Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاحت،گرم چشمہ کے ساتھ نا انصافی…..محمد آمین:

شیئر کریں:

muhammad amin garam chashma

قدرت نے گرم چشمہ کو خوب صورتی،جیو اسٹڑیٹیجیک خاصیت،دلکش پہاڑی درے،جنگلی حیات، صاف و شفاف بہتے ہوئے پانی،لذت سے بھرے میوے وغیرہ سے نوازا ہے یہاں دل کو چھونے والے نظارے سیاحوں کے لیے بڑے پر سکون ماحول پیش کرتے ہیں۔پرانے زمانے میں گرم چشمہ کو انجیگاں (باغات) اور خذار (غلے کے گودام) کے ناموں سے پکارا جاتا تھا کیونکہ یہاں کے زمین زرخیز ی کی وجہ سے بڑی مقدار میں غلہ پیدا کرسکتے تھے اور ساتھ یہاں پر باغات کی بھی کثرت تھی۔لفظ گرم چشمہ یہاں پر موجود گرم پانی کی چشموں کی وجہ سے کہا جاتاہے اور وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ لفظ مقبول ہوا۔یہ علاقہ قدرتی وسائل کی وافر د دستیابی کی وجہ سے بھی مشہور ہیں اگر تاریخ کا بخوبی جائزہ لیا جائے تو قدیم زمانے سے یہ علاقہ نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے جس کی خاص وجہ افغانستان اور مشرق وسطی کے ممالک کے ساتھ جعرافیائی قربت ہے اور اس بنیاد پر پرانے زمانے میں تجارتی کاروان ان ریاستوں سے مختلف اقسام کے ایشاء ہندوستان کے مختلف منڈیوں تک پہنچاتے اور یہاں سے ساماں لیکر اپنے ملکوں کو جاتے تھے اور یہ تمام لین دین درہ دوراہ کے راستے ممکن تھا اس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ چترال ہیڈ کوارٹر سے دریا آمو تک (River Oxux)تک کل فاصلہ صرف 178کلومیٹر بن سکتی ہے دریا آمو تاجکستان کے صوبے بدخشان کو افغانستان کے صوبے بدخشان سے ملاتی ہے اس کے علاوہ دراہ شو ئی گرم چشمہ اور افغانستان کے صوبے نورستان کو اپس میں ملاتی ہے ان حقائق کو مد نظر رکھ کر بڑی وثوق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پرانے زمانے میں سرحد پار سے حملہ ا وربھی ان درون خصوصا دوراہ کے راستے ملک ہندوستان میں داخل ہو ئے تھے۔

اج کل سیاحت پوری دنیا میں ایک اعلی صنعت کی نوعیت حاصل کر چکی ہے اور یہ صنعت دنیا کی کل جی ڈی پی کا دسواں حصہ بن سکتی ہے۔یہ امدنی پیدا کرنے،غربت میں کمی لانے،روزگار مہیا کرنے اور ثقافتوں کو فروغ دینے کا بہتریں زریعہ بن چکی ہے دور جدید میں سیاحت کی ایک اہم قسم ایکو ٹورزم (eco-tourism)بڑی مقبولیت کا حامل بنا ہوا ہے جس کا بنیادی مقصد قدرت کابچاو اور تحفظ اور ساتھ ہی مقامی لوگوں کی مالی اور تعلیمی معاونت کرنا ہے اس کے علاوہ مقامی ثقافت کو پائدار بنانا بھی اس قسم کی سیاحت کے مقاصد میں شامل ہیں۔


گرم چشمہ کی تاریخ تقریبا چار ہزار سال پرانی ہے چترال میں ثقافت کو باقاعدہ طور پر 1969؁ء کے بعد صنعت کا درجہ دیا گیا۔گرمچشمہ سیاحت کے لحاظ سے چترال میں خاص اہمیت کے حامل رہا ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جب کوئی ملکی یا غیر ملکی سیاح چترال میں داخل ہوتا ہے تو اس کے ذہین میں دو مقامات ہوتے ہیں ایک تو کلاش کے علاقے اور دوسرے گرم چشمہ اور پھر وہ تیسرے اور چوتھے کے بارے میں سوچتا ہے۔گرم چشمہ میں سیاحوں کو متوجہ اور خصوصا ایکو ٹورزم کو فروغ دینے کے بے شمار مواقع اور وسائل موجود ہیں جن کو قدرت نے عطا فرمایا ہے۔یہاں کے مادی اور غیر مادی ثقافت کی جڑیں سنٹرل ایشاء اور افغانستان سے جا ملتے ہیں علاقے میں مختلف زبانوں کے بولنے والے لوگ اباد ہیں جو یہاں کی ثقافتی رنگارنگت (cultural diversity)میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں،۔گرم پانی کے چشمے سیاحوں کے لیے بڑے دلچپی کا باعث ہیں کیونکہ ان میں پیٹ،جوڑوں اور چمڑے (skin) اور موٹا پن (obesity) وغیرہ کے بیماریوں کے لئے علاج (healing)پائے جاتے ہیں اس وجہ سے ہر سال پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگ بڑی تعداد میں علاج کے غرض سے لوگ اتے ہیں اس کے علاوہ بھی قدرت کے ان حسیں مناظر کا نظارہ کرنے کے لیے سیاح اتے ہیں۔یہاں کی ٹروٹ مچھلی بھی اپنی مخصوص لذت کی بنیاد پر بڑے مشہور ہیں اور سیاحوں میں ان کی بڑی مانگ ہوتی ہے.اس کے علاہ دوراہ پاس جس کا پہلے تذکرہ ہو چکا ہے پچھلی سال حکومت نے اس سے سرحد پار تجارت کے لیے کھول دیا اور مستقبل میں اس پاس کے زریعے چترال کو سنٹرل ایشائی ریاستوں کے ساتھ ملانا ہے اس اہم دوراہ میں ٹریکینگ،خوبصورت قدرتی مناظر اور لیڈی ڈیفرین لیک سیاحون کے لیے دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔کھو ثقافت کے علاہ یادغاہ اور شیخانوار زیلی ثقافتی طور طریقے بھی قابل دید ہوتے ہیں۔نیز گرم چشمہ کے مشہور وولن پٹی،مختلف انواع کے خشک میوہ جات،چترال نیشنل پارک سے متصلی،جشن گبور،مقامی ہینڈی کرافٹ بھی بڑی تعدا د میں سیاحوں کو اپنی طرف مبذول کرنے کا اہم زریعہ ہیں۔


