Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نیلم سے بے روزگاری ختم کرنے کے چند طریقے….پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

نیلم ویلی آزادکشمیر کا سب سے بڑا اور سب سے پسماندہ ضلع ہے۔ نیلم میں بے روزگاری آزادکشمیراور پاکستان کے تمام خطوں سے زیادہ ہے۔ اس ضلع کی پس ماندگی اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے حکومتوں نے اقدامات نہیں کیے۔ابھی بھی وقت ہے اگر ہم بھارتی جارہیت اوور بربریت سے متاثرہ اس خطے میں بے روزگاری کو ختم کرنے کی طرف دھیان دیں تو ہم شاید بے روزگاری ختم تو نہ کر پائیں مگرخطے میں موجود افلاس کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے سرکاری اور پرائیویٹ پارٹنرشپ بہت مفید ثابت ہو گی۔ وادی نیلم کو اللہ تعالی نے بے پناہ قدرتی وسائل سے نوازہ ہے۔ نیلم ویلی کے کل رقبے کا صرف 3.7فیصدحصے پر   کاشتکاری کی جاتی ہے۔ 97فیصد رقبہ بے کار پڑا ہواہے۔ ہم نیلم میں زراعت کے شعبے میں ورٹیکل فارمنگ کو متعارف کروا کرزیادہ زرعی پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔ نیلم کے رقبے پر پھل دار درختوں کی شجرکاری بھی بے روزگاری اور معاشی بدحالی کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ نیلم کے کسانوں کو سستے اور جدید سائنسی بیجوں کے ساتھ ساتھ مختلف زرعی ورکشاپس کے زریعے زراعت کے شعبے میں جدیدسائنسی مہارتوں اور طریقہ کاشت سے روشناس کروانا چاہیے۔ وادی نیلم کے 97فیصد لوگ کھیتی باڑی پر انحصار کرتے ہیں۔ اس شعبے کو نظر انداز کر کے ہم کبھی بھی معاشی لحاظ سے بہتر نہیں ہو سکتے۔ نیلم کے پھلوں کو ٹیکس اور چونگی سے فری کر کے منڈی تک رسائی دی جائے۔ وادی نیلم کے کسان اپنے آپ کو صرف ایک فصل تک محدودرکھتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے برف کم پڑتی ہے۔اہل نیلم یورپ کا گرم لنڈا پہن سکتے توہم وادی نیلم میں گرم کپڑے کاکوئی چھوٹا کارخانہ کیوں نہیں لگاتے جس سے وادی کے لوگ نہ صرف اپنی سردیوں کے ملبوسات حاصل کریں بلکہ وہ دیگر سرد علاقوں میں سپلائی بھی کریں۔ اس سے مقامی لوگوں کی اپنی ضروریات پوری ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی صنعت کو بھی فروغ ملے۔ ایسے کارخانے روزگار کے زرائعے بھی میہا کریں گے۔ مگر ہمیں یورپی لنڈا پسند ہے ہم نے کارخانے کس لیے لگانے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زیادہ تر زمینوں تک پانی کی فراہم ناپید ہو چکی ہے۔ حکومت نیلم میں ایسے بیج متعارف کروائے جو کم سے کم آبیاری کے زریعے اچھی پیداوار کے حامل ہوں۔ وادی کے لوگوں کا دوسرا بڑا زریعہ غلہ بانی ہے جو اب زوال کا شکارہے۔ اب لوگ مال مویشی کم کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی سے چراگاہوں کا ناپید ہونا اور عدم سہولیات کیوجہ سے مقامی آبادی کی شہروں کی طرف نقل مکانی ہے۔ مگر ابھی بھی وادی نیلم میں غلہ بانی دوسرا بڑا زریعہ معاش ہے۔ اگر پنجاب کے دور دراز گاوں سے ڈیری کی پراڈکٹس لاہور میں لاکر فروخت کی جاسکتی ہیں تو نیلم میں ایسا کیوں ممکن نہیں ہے۔ ہم نے آج تک اپنی مقامی پیداوار سے متعلق کوئی پروگرام شروع نہیں کیا۔ سیب، اخروٹ، شہد اور دیگر مقامی اشیاء کی پیداور اور اس کی منڈیوں تک ترسیل سے نہ صرف غربت کم ہو گی بلکہ حکومت کے کندھوں سے بوجھ بھی ہلکا ہو گا۔ ہم اس حقیقت سے آگا ہ ہیں کہ ہم ہر کسی کو سرکاری نوکری نہیں دے سکتے،مگر ووٹ ہر کسی سے لے سکتے، کم از کم ہم ان کو مختلف شعبوں کے لیے تربیت کے مواقع تو مہیا کر سکتے ہیں۔ ایک اور بڑا شعبہ لکڑی کا تعمیراتی کام ہے۔ وادی کے 98فیصد سے زیادہ کاری گر غیر تربیت یافتہ ہیں۔ وہ گاوں کے مکانات تو بنانے جانتے،مگر شہر میں جا کر وہ اپنے فن کو استعمال نہیں کر سکتے۔ ان کاری گروں میں سے زیادہ تر دستی ہتھیار استعمال کر تے ہیں۔ ان کو تربیت دے کر ہم نہ صرف ان کی مہارتوں کو نکھار سکتے ہیں بلکہ ان کے کام کی رفتار کے ساتھ ساتھ ان کی آمدن

 بھی بڑھا سکتے ہیں۔ وادی نیلم میں ملنے والے تعمیراتی کاموں میں سے اکثر کے ٹھیکے وادی سے باہر کے لوگوں کو دیے جاتے ہیں۔ اور انتہائی قلیل تعداد میں مقامی لوگوں کو ان کاموں میں شامل کر تے ہیں۔ جو شامل ہو تے ہیں وہ بطور مزدور کام کر تے ہیں۔ وادی کی معدنیات اور جڑی بوٹیوں کا نکاس بھی ایک بہت بڑا شعبہ ہے جو آج تک زوال کا شکار ہے۔ ہم ایک ٹھیکدار کو ٹھیکہ دے دیتے وہ عام لوگوں سے جڑی بوٹیاں نکلوا کر اونے پونے داموں خرید کر خود اربوں روپے کماتا ہے۔ ہم نے دانستہ طور پر وادی کو پس ماندہ رکھا ہوا ہے۔ حکومت کو چاہیے کے وہ ضلع نیلم کے دومقامات شاردہ اور اٹھمقام پر معدنیات اور جڑی بوٹیوں کی منڈی لگائے جہاں پر لوگ اپنی دن رات کی محنت سے نکالی ہوئیں جