Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آزادی کے حوالے ایک تحریر ” بابا باولا “۔۔۔۔ تحریر: محمد ضیاءاللہ زاہد شجاع آبادی

شیئر کریں:


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور میں فیروز پور روڈ پر واقع ایک مدرسہ میں پڑھ رہا تھا۔ ایک دن ہم دوستوں نے مینارِ پاکستان کے سائے میں کچھ وقت گذارنے کا ارادہ کیا، چنانچہ ہم تین دوست اپنے ساتھ کچھ ریفریشمنٹ کا سامان لے کر سہ پہر تین بجے مینار پاکستان کے قریب جا بیٹھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم سے کچھ فاصلے پر کوئی پانچ چھ نوجوان اور آبیٹھے اور لڈو پر جوا کھیلنے لگے۔ ایک کے بعد دوسری گیم ابھی شاید جاری ہی تھی کہ دور سے ایک بوڑھے پر نظر پڑتے ہی ان میں سے ایک نے کہا ”بابا باولا“ اور فوراً ہی وہ اٹھ کر دوڑنے لگے۔ بابے کو غصے میں دیکھ کر ہم بھی خوف ذده ہوئے کہ کہیں یہ بابا ہمیں کوئی چیز اٹھا کر نہ مارے، لیکن ہم اپنی جگہ بیٹھے رہے اور بابے کی حرکات دیکھتے رہے۔ بابا کے چہرے پر غصے کے ساتھ ساتھ دکھ کے بھی آثار نظر آرہے تھے۔شاید اس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے جنہیں وہ بار بار آستین سے پونچھ رہا تھا۔ بابے نے ایک تیکھی نظر ہم پر ڈالی اور پھر ہم سے تھوڑی دور مینارِ پاکستان کی دوسری طرف جا بیٹھا۔ ہم تجسس کے مارے بابے کو کنکھیوں سے دیکھتے رہے۔ اب بابے نے خود سے باتیں شروع کردیں۔ اگرچہ ہم اس کی باتوں کو واضح طور پر نہیں سن سکتے تھے تاہم ہمیں اتنا معلوم ہوا کہ جیسے وہ کسی سے شکایت کررہا ہو ، کچھ دیر بعد یہ شکایت التجا میں بدل گئی اور ہم نے دیکھا کہ بابے نے اپنی قمیص کے نیچے کمر پر بندھا کوئی کپڑا کھولا اور اسے اپنی آنکھوں سے لگا کر رونے لگا اور پھر روتے روتے بابے کی ہچکی بندھ گئی۔ہم سے بابے کا اس طرح رونا برداشت نہ ہوا تو ہم اٹھ کر بابے کے قریب جابیٹھے، لیکن بابا اپنے غم میں اس قدر نڈھال تھا کہ جیسے اسے کچھ ہوش نہ ہو۔ آخر کار جب کافی دیر انتظار کرکے ہم تھک گئے تو جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ بابے کے کندھے پر رکھا، بابا ایک دم گھبرا کے پیچھے کو ہوا اور ہماری طرف دیکھ کر غصے سے  بولا کون ہو؟ میں نے بابا سے پوچھا کہ بابا جی خیریت تو ہے، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟  بابا جی نے کہا بیٹا یہ لوگ مجھے باولا سمجھتے ہیں، ہاں واقعی میں باولا ہوں ۔ میں اور میرے سب دوست باولے ہیں جو آزادی کی تحریک کا حصہ بنے۔ قائدِاعظم نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت تشکیل دے رہے ہیں جس کی بنیاد ” لا الٰہ الا اللہ“ ہوگی، ایک ایسی ریاست حاصل کرنا چاہتے ہیں جس میں لوگ قرآن و سنت کے مطابق زندگیاں بسر کریں گے، ایک ایسی سلطنت حاصل کرنا چاہتے ہیں جس میں طاقت کا سرچشمہ اللہ کی زات ہوگی اور ہم اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں گے۔ قیامت کے دن میں قائدِ اعظم سے پوچھوں گا کہ کیا انہوں نے ہمیں بےوقوف بنایا تھا ؟ ۔ ہمیں قائدِاعظم نے جھوٹی تسلیاں کیوں دیں؟ میں پوچھوں گا ،ضرور پوچھوں گا۔ بیٹا جب پاکستان کی تحریک چلی تو اس وقت میری عمر بیس سال کے لگ بھگ تھی۔ پاکستان کے بننے سے دو سال پہلے میری شادی ہوئی۔ ہم انبالہ کے رہنے والے اچھے خاصے زمیندار تھے۔ میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ پاکستان کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ ہم اپنے علاقے میں ہر روز پاکستان کے حق میں جلسے کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ دو قومی نظریہ کیا ہے؟ ہندوٶں کے ساتھ ہم کیوں نہیں رہ سکتے؟ ہم کہتے تھے کہ پاکستان کا حصول ہی ہماری آزادی کی ضمانت ہے ، نہیں تو ہندوٶں نے انگریزوں سے بڑھ کر ہمارا جینا مشکل کردینا ہے۔ پھر جب پاکستان بن گیا تو میں بھی لاکھوں لوگوں کی طرح خاندان سمیت پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں میں تھا۔راستے میں جتنی مصیبتیں ہم نے برداشت کیں وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ یہ قميض  کا ٹکڑا میری بہن فاطمہ کا ہے جسے سکھوں نے میرے سامنے بے آبرو کیا۔ میری بیوی سمیرا کو میرے سامنے نیزے کی انیوں میں پرو دیا۔ میرے بابو جی کو سر پر لٹھ مار مار کے شہید کردیا۔ میں تمام رشتے داروں سے بچھڑ گیا اور ادھ موا ہوکر پاکستان میں پہنچ پایا۔ میں جب پاکستان پہنچا تو بہت خوش ہوا کہ اب میں اس ملک میں پہنچ گیا ہوں جہاں کا قانون اسلامی قانون ہوگا اور جہاں خلافتِ راشدہ جیسا مثالی ماحول دیکھنے کو ملے گا ۔ لیکن بیٹا آج پاکستان کو بنے ہوئے ساٹھ سال ہونے کو ہیں اور وہ دیکھو سامنے وہ چوبارے جو نظر آرہے ہیں ناں ، ان چوباروں میں راتوں کو عصمتوں کی سرِ عام نیلامی ہوتی ہے۔عصمتیں بیچنے والی اور خریدنے والے سب کلمہ پڑھنے والے ہوتے ہیں۔  ادھر دیکھو، یہ بازار ہیں یہاں بھی بے حیائی اور فحاشی عام ہے۔کوئی عورت گزرنے لگے تو لوگ ایسی للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے کتے گوشت کو دیکھتے ہیں۔ مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ یا تو یہ قائدِاعظم کا پاکستان نہیں ہے یا پھر کم از کم یہ وہ پاکستان ہرگز نہیں جس کی بنیاد ”لا الٰہ الا اللہ “ تھی۔ بیٹا جب میں ان لوگوں کو اپنے دکھڑے سناتا ہوں اور انہیں پاکستان کا مقصد سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ مجھے باولا ، دیوانہ ، پاگل اور پتا نہیں کیا کیا کہتے ہیں۔ہاں واقعی شاید میں باولا ہوں کہ میں اس ملک میں ” لا الہ الا اللہ“ کی حکمرانی اور ”محمد رسول اللہ ﷺ “ کے قانون کی بات کرتا ہوں۔ شاید میرے علاوه وہ سب لوگ بھی دیوانے ہیں جو دن رات اس ملک میں اسلامی قانون کی بات کرتے ہیں اور شاید وہ سبھی لوگ بھی میری طرح بےوقوف بن رہے ہیں جو  ہر وقت دین اور مذہب کی رٹ لگاتے رہتے ہیں۔ بیٹا ! میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ تم بھی انہیں دیوانوں کا ساتھ دو ، ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ اس ملک میں قرآن و سنت کا قانون ہوگا کیوں کہ یہ قائدِاعظم کا وہی پاکستان ہے جو اس نے اسلام کے نام پر حاصل کیا۔ 
اے ارضِ پاک وطن تیری فضاٶں میں رچی ہے خوشبو لہو کی، مرے شہیدوں کےکبھی تو پائیں گے اہلِ وطن اساس تریجلا کے رکھتے ہیں سارے دیے امیدوں کے


شیئر کریں: