Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فلسطین اور عرب دنیا کااسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ۔۔۔۔۔۔محمدآمین:

شیئر کریں:

اسرائیل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ ظالم قوم کے طور پر دنیا کے نقشے پر اترا ہے کیونکہ جو ظلم فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر کیا جاتا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے لیکن ستم ظریفی یہی ہے کہ کشمیر کی طرح دنیا کے بڑی طاقتیں فلسطین کے مسلے پر بھی خاموش بیھٹے ہیں کیون خاموش نہیں رہیں جب اعلان بیلفور ابھی تک لوگوں کے زہنون میں زندہ ہیں کہ کس طرح ہوشیاری اور مکاری کے ساتھ ان نام نہاد طاقتوں نے مسلمانوں کے سرزمین میں دنیا کے مختلف حصوں سے یہودیوں کو اکھٹے کرکے انہیں فلسطین میں بسادیے۔ان کے لئے وہ یورپ کے کسی دوسرے جہگہ میں بھی ایک ازاد ریاست کا بندوبست کرسکتے تھے لیکں چونکہ برطانیہ اور امریکہ کا بڑا مقصد مسلمانوں میں اپنی اجاداری قائم کرنا تھا اور ساتھ ہی ان میں ناچاقی پیدا کرکے ان پر بلاواسطہ اپنی تسلط جمانا بھی شامل تھا اپنی ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ان کو لارنس آف عربیا اور ابن سعود جیسے لوگ مل گئے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ ہٹلر ایک بہت بڑا ظالم شخص تھا جس نے لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو ہیلو کسٹ کے راستے دیکھائے دوسری طرف اس کو یہ بھی بخوبی معلوم ہوگا کہ یہودی بحثیت مکار قوم دنیا کے امن و اشتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔


جب 1924؁ء کے بعد ان استعماری طاقتوں نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے نئے مملکت کا اعلاں کردیے اور اہستہ اہستہ اس میں توسیع کرنے لگے تو عرب کے بعض حکمرانوں کی غیرت جاگنے لگے اور وہ اسرائیلی ریاست کیخلاف اٹھ کھڑے ہوے لیکں افسوس کہ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا مغربی ممالک خصوصا امریکہ نے ملٹری طور پر اسرائیل کی ریاست کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرچکا تھا اور اب وہ نشے کی حالت میں کسی بھی عرب ملک کو لکارنے کے لیے بے تاب تھااور اس طرح 1967؁ء کی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی جس سے نہ صرف زییونی ریاست (zionist state)سے اسانی جیتا بلکہ بہت سے علاقے شام،اردوں اپنے قبضے میں لیے جن میں ویسٹ بنک اور گولان ہائیڈز (Golan Heights) اہم ہیں۔اگرچہ اقوام متحدہ نے اسرائیلی حکومت کو ان غیر قانونی قابض علاقوں کو خالی کرنے کا کہہ رہا ہے اور کئی دفعہ قراردادیں بھی منظور کرچکی ہے لیکں انکل سام کی پشت پناہی کی بناء پر یہ بالکل ناممکن ہے کیونکہ اسرائیل کو مضبوط بنا نا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔


افسوس یہ نہیں کہ فلسطین کے مسلے پر امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک ہٹ دھرمی اور دغلیت سے کام لے رہے ہیں بلکہ بعض عرب مسلماں ریاستیں بھی امریکہ سے کندھے سے کندھے ملائے نظر اتے ہیں کیونکہ سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ امریکہ کے گہرے تعلقات استوا ر ہیں۔


فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو حالیہ دنوں سو سب سے بڑا دھچکہ پہنچا وہ تھا امریکی صدر ڈونالٹ ٹرمپ کا وائٹس ہاوس میں متحدہ عرب امارات اور ریاست اسرائیل کے سفارتی تعلقات کا اغاز تھا جس پر کچھ دنوں بعد امریکہ میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتھن یاہو اور یو اے ای کے امیر شیخ محمد بن زاید نہیان کے درمیان باقاعدہ طور پر معاہدے پر دستخط کرنا ہے اس معاہدے کو امریکی صدر نے تاریخی قرار دیا ہے اور اس کے بقول بہت جلد اسرائیل اور فلسطینی ریاست کے درمیان امن معاہدہ وجود میں ائے گا جن کی رو سے دونوں ریاستیں پر امن طور پر علاقے میں زندگی بسر کریں گے۔یو اے ای کی حکومت نے اس سے مڈل ایسٹ کی تاریخ میں ایک نیا اہم باب قرار دیا ہے جسکے مطابق اسرائیل مغربی کنارے کے علاقے (West Bank)کی اسرائیلی ریاست میں ضم ہونے کے عمل کو روک دیں۔ اور مصر کے ڈکٹٹر سسی نے اس معاہدے کو علاقے میں امن اور استحکام کے حوالے ایک سنگ میل قرار دیا۔بعض مبصریں کے مطابق یہ معاہدہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بہت جلد بحرین،مصراور سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی روابط قائم کریں گیااور کوشش یہ کی جائے گی کہ علاقے کے سارے ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایں۔دوسری طرح اس سے ٹرمپ کی امریکہ میں گرتی پوزیشن کو سنبھالنے کے لیے تنکے کے سہارے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔


جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے تو انہوں نے مکمل طور پر اس معاہدے کو مسترد کردی اور اسے فلسطینیو ن کے پیٹ پر چھری گھونپنے کے مترادف قرار دیے بلکہ احتجاج کے طور پر یو اے ای سے فلسطینی سفیر کو واپس بلایا گیا۔


اس اہم معاہدے سے یہ چیز عیاں ہوا کہ اس وقت مسلمانوں میں کتنی ناچاقی موجود ہے اور او ائی سی ایک بے بس اسلامی تنظیم کے طور پر ابھرا ہے یہ ابھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں دو بلاک بن چکی ہے ایک ترکی،ایران،قطر اور کسی حد تک پاکستان جبکہ دوسری جانب امریکہ کے اتحادی،سعودی عرب،یو اے ای اور بحرین۔ہمیں ان عرب ممالک سے کوئی بھی توقع وابسطہ نہیں کرنا چاہیے جنہیں ہم نے کشمیر کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں یہ صرف اپنی اقتدار کو براقرار رکھنے کے لیے مغربی ممالک اور خصوصا کے محتاج ہیں تاکہ ان کے آشربا سے ان کی ڈکٹٹرشب جاری رہے۔دوسری جانب حزب اللہ نے اسے ایک بڑا سازش قرار دیا اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔لیکن خوش ائند بات یہ ہے کہ او آئی سی میں ترکی،ایران،ملائیشاء اور قطر کا ایک منظم بلاک بننا اچھی پیش رفت ہے اور امید کی جاتی ہے کہ پاکستان بھی اس بلاک کی طرف جارہی ہے جس کی واضح مثال پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی حالیہ بیاں ہے جس میں اس نے سعودی عرب کو کشمیر کے حوالے سر مہری پر سے تنقید کا نشانہ بنا دیا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
39211