Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال میں قتل کے بڑھتے واقعات…..(پروفیسر ممتاز حسین)

شیئر کریں:

چترال کی وادی اپنے اردگرد کے علاقوں کی نسبت بہت پرامن تصور کی جاتی ہے۔ یہاں قتل اور زخمی کرنے کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ ایسا کچھ ہوتا بھی ہے تو اس کے نتیجے دشمنیاں جنم نہیں لیتیں اور معاملہ عدالت میں یا عدالت سے باہر حل ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہاں کے مخصوص جعرافیائی حالات اور طویل عرصے تک باقاعدہ ریاستی عملداری کے تحت رہنا ہے۔

لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوراں یہاں قتل کے واقعات میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ خودکشیوں کے واقعات بھی غیر معمولی طور پر کثرت سے رپورٹ ہورہے ہیں۔  عام خیال یہی ہے کہ بیشتر صورتوں میں قتل کو خود کشی کا رنگ دے کر دبایا جاتا ہے۔ ان معاملات پر نظر رکھنے والے لوگوں کے پاس اس بات کے لیے قوی دلائل موجود ہیں کہ بیشتر مبینہ خودکشیاں حقیقت میں قتل ہی ہیں۔

خاندانی دشمنیاں چترال کے انتہائی جنوب کے چند دیہات کے علاوہ باقی علاقوں میں کبھی موجود نہیں رہیں۔ زمین کے تنازعات بھی عدالتوں میں رہتے ہیں اور شاذ و نادر ہی لڑائی جھگڑے پر منتج ہوتے ہیں۔ چنانچہ آسانی سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یہاں واقع ہونے والے قتل کے بیشتر کیس غیرت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ قدیم زمانے سے غیرت کے نام پر قتل کے اکا دکا واقعات ہوتے رہے ہیں اور اسے ایک تسلیم شدہ معاشرتی رویہ سمجھا گیا ہے۔  ریاستی دور میں قوانین رواج پر مبنی ہوتے تھے جنہیں دستور کہا جاتا تھا۔ یہاں کا دستور غیرت کے نام پر قتل کو قانونی تحفظ فراہم کرتا تھا، بشرطیکہ قتل میں روایتی طریقہ کار کو ملحوط رکھا گیا ہو۔ اس طریقہ کار کے تحت قتل کا حق صرف بد کاری میں ملوث عورت کے شوہر کو حاصل تھا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ بد کاری میں ملوث عورت اور مرد ایک ہی جگہ پکڑے جائیں۔ دونوں کو ایک ساتھ اور ایک ہی جگہ مار دینا ہوتا۔ اگر ان میں سے ایک موقع سے فرار ہوجاتا تو صرف مرد یا صرف عورت کو قتل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ قتل کرنے کے بعد قاتل کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس کا اعلان کرے اور خود کو ریاستی حکام کے حوالے کردے۔ حکام قاتل کو قید میں رکھ کر معاملے کی تفتیش کرتے۔ اگر بد کاری کا الزام درست ثابت ہوتا تو قاتل کو رہا کردیا جاتا، ورنہ اسے قتل کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑتا۔ قتل چاہے غیرت کے نام پر ہو یا کسی اور بنیاد پر، اس کا بدلہ لینے کا رواج نہیں تھا۔ ایسے بہت کم واقعات ہوئے ہیں کہ کسی قتل کا بدلہ لیا گیا ہو۔ چنانچہ معاملہ ایک جرم پر ہی ختم ہوجاتا اور دشمنیاں جنم نہیں لیتیں۔

ریاستی دور میں شرعی قاضی مقرر تھے اور حکمران بعض مقدمات فیصلے کے لیے ان کے پاس بھی بھیجتے، لیکن غیرت کے نام پر قتل کے معاملات عموماً دستوری قانون کے مطابق ہی نمٹا دیے جاتے۔ ریاستی عدالتی سسٹم سے ناواقفیت کی وجہ عام تاثر یہ ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو چھوٹ شرعی قوانین کے تحت ملتی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اسلامی شریعت میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ کوئی شخص کسی پر الزام لگا کر خود اس کا فیصلہ کرے اور خود ہی سزا دے۔ شریعت میں جرم کے ثبوت نیز سزا کے تعین اور نفاذ تک پہنچنے کے لیے مقررہ قانونی راستے (Due process of law) سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس راستے سے گزرے بغیر کوئی شخص کسی دوسرے کو سزا دے تو سزا دینے والا مجرم ٹھہرتا ہے، چاہے سزا پانے والا سچ مچ مجرم کیوں نہ ہو۔ اس پر اکثر یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھے تو کیا وہ بے غیرتی کا مظاہرہ کرکے پولیس میں رپورٹ کرے؟
اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ وہ شریعت کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرے۔ شریعت کے تحت کسی پر بد کاری کا الزام لگانا بہت بڑا کام ہے۔ ایسے الزام کے ثبوت میں چار پرہیزگار مرد گواہوں کو پیش کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس شرط کو پورا نہ کیا جاسکے تو الزام لگانے والا مجرم ٹھہرتا ہے اور اسے سخت سزا ملتی ہے۔ لیکن شوہر کے اپنی بیوی پر الزام لگانے کی صورت میں اس کے لیے دوسرا قانوں ہے جسے لعان کہتے ہیں۔ ایسی صورت میں گواہوں کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ شوہر کو الزام کے لیے اور بیوی کو اپنی بے گناہی کے لیے قسم کھانی پڑتی ہے۔ ان میں سے جو بھی قسم کھانے سے انکار کرے وہ مجرم ٹھہرے گا۔ لیکن اگر دونوں نے قسم کھالی تو ان کا نکاح فسح کرکے ان کے درمیاں جدائی کردی جائے گی۔

دوسری صورت میں اگر شوہر زیادہ غیرت مند ہو اور اشتعال میں آکر قتل کردے تو؟ ایسی صورت میں ایک ہی راستہ ہے کہ قاتل خود کو قانون کے حوالے کردے اور قانون اس کے لیے جو سزا تجویز کرے، اسے قبول کرے۔ اگر وہ غیرتمند ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو غیرت کا تقاضا یہی ہے۔ یہ غیرت نہیں ہے کہ رات کے اندھیرے میں قتل کرکے لاش کہیں پھینک دے اور صبح اُٹھ کر رونا پیٹنا شروع کردے۔ یہ تو بے غیرتی کی انتہا ہے کہ قتل کرکے اس کا انکار کردے اور پورے گاؤں کے بے گناہ لوگوں کو مصیبت میں ڈال دے۔ جس علاقے میں کوئی قتل ہو یا کسی موت پر قتل کا شک ہو تو وہاں کے لوگوں پر فرض ہے کہ پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور جو انہیان کچھ معلوم ہو وہ پولیس کو بتا دیں۔ ایسا کرکے وہ پرامن معاشرے کے قیام میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ قتل یا کسی بھی جرم کو دبانے کی کوشش کرنا مزید جرائم کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔ جرم کا کوئی معقول بہانہ نہیں ہوتا اور نہ مجرم کسی ہمدردی کا مستحق ہوتا ہے۔ جو شخص آج غیرت کے نام پر قتل کرسکتا ہے وہ کل کو پیسے کے لیے کرے گا۔ اس لیے برائی کا سر ابتدا ہی میں کچلنا چاہیے، اس سے پہلے کہ وہ قابو سے باہر ہوجائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
38862