Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خانہ کعبہ اورفریضہ حج کا معاشی پہلو ……ڈاکٹرساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر اتارے گئے توانہوں نے اللہ تعالی سے پوچھا کہ کدھر منہ کر کے تو عبادت کروں؟اللہ تعالی نے فرمایا کہ ایک کمرہ تعمیرکرلیں اور ادھرمنہ کر کے عبادت کے مناسک اداکرتے رہیں۔طوفان نوح علیہ السلام میں وہ کمرہ زمیں بوس ہوگیا۔حضرت ابراہم علیہ السلام جو حضرت علیہ السلام کی قریبی پشت سے تھے،بائبل میں ان کاشجرہ نسب بھی نقل کیاہے۔ انہوں نے اپنے فرزندارجمند کے ساتھ اس کمرے کی تاسیس نوکی۔فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ریت کاایک ٹیلہ دکھایا۔جب اسے کھوداگیاتو نیچے سے حضرت آدم علیہ السلام کی چنی گئی بنیادیں برآمد ہو گئیں۔باپ بیٹا حضرات ابراہیم و اسمائیل علیھماالسلام نے خانہ خداکی تعمیرجدید کاآغازکیا۔اللہ تعالی نے ایک پتھرآسمان سے اتاراجسے ”مقام ابراہیم“کانام، دیا۔دیواریں اونچی کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اس پتھرپر کھڑے ہوجاتے اوریہ اللہ تعالی کے حکم سے بلند ہوجاتااور حضرت اسمائیل علیہ السلام نیچے سے پتھرپکڑاتے رہتے۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نیچے اترناہوتاتویہ پتھراللہ تعالی کے حکم سے نیچے ہوجاتااور آپ فرش پرقدم رنجافرمالیتے۔آج یہ پتھر خانہ کعبہ کے جوار میں نصب ہے اور اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشان بھی نقش ہیں جو بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔اللہ تعالی نے طواف کرنے والوں کو حکم دیاہے کہ پس طواف مقام ابراہیم پر دو نفل اداکریں۔تعمیر کعبہ کے وقت اسکی تین دیواریں سیدھی اور ایک دیوار گول تھی۔اللہ تعالی نے ایک اور پتھر آسمان سے اتاراجو انڈے کے جتنااور سفیددودھیارنگ کا تھا۔یہ ”حجرابیض“تھایعنی سفید پتھر۔اس پتھرکی خاصیت ہے کہ یہ گناہ چوستاہے،اب گناہ چوس چوس کر یہ سیاہ ہو چکاہے اس لیے اسے ”حجراسود“یعنی کالا پتھرکہتے ہیں۔فی الوقت اس پتھرکے ٹکڑے پگھلی ہوئی چاندی میں رکھ کر جمادیے گئے ہیں کیونکہ تاریخی ادوارمیں یہ پتھر ٹوٹ گیاتھا۔


تکمیل تعمیر کعبہ کے بعدپہلی بارحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کمرے کا طواف کیا۔یہ کل کائنات کا طریقہ ہے کہ ہر چھوٹا اپنے سے بڑے کاطواف کرتاہے۔جیسے چاند چھوٹاہے تو وہ اپنے سے بڑی زمین کاطواف کرتاہے۔زمین چھوٹی ہے تو وہ اپنے سے بڑے سورج کا طواف کرتی ہے، علی ھذاالقیاس۔کائنات کے یہ طواف گھڑی کی سوئیوں کے الٹی سمت کے مطابق ہوتے ہیں۔چنانچہ انسان بھی اپنے سے بہت بڑے خدا کی بڑائی و عظمت کو دل و جاں سے تسلیم کرتے ہوئے گھڑیوں کی سوئیوں کے الٹی سمت اللہ تعالی کے گھر کاطواف کرتاہے۔اس طرح طواف کرنے سے انسان کے سینے میں موجود دل کا رخ کعبۃاللہ کی طرف ہی رہتاہے۔اس طرح استعاراََ یہ بھی معلوم ہوگیاکہ دل ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف ہی لگارہناچاہیے۔اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہاکہ لوگوں کو حج کے لیے آواز دیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیاکہ اے بار الہ یہاں تو میرے اہل خانہ کے سوا کوئی نہیں اور چاروں طرف اونچے اونچے فلک بوس پہاڑ ہیں،تو میری آواز کون سنے گا؟؟؟اللہ تعالی نے فرمایا اے پیارے نبی علیہ السلام آپ آواز تو لگائیں،پھردیکھیں میں آپ کی آواز کو کہاں کہاں تک پہنچاتاہوں۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کو پکاراجس کے نتیجے میں گزشتہ چارہزارسالوں سے یہ خانہ خداانسانوں اور جنوں اور فرشتوں سے کھچاکھچ بھرارہتاہے اورتاقیامت بھرارہے گا۔ اور اللہ تعالی نے انہیں مناسک حج سکھائے جودین ابراہیمی کا حصہ ہیں۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت اسمائیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی نگرانی سنبھال لی۔وہ حطیم والی جگہ پر بیٹھتے تھے اور دیگرلوگ ان کے اردگرد جمع رہتے۔اس کے بعد ایک مدت تک یہ منصب آل اسمئیل میں رہا۔ازاں بعدایک خانہ بدوش قبیلہ ”بنوجرہم“خانہ کعبہ اور زم زم پر قابض ہو گیا۔انہوں نے حجاج کرام کے ساتھ ظلم وزیادتی کاسلوک روارکھااوران سے بھاری ٹیکس اور زم زم کی قیمت وصول کرنا شروع کردی۔اس پر آل اسمائیل علیہ السلام جواگرچہ کمزوراور قلت تعدادکاشکار تھے انہوں نے بنوجرہم کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔بدمعاش کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو لیکن بزدل ہوتاہے۔آل اسمئیل جو اس وقت تک ”قریش مکہ“کہلانے لگے تھے،انہوں نے مکہ مکرمہ کامحاصرہ کرکے بنوجرہم کو شکست دی اور حرم مکہ واگزارکرالیا۔جاتے جاتے بنوجرہم نے چاہ زم زم میں مٹی ڈال کر زمین کے برابر کرگئے۔سقایۃ الحاج یعنی حاجیوں کوپانی پلانے کی ذمہ داری

حضرت عبدالمطلب پر تھی۔انہیں بہت دوردورسے اپنے کاندھوں پر اور گدھوں اور اونٹوں پر پانی لادلاد کر لانا پڑتاتھا۔ایک بارانہوں نے تین راتیں مسلسل خواب دیکھاکہ کوئی شخص انہیں جگہ دکھارہاہے کہ یہاں کھدائی کروتوزم زم نکل آئے گا۔انہوں نے اس وقت اپنے واحد بیٹے ”حارث“کے ساتھ مل کرتین روز ہ مسلسل محنت شاقہ کے بعد زم زم کاکواں دریافت کرلیاکیونکہ سرداران قریش میں سے بھی کوئی آپ کی مددکو نہ پہنچا۔


جب محسن انسانیت ﷺ کی عمر مبارک پنتیس برس کی تھی تو قریش نے خانہ خداکونئی اور مضبوط دیواروں پراستوار کیا۔روم سے ایک ماہر تعمیرات کوبلایاگیا۔ایک قریشی سردارجو ساحل سمندر سے گزررہاتھا وہاں سے تباہ شدہ بحری جہازکے پھٹے ساتھ لے آیا اور یوں خانہ کعبہ کی تعمیرنوکاآغاز ہوا۔اس کمرے کی تین دیواریں سیدھی اور چوتھی دیوار گول تھی۔آمنے سامنے دودروازے تھے جو زمین کے برابر تھے۔تعمیراتی سامان کی کمی کے باعث چوتھی دیوار بھی سیدھی کر دی گئی اور دودروازوں کی بجائے ایک دروازہ رکھاگیااوروہ زمین سے بہت بلند۔چوتھی دیوارکے سیدھا ہونے سے عمارت کاجو گول حصہ باہر رہ گیا اسے”حطیم“قرار دے دیا۔یہ دراصل خانہ کعبہ کااندرونی حصہ ہے جو تعمیر قریش میں باہر رہ گیاتھا۔جب حجراسود کے لگانے کاموقع آیاتو پہلے آوازیں بلند ہوئیں اور پھر تلواریں بے نیام ہونے لگیں۔اگلے دن رحمت عالم ﷺنے اپنی کالی کملی میں حجراسودرکھااور سب سرداروں کو چادرکاایک ایک پلو تھمادیا،چادربلندہوئی اور جب مقام مخصوص تک حجراسود پہنچ گیاتو آپﷺنے اپنے دست مبارک سے حجراسودکو آگے دھکیل دیااور مستری نے مصالحے کے ساتھ اسے جمادیا۔یہ حسن معاملگی آپ ﷺ کو ہی زیب دیتی تھی۔حضرت عبداللہ بن زبیرنے اپنے دوراقتدارمیں خانہ کعبہ کو نقشہ ابراہیمی کے مطابق بنایا تھالیکن بعد کے بادشاہوں نے پھراسی طرح کردیا جیسے آپ ﷺنے چھوڑاتھا۔اس کمرے،کعبۃ اللہ کی زیارت کے لیے سفر کرنا حج یا عمرہ کہلاتا ہے،تاہم مکمل حج یا عمرے میں کچھ دیگر مراسم عبودیت بھی شامل ہیں۔


حج کی عبادات کم و بیش چارہزارسالوں سے جاری ہیں۔تواترکے ساتھ ادا ہونے والی یہ دنیا کی قدیم ترین عبادت ہے۔ قریش مکہ نے ان عبادات ومناسک میں بدعات اور شرک کی آمیزش بھی کر دی تھی لیکن خاتم النبیین ﷺ نے اسے ایک بار پھر سنت ابراہیم علیہ السلام کے مطابق ترتیب دے کر ہر طرح کی آلائشوں سے پاک صاف کر دیا۔اب عمربھر میں ایک بار اس شخص پر سفرحج فرض کردیاگیاہے جو اسکی استطاعت رکھتاہو۔تب سے آج تک امت مسلمہ نے ایک حج بھی قضا نہیں کیاحالانکہ ایک زمانے میں حج کرنا جان جوکھوں کاکام ہوتا تھا۔ادائیگی حج کے اگرچہ بہت سے پہلو ہیں جن میں ایک سیاسی پہلو ہے کہ تمام مسلمانوں کا نمائندہ اجتماع امت کی سیاسی قوت کا آئینہ دارہو،ایک معاشرتی پہلو ہے کہ مشرق و مغرب کے مسلمان باہم معاشرتی اختلاط سے ایک اسلامی معاشرت کے امین بنیں،ایک مذہبی پہلو ہے کہ لمبے سفر کے بعدقرب الہی کاوسیلہ زیادہ خلوص اور محبت کے ساتھ میسر آئے،ایک سیاحتی پہلو ہے کہ قریہ قریہ شہر شہر سے گزرنے کے باعث ایک حاجی اللہ تعالی کی زمین اور انسانی تہذیب و ثقافت کا مشاہدہ کرتا چلے،ایک دفاعی پہلو ہے امت کا اتنا بڑااجتماع اورمسلمانوں کے اتحادسے دشمنوں پر دھاک بیٹھ جائے،ایک مساوات کا پہلو ہے کہ امیرغریب،عالم جاہل،گورے کالے،عربی عجمی اورشرقی غربی کل حجاج ایک ہی قسم کے کپڑوں میں ایک ہی رخ میں ایک ہی کلمہ زبان سے نکالتے ہوئے چلے جا رہے ہیں اورایک بین الاقوامی پہلوہے کہ ہرنسل،ہررنگ،ہرزبان اور ہر علاقے کی نمائندگی موجود ہے۔


ہم وقت کے اس دھارے سے گزر رہے ہیں کہ صدہائے افسوس کہ حج جیسی عظیم الشان عبادت کے یہ تمام پہلومعطل ہیں اور امت اپنی تاریخ کے بہت ہی سیاہ دور سے گزر رہی ہے۔ممکن ہے ماضی میں بھی کبھی ایسا ہوا ہویا شایدمسقبل میں بھی ایسا پھر ہوجائے لیکن حج کامعاشی پہلو کبھی بھی معطل نہ ہوگا۔جب تک حج کا عمل جاری رہے گالاکھوں نہیں کروڑ ہالوگوں کا روزگاراس عبادت سے وابسطہ رہے گا۔ان لوگوں میں امیروغریب تو ہونگے ہی لیکن کتنی حیرانی کی بات ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی جاری کی ہوئی اس عبادت کے معاشی پہلو میں غیرمسلم بھی برابر کے بلکہ بعض اوقات مسلمانوں سے زیادہ کے شریک رہیں گے۔ایک حاجی جب حج کا ارادہ کرلیتا ہے تو لوگ اسے مبارک باد دینے آتے ہیں،ہر آنے والا پھول ساتھ لاتا ہے اور اس طرح پھولوں والوں کا روزگار کھل جاتا ہے۔حج کی پیشگی مبارگ دینے والی اکثریت مٹھائی یاکوئی تحفہ یا ہدیہ بھی ساتھ لاتی ہے اس طرح ان لوگوں کا روزگار کھلتا ہے جہاں سے یہ مٹھائی یا تحفہ و ہدیہ خریدا جاتاہے۔دیہاتوں میں بعض اوقات تین تین دن پہلے چوہدری صاحب،خان صاحب،میاں صاحب،ملک صاحب،سردارصاحب یاوڈیراسائیں کے ہاں دیگیں پکنے لگتی ہیں کیونکہ وہ حج پر جا رہے ہوتے ہیں اس طرح دیگوں اور راشن سے وابسطہ لوگوں کا روزگار کھل جاتا ہے اوربرادری اور غریب غربے تین دنوں تک چوہدری صاحب کے ہاں سے اچھا کھانا بھی کھالیتے ہیں۔حج کے لیے حاجی صاحب اکیلے نہیں جاتے بلکہ پوراگاؤں انہیں بسوں پر بٹھاکر شہر تک چھوڑ کر آتا ہے اس دوران ڈھول والے،نعتیں پڑھنے والے،بسوں کے ڈرائیوراور پٹاخے بجانے والوں کی بھی چاندی ہوتی ہے قطع نظر اس بات کے کہ یہ امور جائز ہیں کہ ناجائز۔
شہر پہنچ کریا پہلے سے ہی حاجی صاحب نے کسی ہوائی کمپنی کاٹکٹ خریدناہے۔ہوائی کمپنیوں کی اکثریت غیر مسلموں کی ملکیت ہوتی ہے لیکن کتنی حیرانی کی بات ہے کہ حج اور عمرے کے ایام پوری دنیا کی ہوائی کمپنیوں کے لیے خوب کمائی کے دن ہوتے ہیں۔بعض ہوائی سفرکے ادارے تو صرف حج اور عمرے کا ہی کام کرتے ہیں اور پھر بھی لوگوں کو ان سے شکایت رہتی ہے نشست نہیں مل سکی۔ان ہوائی کمپنیوں سے بلامبالغہ کروڑہا لوگوں کی ہنڈیا وابسطہ ہوتی ہے اورانکے کاروبار کا بہت بڑا اور بڑا واضع حصہ سفرسعادت سے ہی منسلک ہوتا ہے۔ان ہوائی کمپنیوں کے ایجنٹ اور پھر انکے ثانوی ایجنٹ دوردرازکی بستیوں میں اپنے دفاتر کھول کر بیٹھتے ہیں اور ایک حاجی جو اپنی رقم سے ٹکٹ خریدتا ہے نہ معلوم اس ایک ٹکٹ کی رقم کتنی کتنی جگہوں پر تقسیم در تقسیم ہو کرتوپہنچتی ہے اورلوگوں کے کاروبارکاباعث بنتی ہے۔حاجی اپنی منزل پر پہنچ گیا۔حج و عمرے کے انتظامات پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے؟اسکا اندازہ لگانا ہمارے لیے ممکن نہیں لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ساراسال ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کی ان گنت ٹیمیں حج و عمرے اور حرمین شریفین کے انتظامات میں مصروف عمل رہتی ہیں۔کم و بیش دنیا کے ہر خطے کا مسلمان ان مقامات پر کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

حاجیوں کے لیے صفائی اور قیام و طعام کے انتظامات سے لے کر حرمین شریفین کی توسیع تک بے شمار لوگوں کا روزگار وابسطہ ہورہتاہے۔ساراساراسال اخباروں میں اشتہار چھپتے ہیں اور ساری دنیا سے ماہر لیبراور خام لیبر ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں میں بھر بھرکر حجازمقدس لے جائی جاتی ہے جہاں سے وہ اپنے ظرف کے مطابق سعادت اور اپنے فن کے مطابق دنیا کما کر لاتے ہیں۔


خاص حج کے موقع پر بھیڑ،بکریوں اور اونٹوں کے ریوڑ کے ریوڑمنی کے مقام پر لائے جاتے ہیں اور انہیں ذبح کیا جاتا ہے۔ان جانوروں کے گلے بان اپنے سال بھرکی محنت کابہت معقول معاوضہ وصول لیتے ہیں اور اس طرح صحراکے باسی جہاں مہینوں تک زمین کی مٹی بارش کی بوند کوترس جاتی ہے،حج کی عبادت انکے وسعت رزق کاباعث بن جاتی ہے۔پھر جوجانور حکومتی انتظام کے تحت ذبح کیے جاتے ہیں انکا گوشت دنیا کے مختلف علاقوں میں غرباء کو پہنچادیاجاتاہے اور یوں حج کی عبادت لوگوں کاپیٹ بھرنے کاباعث بن جاتی ہے۔جاپان چین اور فرانس غیرمسلم ممالک ہیں،ان سمیت دنیاکے بیشتر سیکولرممالک سے بحری جہازبھربھرکے حجازمقدس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں جن میں ٹوپیاں،تسبیحیں،جائے نمازیں،کھلونے،مشینری اورکپڑے سمیت نہ جانے قسم قسم کی مصنوعات لدی ہوتی ہیں۔

اللہ تعالی نے ایک شاندار انتظام کے تحت دنیابھر کے لاکھوں امیر لوگوں کو ایک جگہ جمع کردیاہے وہ دل کھول کر خریداری کرتے ہیں،کوئی بھی حاجی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتاپس دنیا بھر کے بے شمارکارخانے صرف حج کی بنیاد پر قائم و دائم ہیں اور ان میں کام کرنے والوں اور انکی چیزیں خرید کر آگے بیچنے والے اور ان سے خرید کر مزید آگے بیچنے والے اور پھر حاجیوں کے ہاتھ فروخت کرنے والے سب کے سب کا معاشی مسئلہ اللہ تعالی نے حج و عمرے کی عبادات و مناسک سے جوڑ رکھاہے۔حاجی حج سے واپس آتا ہے تو ایک بار پھر لوگ بسیں بھر بھر کے اسکے استقبال کے لیے ہوائی اڈوں یا ریلوے اسٹیشنوں پرپہنچتے ہیں،عام دنوں میں جولوگ منتیں کرکر کے دس دس روپے کے پھولوں کے ہار فروخت کرتے ہیں اب پچاس پچاس میں نخرے سے فروخت کرتے ہیں،کارپاکنگ والوں کی دہاڑیاں دس دس گنا بڑھ جاتی ہیں،بسوں اور ویگنوں والے حاجی کی خیریت سے واپسی کی مٹھائی بھی وصول کرتے ہیں،گھر کے بچوں کے لیے کھلونے،خواتین کے لیے کپڑے اور نوجوانوں کے لیے انکے مزاج کی اشیااور پوری برادری،پڑوسیوں اور گاؤں والوں کے لیے تسبیح،ٹوپی،زم زم اور کھجور کے تحفے ارسال کیے جاتے ہیں۔


معاش انسان کی اولین ضرورت ہے وہ پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے اپنی معاش کا تقاضا کرتا ہے،اللہ تعالی کتنابڑا رزاق ہے کہ اس نے اپنی


نازل کی ہوئی شریعت میں تمام کفاروں کو بھوکے کے پیٹ سے جوڑ دیاہے،روزہ توڑا ہے تو بھوکے کاپیٹ بھرو،قسم توڑی ہے توبھوکے کاپیٹ بھرو،حج میں کوئی غلطی ہو گئی ہے تو بھوکے کاپیٹ بھرو،پھرغمی اور خوشی کے مواقع کو بھی اللہ تعالی نے پیٹ سے جوڑ دیاہے،عقیقہ،ولیمہ یا کسی کی وفات پر کھانے کاانتظام اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں،آپﷺکی تمام تر پیشین گوئیاں بھی معاشی خوشحالی سے تعلق رکھتی ہیں اور صدقات و زکوۃ اور عشر کا اتنا بڑا نظام تو معاشیات سے ہی مستعارہے۔اسی طرح حج جیسی محض ایک عبادت سے اللہ تعالی پوری دنیا میں گردش دولت کا سلسلہ شروع کردیتا ہے،تجوریوں سے زرنکل کر مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوابھوکے کے پیٹ تک جاپہنچتاہے،قطع نظر اس کے کہ وہ بھوکاامیرہے کہ غریب ہے،ان پڑھ ہے کہ جاہل ہے اور حتی کہ مسلمان ہے کہ غیرمسلم۔اور پھر اس حج پر خرچ کی ہوئی رقم حاجی کے اپنے رزق میں کتنی برکت کا باعث بنتی ہے؟دنیاکاکوئی پیمانہ اسکی پیمائش کرنے سے قاصر ہے۔سچ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ایساہے جیسے ”ایک دانہ بویاجائے جو سات بالیوں کی زراعت کا باعث ہو ہرہربالی میں سوسودانے ہوں“۔یہ تو دنیا کا حال ہے،آخرت میں اسکا کتنا اجر ملے گا؟اللہ تعالی ہی بہتر جانتاہے۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
38424