Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پختون قومیت کے خلاف سہ جہتی حکمت عملی ….. قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

شیئر کریں:

گذشتہ دنوں نجی چینل کے ایک ڈرامے میں پختون قومیت کے خلاف مخصوص منفی ذہنیت کا اظہار انتہائی مایوس کن و افسوس ناک تھا، کردار میں دکھایا گیا کہ رانگ نمبر لگنے سے پختون قومیت سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی ڈرامے کے کردار ’ نیبل“ کو فون کرکے کہتے ہیں کہ وہ ان کے لئے تحفے لائے ہیں، جس پر خاتون کردار’مومو’انہیں گھر آنے کا کہتی ہیں تو دوسری جانب دو مرکزی کردار’محمود صاحب‘ و نبیل منع کرتے ہیں کہ وہ کیا لاسکتے ہیں ان کا ”حلیہ“‘ دیکھو، اگر کچھ لائے بھی ہوں گے تو ’نسوار سے بھری بوری“یا ”بارود“۔تفریحی  پروگراموں میں کسی بھی قومیت کو شدت پسند کا تخیل دینا انتہائی شرمناک حرکت ہے۔ اس تناظر میں جب  پورے پاکستان میں نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں مختلف قومیتوں کے درمیان ملک دشمن عناصر کی بھیانک سازش کی ایک ایک کڑی کھلتی نظر آتی ہے۔ ان کڑیوں کو ملک دشمن عناصر کی سہ جہتی حکمت عملی کہا جاتا ہے۔


(1) آئسولیشن   (ISOLATION) یعنی کسی مخصوص قوم کو دیگر تمام قومیتوں اور طبقات سے کاٹ کر علیحدہ کردیا جائے۔(2) کرمنلائزیشن (CRIMNALIZATION) یعنی قانون پسند شہری کے بجائے کسی مخصوص قوم کے فرد کو عادی مجرم اور ان کی نمائندہ جماعت کو حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک سیاسی جماعت کے بجائے مجرموں اور دہشت گردوں کا گروہ بنا کر پیش کیا جائے اور ان کے ساتھ عادی مجرموں جیسا سلوک کیا جائے۔ (3) ڈی مورالائزیشن (DEMORALIZATION)  یعنی کسی مخصوص عوام و کارکنان کو کسی مخصوص جماعت سے بددل اور بدظن کیا جائے اور ان میں مایوسی پیدا کی جائے۔


پاکستان کی بدقسمتی رہی کہ آزادی کے بعد سے عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم اور ان جاگیردار، وڈیروں، خوانین، سرمایہ داروں اور سرداروں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کا خواب انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے لیے اکابرین برصغیر نے دیکھا تھا۔بادی النظر دیکھا جائے تو ہمیں ایسی قیادت کا فقدان نظر آتا ہے جو قومیتوں کے مسائل کی درست طریقے سے ترجمانی کرسکے۔ گو کہ اس وقت پاکستان جن حالات و نا مساعد حالات سے گذر رہا ہے، اس وقت قومیتوں کو ایک صفحے پر لانے کی ضرورت ہے۔ تفریحی پروگرام عوام کو پریشان کن حالات سے کچھ وقت کے لئے مصروف رکھنے کے لئے معاون ثابت ہوتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستانی ڈرامہ وفلم انڈسٹری اس قدر زوال پذیر ہوچکی ہے کہ ان میں دم خم بھی باقی نہیں رہا ہے۔


 انگریزوں کی غلامی سے مستفید ہونے والے جاگیردار اور وڈیروں کو بخوبی اندازہ ہو چلا تھا کہ اگر جمہوری اقدار کو پروان چڑھایا گیا تو مراعات یافتہ طبقہ کا نام نہاد حق حکمرانی اورغلامی کے نتیجے میں ملنے والی جائیدادوں اور خزانوں سے محروم ہوکر انھیں بھی عام پاکستانی کی طرح ٹیکس اور اپنی جاہ و حشمت کا حساب کتاب دینا ہوگا۔ تعلیمی اداروں، صنعتوں اور بینکوں کو نیشنلائز اور سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے روزگار اور دہرا نظام تعلیم رکھ کر اعلیٰ تعلیم سے محرومی، لسانی فسادات کی بنیاد رکھ کر سب سے پہلے دیہی و شہری تفریق کا نفرت انگیز بیج بودیا۔


مخصوص قوتوں نے سب سے پہلے آئسولیشن پر عمل درآمد کرتے ہوئے فاطمہ جناح اور ایوب خان کے صدارتی انتخابات کے دور میں لسانی فسادات کرائے، آئیسولیشن کے دوسرے مرحلے کا آغاز، کرمنلائزیشن کے دوسرے نقطے پر عمل کرکے شروع کیاگیا، یہ مرحلہ انتہائی خطرناک اور قیمتی جانوں کے عظیم سانحات کا موجب بنا۔ کرمنلائزیشن کی حکمت عملی کے تحتلسانی قومیتوں کو  آپس میں متنفر کیے جانے کی سازش کی گئی۔پھر بدقسمتی کہ میڈیا نے بھی تصویر کا وہی رخ دنیا کے سامنے دکھایا جس سے اچھے اچھے لوگوں کے دلوں میں منفی تاثر جڑ پکڑنے لگا اور ہر جرم کا ذمے دارلسانی قومیتوں کو ٹھہرائے جانے کی کوشش کی جانے لگی اور جس نے بھی حقیقت تلاش کرنے کی سعی کی اس کی شخصیت کو غدار اور قوم کا دشمن بنا کر داغ دار کردیا گیا۔


قومیتوں میں اصل حقائق کو جاننے کا جذبہ پیدا ہونے کے بجائے اس قدر حوصلہ شکنی کی گئی کہ معاشرتی، خاندانی دباؤ کے تحت باشعور عوام کی خاموش اکثریت نے خاموش رہنے کو ترجیح دی،   قومیتوں کے تعلیم یافتہ اور نوجوان طبقے میں طے شدہ منصوبے کے مطابق عوام کو ملک کی دیگر قومیتوں سے آئسولیٹ کرنے کے لیے کرمنلائزیشن کا ایک ایسا منظم منصوبہ جاری رکھا گیا جس کی جڑیں ناپختہ اذہان میں مضبوط ہوتی چلی گئیں اور اس کا فطری نتیجہ متعدد ایسے واقعات کے رونما ہونے پر نکلا جس سے انسانیت شرمسار ہوئی۔ مملکت کے لیے جان و مال کی قربانی دینے والوں کو اینٹی پاکستان بنا کر پیش کیا جانے لگا اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قومیتوں کو باہم دست و گریبان کردیا گیا کہ ہاتھ چھڑانے والے کم اور آگ لگانے والے زیادہ ہوتے چلے گئے۔ کرمنلائزیشن پالیسی کے تحت  مخصوص قومیتوں شدت پسندسمجھا جانے لگا۔ نفرتوں کی اس خلیج کو نئی نسل میں اس قدر بڑھا دیا گیا کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز مشکل تر ہونے لگی۔
ڈی مورالائزیشن یعنی مخصوص عوام اور کارکنان کو بددل، بدظن اور مایوسی پیدا کرنے کے اس عمل میں ان گروپوں کو استعمال کیا جارہا ہے جو خدمت کے نام پر عوام کے حقوق سلب کرتے رہے۔ تینوں نکات کی منصوبہ بندی کا بنیادی مقصد صرف اور صرف جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ، وڈیرانہ، سرداری اور خوانین کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ہم سب کو مل کر ان سازشوں کو ملکی سا  لمیت اور آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے ناکام بنانا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم سب کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ہم سب ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں باہمی میل ملاپ اور ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ ہمارا رہن سہن، کاروبار، وابستگیاں اور مفادات مشترکہ ہیں۔ غرض یہ ہے کہ ہم سب لازم و ملزوم ہیں۔ کسی قوم کی تعداد سیکڑوں میں نہیں ہے کہ اسے جبری اور استبدادی قوت سے دبا کر دیوار سے لگادیا جائے گا۔ ہم سب کو متحد ہو کر اپنی قوم اور مملکت کی بقا کی خاطر ملک دشمن عناصر کی سہ جہتی حکمت عملی کو عملی طور پر ناکام بنانا ہوگا۔تفریحی پروگراموں میں عصبیت و لسانیت کی نمائندگی پاکستان میں اتحاد و یگانت کے حق میں بہتر نہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
37966