Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد …..میرا پیغام محبت ہے…… ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

شیئر کریں:

ایک خبر نظر سے گذری خبر میں قو می اسمبلی کی کاروائی کا خلا صہ ہے جس میں ایوان کے دونوں جا نب سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھا لنے کے واقعات کا تذکرہ ہے اور یہ ایک دن کی بات نہیں ہر روز ایسا ہی ہو تا ہے اچھا پارلیمنٹرین اس کو سمجھا جا تاہے جو دوسروں کے عیب جا نتا ہو اور مزے لے لے کر ان کا ذکر بھی کر سکتا ہو خواتیں پا ر لیمنٹرین بھی اس کام میں مر دوں سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ دو قدم آگے نظر آتی ہیں پارلیمنٹ کو نفرت کے اظہار کا پلیٹ فارم بنا یا گیا ہے اور یہ صرف پارلیمنٹ پر منحصر نہیں زندگی کے ہر شعبے میں یہی چلن عام ہے آج میڈیا میں مدارس اور یو نیورسٹیوں کے خلاف نفرت انگیز مواد کی بھر مار ہے مواد اس قدر گندا ہے کہ اس کو نقل کرنے کی ہمت نہیں ہو تی مدرسوں کے علماء آپس میں بھی دوست، بھائی اور شیرو شکر نہیں ہیں وہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز بیا نات دے کر خو شی سے پھولے نہیں سما تے یہاں مو لا نا طارق جمیل کے خلا ف رطب و یا بس بھر ا ہو اہے وہاں جا وید غامدی کے خلا ف زہر اگلنے کا عمل جاری ہے ایک گروہ نے مو لا نا منظور مینگل کے خلاف محا ذ کھول دیا ہے تو دوسرے جھتے نے مو لا نا طاہر اشرفی کے خلاف محاذ گرم کر رکھا ہے اس گہما گہمی میں ایک بڑا گروہ 40سال پیچھے جا کر مو لا نا مو دودی کے افکار کا موا خذہ کر رہا ہے دوسرا گروہ مو لا نا احمد رضا خان بریلی کے خلاف صف ارا ہے اب زندہ لو گوں کی دشمنیاں گذر ے ہوئے اسلاف کی قبروں تک کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے نظر آتی ہیں خصو صاً سوشل میڈیا ٹو یٹر اور فیس بک اس نوعیت کی غلا ظتوں سے بھرا ہوا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا نفرتوں کے اس کاروبار نے پا کستانی معا شرے کے کسی بھی طبقے کو نہیں بخشا اخبارات اور ٹیلی وژن پر آپ کو بھارت اور اسرائیل کے خلا ف اتنا مواد نظر نہیں آئے گا جتنا مواد نواز شریف، عمران خان زرداری اور مو لانا فضل الرحمن کے خلاف دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے تھوڑا سا آگے بڑھیں تو آپ کو افسر شاہی یعنی بیورو کریسی کے خلاف بہت سارا مواد مل جائے گا،ایک قدم آگے بڑھیں تو عدلیہ کے خلاف زہر افشا نی سے پا لا پڑے گا ایک قدم اور آگے بڑھیں تو ضیاء الحق اورپرویز مشرف کا نام لیکر جرنلیوں کے خلا ف زہر اگلنے والوں سے پا لا پڑے گا شاعر کی بات یہاں سب پر صادق آتی ہے ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
مر غ باد نما تڑپے ہے آشیانے میں
پریس کلب کی ایک غیر رسمی نشست میں اس نفرت انگیزی کے حوالے سے نکتہ اٹھا یا گیا احباب نے کہا یہ انتخا بی سیا ست کی رقا بتیں ہیں جو معا شرے کے تمام طبقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں ہم نے عرض کیا انتخا بی سیا ست امریکہ، بر طا نیہ اور بھا رت میں بھی ہو تی ہے وہاں انتخا بات سے ذاتی دشمنی اور دائمی رقا بت پیدا نہیں ہوتی ایک دوست نے کہا سویلین اور غیر سویلین کی با ہمی منا قشت سے الزاما ت کی سیا ست جنم لیتی ہے ہم نے کہا یہ بھی پورا سچ نہیں ہے صحا فیوں میں ایک گرگ باراں دیدہ اور گرم وسرد چشیدہ بزرگ بیٹھا تھا ان کی نظر اخبار پر مر کوز تھی مگر ان کے کان ہماری گفتگو کا لطف اٹھا رہے تھے انہوں نے اخبار کو میز پر رکھا اور سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بعد بولا میں نے اخبار کے لئے پہلی خبر 1958ء میں بھیجی تھی 62سال اس دشت کی سیا حی میں گذرے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے یہی منظر 1958ء میں دیکھا تھا پھر بزر گوں سے سُنا کہ معاشرے میں نفرتوں کا گودام سرد جنگ کی وجہ سے بھر گیا تھا 1951اور 1953میں جو بیج کاشت ہوئے تھے ان کی فصل نصف صدی گذر نے کے بعد پک کر تیار ہو گئی ہے جب ہماری قیادت نے سویت یونین کے مقا بلے میں امریکی کیمپ میں جا نے کو تر جیح دی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں عالمی طاقتوں نے پاکستان کواپنی خفیہ ایجنسیوں کا میدان جنگ بنا لیا دونوں ایجنسیوں نے دیکھا کہ پاکستان میں برٹش انڈیا کی چھوڑی ہوئی بیورو کریسی بہت طاقتور ہے دونوں نے اپنے مفادات کے لئے بیورو کریسی کو نشا نہ بنا یا بیورو کریسی کے خلا ف اخبارات کے ذریعے با قاعدہ مہم چلا ئی گئی ساتھ ساتھ سیا ستدانوں کی کر دار کشی بھی شروع ہوئی 1958تک کا زمانہ محض کر دار کشی کا دور تھا فیلڈ مارشل ایوب نے حکومت سنبھا لی تو دونوں طبقے عوام کی نظر وں میں معتوب ٹھہرا یے گئے تھے فیلڈ مارشل نے 303افسروں کو جبری ریٹائر منٹ پر گھر بھیجدیا اور سیا ستدا نوں کے خلاف ایبڈ و (EBDO) کا قانون لا کر تما م سیا سی شخصیا ت کو نا اہل قرار دیا اور جیلوں میں ٹھونس دیا اخبارات گواہ ہیں کہ عوامی سطح پر دونوں اقدا مات کو سرا ہا گیا کیونکہ پرو پیگینڈے نے کام کیا ہواتھا اس کے بعد علماء کے خلاف پرو پگینڈہ شروع ہوا صحا فیوں، ججوں اور جرنیلوں کو بھی ٹار گٹ کیا گیا اور یہ کام اب بھی جاری ہے میڈیا کو پا کستان کے اندر مختلف طبقوں کے خلاف خبریں بنا کر بھیجی جا تی ہیں کردار کشی شروع ہونے کے بعد بیان بازی کی نو بت آتی ہے بیان با زی پار لیمنٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے نفرتیں بڑھتی ہیں کدو رتیں بڑھتی ہیں اور سیا ست بھی ذاتی دشمنی میں بدل جا تی ہے ایسے میں ایک بھی آواز نہیں جو کہدے ؎
ان کا جو کام ہے اہل سیا ست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
39249