Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فیول ایڈجسٹمنٹ یا غنڈہ ٹیکس…… محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی نے دسمبر2019 کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی ایک روپے 88 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دیدی ہے۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے دسمبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی درخواست کی تھی۔جس میں بجلی کی قیمت دو روپے فی یونٹ بڑھانے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔چیئرمین نیپرا نے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں سے استفسار کیا کہ دسمبر میں بجلی کی پیداوار میں فرنس آئل کا زیادہ کیوں استعمال کیا گیا، دسمبر میں 4 ارب 90کروڑ کا فرنس آئل استعمال کیا گیا۔حکام نیشنل پاور کنٹرول سینٹر نے بتایا کہ دسمبر میں گیس کی قلت کے باعث فرنس آئل استعمال کیا گیا۔چیئرمین نیپرا نے کہا کہ صارفین کی بجلی کے بل دے دے کر چیخیں نکل گئی ہیں اور یہ ایک ماہ میں پانچ ارب کا فرنس آئل استعمال کر رہے ہیں۔نیپراکے مطابق ایک روپے 88 پیسے فی یونٹ قیمت بڑھانے سے صارفین پر 13 ارب 80کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔اگر دو روپے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ مان لیا جاتا تو تقریباً17ارب روپے بجلی کے صارفین کو دینے پڑتے۔جب فرنس آئل کا خرچہ چار ارب نوے کروڑ آیا ہے تو صارفین سے سترہ ارب روپے وصول کرنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دسمبر2019 کی فیول پرائس کی ایڈجسٹمنٹ آٹھ ماہ بعد جولائی2020میں صارفین سے وصول کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔صارفین کی جیبوں سے نکالی جانے والی بارہ ارب روپے کی اضافی رقم کہاں خرچ کی جائے گی۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے عوام پر بجلی گرانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سال میں دو تین مرتبہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں۔پندرہ سال قبل نیلم جہلم بجلی گھر کے لیے ایک سال تک عوام سے ٹیکس جمع کرنے کا فیصلہ کیاگیا تھا۔ ستر پچھتر روپے ماہانہ بجلی کے بلوں پر نیلم جہلم سرچارج کی مد میں چھ ارب روپے جمع کرنے تھے۔وطن عزیز میں ایک بار ٹیکس لگ جائے پھر اس پر نظر ثانی کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ہوتی۔ چھ ارب روپے این جے سرچارج کی مد میں 2005میں ہی عوام سے وصول کئے گئے تھے۔اور لوٹ مار کا یہ سلسلہ اب تک بدستور جاری ہے اور اب تک اس مد میں عوام 90ارب روپے وصول کئے جاچکے ہیں۔ نیلم جہلم پراجیکٹ مکمل ہوسکا نہ ہی عوام سے غنڈہ ٹیکس کی وصول بند ہوسکی۔حیرت کی بات ہے کہ وسیع پیمانے پر یہ کرپشن نہ صدر، وزیراعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور نہ ہی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نظر آتی ہے نہ ہی نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی اس لوٹ مار کا کوئی نوٹس لیتی ہے۔اب تو بجلی کے بلوں کے ساتھ وصول کی جانے والی ٹیلی وژن فیس دو سو فیصد تک بڑھانے کی باتیں ہورہی ہیں کابینہ نے اس کی منظوری بھی دی تھی تاہم عوام اور میڈیا کی طرف سے شدید ردعمل کے بعد اسے کچھ عرصے کے لئے موخر کیاگیا ہے۔ایک سنجیدہ سوال ذہنوں میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واپڈا بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کے باوجود خسارے میں ہے۔پانی سے دو روپے فی یونٹ کے حساب سے پیدا ہونے والی بجلی صارفین کو بارہ سے چودہ روپے فی یونٹ فروخت کرنے کے باوجود خسارہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اگر تیل سے پیدا ہونے والی بجلی تھوڑی مہنگی ہے تو نیشنل گرڈ میں تھرمل پاور سے پیدا ہونے والی دس فیصد بجلی ہی شامل ہوتی ہے نوے فیصد بجلی پانی، ہوا، شمسی توانائی، کوئلے، گیس اور جوہری توانائی سے حاصل ہوتی ہے۔پاور ڈویژن کی طرف سے بار بار کہا جارہا ہے کہ ملک میں بجلی کی کوئی کمی نہیں، ملکی ضرورت سے ہزار دو ہزار میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی جارہی ہے اگر یہ حقیقت ہے تو شہری علاقوں میں چھ سے آٹھ اور دیہی علاقوں میں بارہ سے چودہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا کیا جواز ہے؟بجلی ہر گھراور ہرفرد کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔قیمتیں بڑھانے اور لوڈ شیڈنگ سے پاکستان کا ہر شہری متاثر ہورہا ہے۔عوامی مفادات کا تحفظ حکومت اور سرکاری اداروں کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ عوام کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے تو نیپرا، نیب، وفاقی و صوبائی حکومتوں، تحقیقاتی ایجنسیوں اور عدلیہ کو بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والے اداروں میں ہونے والے گھپلوں اور عوام پر بار بار بجلی گرانے کے واقعات کا از خود نوٹس لینا چاہئے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
38142