمیشہ ان لوگوں کی قربت اختیار کرتا ہے جو دولت، مرتبہ اور رتبے میں اعلیٰ ہوتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ بے بسوں کی بے بسی اور بے کسو ں کی بے کسی میں ہوتے ہیں۔لہٰذا جو لوگ اللہ کے بے بس مخلوق کی بے بسی اور بے کس مخلوق کی بے کسی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ بھی ایسے لوگوں کی طرف رحم و کرم کی نظر فرماتے ہیں۔


ان کی پیدائش اور آفرینش کا واقعہ بھی تحیّر و تعجب سے خالی نہیں ہے، جس دن بلکہ جس لمحے ان کی ولادت ہوئی عین اسی دن بلکہ اسی پل ان کے والد محترم جان جانِ آفرین کے حوالے کر دی۔یہ 1942ء کے موسم بہار کی ایک ٹھنڈی صبح کا واقعہ ہے اس روز وادی یاسین کے ایک گھر میں نومولود بچے کے ساتھ ساتھ گھر کے بڑے بھی رو رہے تھے۔ اس دن اس گھر میں قاضی محمد قربان نے آنکھ کھولی تھی جبکہ قاضی محمد قوی کی آنکھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوئی تھی اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یتیمی اور بے پدری کے باوجود ایک نہ ایک دن یہ بچہ شائق حدیث اور علامتہ الدھر بن کر اسی سر زمین میں قدم رنجہ فرمائے گا۔ پھر وقت اور زمانے نے ثابت کر دیا نیک نامی اور ناموری کی شہرت سائے کی طرح ان کے ساتھ چمٹی رہی۔مولانا سکندر چترالی نے ایک مرتبہ فرمایا تھاکہ غذر میں جتنی شہرت ورشی گھوم کے قاضی محمد قربان کی ہے اتنی شہرت ورشی گھوم کی نہیں۔آغوش مادر کو پہلے ہی مکتب و مطب کا درجہ حاصل تھا یوں ابتدائی تعلیم کا آغاز غیر محسوس طور پر شیر خوارگی کے زمانے۔۔۔۔۔ سے ہی والدہ ماجدہ کی گود سے ہوا، ثانوی تعلیم کے لئے گلاپور اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیئے وطن عزیز کا انتہائی شہرۂ آفاق ادارہ دارالعلوم کراچی کا رخ کیا۔دارالعلوم کراچی سے سندِ فراغت کے بعد مزید دینی علوم کی تکمیل کے لئے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے


شیئر کریں: