Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صدر صاحب ہمیں آپ سے محبت ہے۔۔۔۔۔۔ ترش و شیرین۔۔۔۔۔۔۔۔نثار احمد

شیئر کریں:

    برصغیر کے روایتی دینی مدارس میں سب سے بڑی زمہ داری اہتمام و انتظام ہوتا ہے۔ مدرسہ چلانے کے لئے لوازمات کا اہتمام کرنے والا شخص مہتمم کہلاتا ہے۔ یہ مہتمم ہی ہوتا ہے جسے طالب علموں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہرممکن طریقہ بروئے کار لانا ہوتا ہے۔شاید اسی وجہ سے بطورِ مزاح یہ جملہ بڑا مشہور ہے کہ مہتمم کو ہر وقت، ہر شی مانگنا ہوتا ہے اور ہر ایک سے مانگنا ہوتا ہے۔ مزاح برطرف، اہتمام کے لئے شروع میں مہتمم کو پاپڑ ہی نہیں،اور بھی بہت کچھ بیلنا پڑتا ہے۔ در در کی ٹھوکریں کھانے کے علاوہ کبھی کبھار جلی کٹی بھی سننی پڑتی ہیں۔ اہتمام کتنے جان جوکھوں کا کام ہے اس کا اندازہ آٹھ سے دس افراد پر مشتمل گھر چلانے والا کوئی بھی شخص بآسانی کر سکتا ہے۔ 

     مہتمم کا عہدہ مدرسے میں کسی بھی عہدے سے بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ گویا ایک طرف اگر مدرسہ چلانے کے لئے وسائل پیدا کرنے کی زمہ داری مہتمم کے کندھوں پر ہوتی ہے وہاں دوسری طرف مہتمم مدرسے میں سیاہ وسفید کا مالک بھی ہوتا ہے۔ ناظم تعلیمات، ناظم مطعم اور ناظم دارالاقامہ وغیرہ مہتمم کے ویژن کی روشنی میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ کسی بھی مدرسے کی کامیابی کا کل انحصار مہتمم پر ہوتا ہے۔ مہتمم اگر مخلص، باصلاحیت، ویژنری اور باتدبیر ہو تو وہ مدرسہ اچھے طریقے سے چلتا ہے۔ وہ مدرسہ چلانے کے لئے نہ صرف بہترین اہل ٹیم کا انتخاب کرتا ہے بلکہ انہیں مناسب مراعات دینے کے ساتھ ساتھ بااختیار بھی بناتا ہے۔مہتم اگر خداداد صلاحیت سے عاری ہو تو وہ اپنے مدرسے میں “وَن مین شو” متعارف کرواتا ہے، یوں بات بات پر اساتذہ کو مدرسے سے بے دخل کر دیتا ہے۔ ایسے مدرسے سے بطورِ استاذ یا بطورِ ناظم جُڑے رہنے کا معیار صلاحیت نہیں، مہتمم کے ہاں میں ہاں ہاں ملانا ہوتا ہے۔ ایسا مدرسہ جلد یا بدیر زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ 

           دینی مدارس کے اساتذہ کی بڑی تعداد مہتمم حضرات کو کوستی اور ان کے انداز ِ اہتمام سے نالاں نظر آتی ہے۔ انہیں شکایت ہوتی ہے کہ ہمیں تو مہینے کے آخر میں بنامِ مشاہرہ (تنخواہ) انتہائی قلیل رقم ملتی ہے جب کہ مہتمم حضرات  “حسبِ ضرورت ”  لیتے رہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مدارس میں تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اگلے بندے کو یقین نہیں آتا کہ اتنی کم تنخواہ میں مولانا صاحب تیس دن کا پورا مہینہ کیسے نکال لیتے ہیں۔ مدارس سے وابستہ حضرات اتنے کم پیسوں میں ضروریاتِ زندگی بحُسن و خوبی نکل جانے کو “برکت” سے تعبیر کرتے ہیں۔جب کہ میری نظر میں اس معمے کا تعلق برکت کے علاوہ دوسری چیزوں سے بھی ہے۔اساتذہ کی تنخواہ کم کیوں ہے؟ اس کا زمہ دار معاشرہ ہے یا مہتمم، اس بحث کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔

