Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاحت پرکووڈ19 کے اثرات اور ان کا تدارک….پروفیسرعبدالشکور شاہ

شیئر کریں:

کرونا کی عالمی وبا نے پوری دنیا کی معیشت کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ دنیا بھر کی سیاحت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔دنیاکے بے شمار ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سیاحت ملازمت، ریونیو اور غیر ملکی زرمبادلہ کا بہت بڑا زریعہ ہے۔ سیاحت کے زوال کی وجہ سے دنیا کے بے شمار ممالک جی ڈی پی کی تنزلی اور بے روزگاری کا شکار ہو چکے ہیں۔ کرونا کا عالمی لاک ڈاون کب تک جاری رہتا ہے اس کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا کے بعض ممالک میں بے روزگاری کا تناسب 20% سے بڑھ چکا ہے جبکہ پاکستان میں یہ تناسب 50% سے تجاوز کر چکا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے سیاحت دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے شعبوں میں شامل ہوچکا تھا۔سال 2018 میں عالمی سطح پر1,407 ملین سیاح ریکارڈ کیے گئے جو سال 2017 کی نسبت 6% زیادہ تھے۔ ان سیاحوں کی جانب سے 1,480 بلین ڈالر صرف کیے گئے جو سال 2017 کے مقابلے میں 4.4% زیادہ تھے۔سیاحت کی وجہ سے عالمی جی ڈی پی گزشتہ 8 سالوں کے مقابلے میں ترقی کی راہ پر گامزن تھی۔دنیا میں سیاحوں کی وجہ سے درآمد ات عالمی تجارت کا 7% ہے۔سال 2019کے دوران عالمی سیاحت میں فرانس، سپین، امریکہ اور چین سب سے زیادہ سیر و تفریح کا مرکز رہے۔ سیاحت کا شعبہ عالمی سطح پر خواتین کے روزگار کا سب سے بڑا زریعہ ہے۔ عالمی سطح پر 54%خواتین سیاحت کے شعبے سے منسلک ہیں۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد بلاواسطہ طور پر سیاحت کے شعبے سے منسلک ہے۔ٹریول ایجنسیاں، ائیر لائنز، جہاز، ہوٹلز، ریستوران، خریداری کے مراکز اور دیگر بے شمار شعبے سیاحت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سیاحت کے زوال نے ان تمام شعبوں سے وابستہ افراد کی کمر توڑ دی ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی سیاحتی تنظیمWTO کے ایک تخمینے کے مطابق کرونا کی وجہ سے عالمی سیاحت سے وابستہ 850ملین افراد کو 1.1بلین ڈالر،اور1.1ٹریلین ڈالر درآمدی نقصان ہوا ہے۔ عالمی سطح پر 120 ملین سے زیادہ لوگ سیاحت کے شعبے سے وابسطہ ہیں جو سیاحت بند ہو نے کی وجہ سے بے روزگار ہو چکے ہیں۔WTO کے مطابق ترقی

پذیر ممالک میں سیاحت 9.5% ملکی جی ڈی پی میں اضافہ کر تا ہے۔ کچھ ممالک جیسا کہ تھائی لینڈ، یونان، گروٹیا وغیرہ کی  معیشت8% سے لیکر 18%تک سیاحت پرمنحصر ہے۔ دنیا میں 20 ممالک ایسے ہیں جن کا زیادہ تر دارومدار سیاحت پر ہے۔WTO  کے مطابق سال 2019کے دوران 29% عالمی درآمدات سیاحت کی وجہ سے ممکن ہوئیں اور سیاحت کے شعبے نے 300ملین لوگوں کو روزگار مہیا کیا۔ آسٹریلیا میں سیاحت کی صنعت کو 10ملین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔بوسنیا میں سیاحوں کی تعداد 79%،بلغاریہ میں 64.7%، کموڈیا میں 65%، چین98.6%،سائپرس 67%، ہنگری 98% اور انڈیا میں  99.9% گر چکی ہے۔ کوریا میں 94.6%، ہوائی تو سیاحوں کے لیے 100% بند ہے۔ ویتنام میں سیاحوں کی تعداد 98.2%گر چکی ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک کا حال بھی متذکرہ بالا ممالک جیسا ہی ہے۔ کرونا کی وجہ سے نا صرف سیاحت کے انویسٹرز متاثر ہوئے ہیں بلکہ کرائے پہ گاڑیوں کا کام کرنے والے، مچھلیاں پکڑ کر فروخت کرنے والے، سیاحوں کا سامان اٹھانے والے مزدور، ٹور گائیڈز، کرائے پر ہوٹلز اور گیسٹ ہاوسسز لینے والے افراد بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔کرونا نے عالمی سیاحت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور کشمیر کی سیاحت کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔پاکستان میں سیاحت کا موسم شروع ہوتے ہی لوگ عید کی طرح تیاریوں میں مصروف ہو جایا کر تے تھے۔ فیملیز تہواروں پر صحت افزاء مقامات کی سیر پر روانہ ہو جاتی تھیں۔ غیر ملکی سیاح بھی پاکستان کا رخ کر تے تھے۔ مگر کرونا نے سب کی امیدیں پر پانی پھیرنے کے ساتھ ساتھ سیاحوں اور سیاحت سے وابستہ شعبوں کے افراد کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