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اکثر بمبورت کے ٹو ر پر جاتے تھے تو وہاں کے مقامی لوگ یہ الفاظ با ربار دہراتے تھے کہ ہماری خواہش ہے کہ ہم بھی گرم چشمہ کی سیر کرسیکں کیونکہ ان کے مطابق گرم چشمہ بمبورت اور دوسرے کلاش ویلز سے خوب صورت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی مناظر کے حوالے سے گرم چشمہ خوب صورت ہے لیکں کلاش کلچر کی ساری دنیا میں اپنی ایک نمایاں خصوصیت ہیں جسے دیکھنے کے لیے ہر سال بڑی تعداد میں سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔


بدقسمتی سے گرم چشمہ کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ہم ماضی کے حکمرانوں سے شکوہ نہیں کرتے ہیں کہ انہوں نے سیاحت کے حوالے سے گرم چشمہ میں اتنی زیادہ مواقع اور صلاحتوں کے باوجود علاقے کو بالکل نظر انداز کردیا کیونکہ ان کے بصیرت میں سیاحت جیسے اہم شعبے کو ترقی دینا ترجیحات میں نہیں تھے۔لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان جیسا بصیرت والا لیڈر جس کے اولین ترجیحات میں سیاحت اور خصوصا ایکو ٹورزم کو فروغ دینا ہے گرمچشمہ جیسے علاقے کو سیاحت کے حوالے سے یکساں نظر انداز کرنا افسوس کی بات ہے۔یہ بات بالکل سمجھ سے بالاتر ہے کہ تحریک انصاف کے صوبائی حکومت نے پورے صوبے میں سیاحت کو جدید پیمانے پر ترقی دینے کے حوالے سے چار ٹورسٹ پوانٹس کا اعلاں کرچکا تھا جس میں چترال بھی شامل تھا لیکن کچھ غیر دوراندیش لوگوں نے گرم چشمہ کو شامل نہیں کیے اور ایک ایسے علاقے کو شامل کیا جو ٹورزم کے لحاظ سے بالکل نیا ہے اور اس میں اتنی بڑی مقدار میں سرمایہ کاری کرنا وقت اور پیسے دونوں کے ضائع کے مترادف ثابت ہوگا جو حیرت کی بات ہے۔ ہم کسی دوسرے علاقے کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں لیکن جس کا جتنا حق بنتا ہے وہی اس کو ملنا چاہئے اور فیصلہ سازی میں عادل سے کام لیا ئجائے تاکہ ایک طرف انصاف قائم ہو اور دوسری طرف حکومت کے اچھے اقدام بھی کارامد ثابت ہو سکیں۔ اگر تقابلی جائزہ لیا جائے توبڑی حدتک ان میں فرق موجود ہے صرف چند اسکینگ کے ایونٹس منعقد کرکے ہم اس علاقے کو ٹورزم کے لیے مثالی جگہ نہیں بنا سکتے ہیں اس میں دوسرے دلکش نظارے،قدرتی وسائل اور،سہولیتیں وغیرہ کو بھی دیکھنا پڑتا ہے جو صرف کلاش ویلز کے علاوہ گرم چشمہ میں موجود ہیں۔لیکن گرم چشمہ کو نظر انداز کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ چترال میں بعض عناصر اپنی عناد اور ذاتی مفادات کے خاطر عمران خان صاحب کے وژن کو الٹے پاوں رونٹھتے نظر ارہے ہیں جس سے چترال کو ناقابل تلافی نقصاں پہنچ سکتی ہے۔اگر ضلعی حکومت اور ٹورزم کے ادارے واقعی چترال کو سیاحت کے لیے مثالی جگہ بنانے میں سنجیدہ ہیں تو گرم چشمہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس میں بے شمار مواقع (potentials) موجود ہیں۔چونکہ سیاحت کو بین الاقوامی میعاروں کے عیں مطابق فر وغ دینا وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب کے وژن میں شامل ہے لہذا اس معاملے میں وزیر اعلی کے پی کے اور چیرمین پاکستان ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن جناب ذولفی بخاری صاحب سے گذارش کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدگی سے غور کریں تاکہ وزیر اعظم عمران خان کے پالیسی جن کی بنیاد شفافیت پر ہے کے ساتھ کوئی کھیل نہ سکیں اور زمین پر جنت نظیر علاقہ گرم چشمہ کو نظر انداز کرنے نہ دیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
38481