         مادر ِ علمی جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کا شمار بھی اُن مدارس میں ہوتا ہے جہاں نہ صرف اساتذہ کو شکوہ شکایت کا موقع نہیں دیا جاتا بلکہ زیر ِ تعلیم طلبہ کی ضروریات کی تکمیل اور راحت رسانی کا بھی ازحد خیال رکھا جاتاہے۔ یہاں اساتذہ کا تقرّر صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر مطلوبہ معیار کی کسوٹی پر پرکھ کر کیا جاتاہے۔ اساتذہ کے لئے باقاعدہ گریڈنگ انفراسٹرکچر متعارف ہے۔ سروس اور گریڈ کے حساب سے ہر مہینے کے آخر میں تنخواہ ملتی ہے۔ ہر پانچ سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی ہوتی ہے۔ جس طرح سرکاری ملازمین کو ہر سال انکریمنٹ ملتا ہے اسی طرح یہاں بھی ہر سال اساتذہ کی تنخواہوں میں حسبِ ِسروس اضافہ ہوتا ہے۔ شو کاز نوٹس دیے اور معقول وجہ بتائے بغیر کسی استاد کو مدرسے سے نکالا نہیں جاتا۔ ہر رمضان میں شعبہ حفظ و ناظرہ کے اساتذہ کو ڈبل تنخواہ ملتی ہے۔۔ یوں یہاں اساتذہ کسی حد تک معاشی مسائل سے آزاد ہو کر اپنی تدریسی زمہ داری پر سرانجام دیتے ہیں۔ 

          مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے مہتمم ہیں۔ دارالعلوم میں انہیں مہتمم کی بجائے “صدرِ جامعہ دارالعلوم” کہا جاتا ہے۔ مدرسے کے اندر اساتذہ اور طلبہ مذید اختصار کے ساتھ انہیں “صدر صاحب” بولتے ہیں۔صدر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے انتظام و انصام کی بے پناہ اور قابلِ رشک صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ یہ صدر صاحب ہی کمال ہے کہ دارالعلوم کراچی کا چپہ چپہ حسنِ انتظام کا مرقع  نظر آتا ہے۔ دارالعلوم کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی بندہ دارالعلوم کے دیدہ زیب اور جاذب ِ توجہ منظر کو دیکھ کر نہ صرف ورطہ ء حیرت میں ڈوب جاتا ہے بلکہ صدر صاحب کے ذوقِ نفاست کو بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہاں مختلف امور کی صحیح انجام دہی کے لئے مختلف شعبے قائم ہیں۔ ہر شعبے کا زمہ دار اپنے شعبے کی کارکردگی کے حوالے سے صدر صاحب کو جواب دہ ہوتا ہے۔  بلڈنگس کی تعمیر میں بین الاقوامی معیارات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ یہاں سبزہ زاروں سے لے کر کھیل کے میدان تک ایک خاص ترتیب، ڈھنگ اور سلیقے سے بنائے گئے ہیں۔ یہاں ہر چیز کا انتظام جدید معیار کے مطابق کیا جاتا ہے۔ طلبہ کی رہائش کے لئے بہترین سہولیات سے آراستہ ہزاروں کمرے بنے ہوئے ہیں۔ ہر کمرے میں پانچ طالب علم رہتے ہیں۔ ہر طالب علم کو الگ چارپائی، ٹیبل، الماری، اور لیمپ مہیا کیا جاتا ہے۔ 

 طلبہ کرام کی حضرت صدر صاحب کے ساتھ انتہائی گہری،  والہانہ اور بےتحاشہ محبت ہوتی ہے۔ اس محبت کی وجہ یہی ہے کہ صدر صاحب طلبہ کا خیال اپنے بچوں جیسا رکھتے ہیں۔ صدر صاحب کے گھر میں معاوضتاً روزانہ وہی کھانا جاتا ہے جو طالب علموں کے لئے دارالعلوم کے مطبخ میں پکتا ہے۔ یہ اس لئے کہ طلبہ کے کھانے کے معیار پر کوئی کوتاہی نہ ہو۔ دوران ِ طالب علمی ہمیں اُس دن بڑی خوشی ہوتی تھی جب مغرب کے بعد صدر صاحب کا دارالعلوم کے تمام طلبہ سے خطاب ہوتا تھا۔ بیان کے بعد صدر صاحب طلبہ کی طرف سے پرچیوں کی شکل میں آئے ہوئے تجاویز سنتے، ان پر عملدرآمد کروانے کے احکامات دیتے اور شکایات بروقت دور کرتے۔ یہ صدر صاحب کی محبت ہی تھی کہ ہر قمری ماہ کی پندرہ تاریخ کو ہمیں ٹھیک ٹھاک وظیفہ ملتا تھا۔ سن دو ہزار پندرہ کو جب دارالعلوم چھوڑ کر آیا تھا اس وقت میرا وظیفہ تین ہزار تھا۔     میں نے دارالعلوم میں پورے تیرہ  گزارے۔ ان تیرہ سالوں میں مجھے کھبی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ صدر صاحب کی ہم سے محبت میں کمی آئی ہو۔ ان تیرہ سالوں اس بوڑھے شخص کو طلبہ کے لئے ہی فکرمند اور سرگرداں پایا۔ جب بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں اپنے اس محسن کی درازی ء عمر کے لئے زبان سے دعائیں ضرور نکلتی ہیں۔لو یو صدر صاحب، اللہ آپ کو سدا خوش رکھے۔ ہمیں اب بھی آپ سے محبت ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
39386