پاکستان میں سیاحت ماضی کی نسبت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا کہ کرونا نے آدبوچا۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پاکستان اور آزادکشمیر کی سیاحت کو چار چاند لگا دیے تھے۔ مگر اب اس چاند کو عرصے سے گرہن لگ چکا ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی بے شمار لوگ سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ کشمیر کی جنت نظیر وادی نیلم تو گزشتہ چند سالوں سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے حقیقی جنت جیسا روپ دھارے ہوئے ہے۔سیاحت کی وجہ سے وادی نیلم کے لوگوں کی بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی تھی۔ کشمیر کی طرح پاکستان کے شمالی علاقے بھی قدرتی حسن سے مالا مال ہیں جو ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح کو اپنی قدرتی حسن سے محسور کر کے اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔

کرونا کا جادو ٹوٹے گا تو ان علاقوں کی رونقیں بحال ہوں گی۔ وادی کاغان، وادی چترال، وادی نیلم، سوات، گلگت بلتستان اور دیگرصحت افزاء مقامات ویران ہو چکے ہیں۔ پاکستان تقریبا 50ملین مقامی سیاحوں کا مرکز بن چکا تھا۔ سال 2018میں خیبر پختونخواہ میں 5ملین سیاح آئے جن کی وجہ سے 8665 بلاواسطہ روزگار کے مواقع میسر آئے۔گزشتہ سال عید ین کے مواقع پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے لیے آنے والوں میں 100  سے زیادہ ممالک کے باشندے بھی شامل تھے۔ کرونا کی وجہ سے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 20ملین ڈالر سے زیادہ کو نقصان ہو چکا ہے۔ کرونا کی وباکب تک رہے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہم سیاحت سے وابستہ لاکھوں افراد کو بھوکا نہیں مار سکتے۔

آج بھی وادی نیلم میں سیاحت سے وابستہ تنظیموں اور عام لوگوں نے آٹھمقام کے مقام پر احتجاجی دھرنا دیا جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اب لوگ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہمیں دیگر شعبوں کی طرح سیاحت کے شعبے کو بھی ایس او پیز کے ساتھ کھولنا ہو گا۔ ہم یورپ کی طرح معاشی لحاظ سے اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ ہم مزید اس لاک ڈاون کا سامنا کر سکیں یا ہماری حکومت ہمیں سپورٹ کرسکے۔ ہم درجہ ذیل اقدامات کے ساتھ سیاحت کے شعبے فحال کر سکتے ہیں۔ سیاحت کے لیے ایس و پیز مرتب کی جائیں اور ان پر عملدرآمد کر یقینی بنایا جائے۔ دیگر شعبوں کی طرح سیاحت کے شعبے کے لیے بھی مالی امداد کا اعلان کیا جائے۔

ملائشیاء کی طرح سیاحت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو ٹیکس فری قرار دیا جائے۔سیاحت کے شعبے سے منسلک افراد کے لیے انسنٹیوز کا اعلان کیا جائے۔ کرونا کے خاتمے تک سیاحت کے شعبے کے بلز معاف کیے جائیں۔ سیاحتی مقامات پر سپرے کیا جائے اور ہوٹلز وغیرہ میں بھی اس کے اہتمام کو یقینی بنایا جائے۔ ایس او پیزکی پابندی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری اور پبلک پارٹنرشپ کے تحت مختلف ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔ حکومت سیاحت کے شعبے کو زوال سے نکالنے اور اس سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے آسان قرضوں کے اجراء کا اہتمام کر ے۔ حکومت سیاحت کے شعبے میں سبسڈی دے کر اس شعبے کو مشکلات سے نکالے۔ ملائیشیا کے محکمہ خزانہ نے سیاحت کے شعبے کے لیے جس انداز میں سہولیات، قرضے اور سبسڈی دی ہے ہمیں ان کے ماڈل کو اختیار کر کے سیاحت کے شعبے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔


شیئر کریں: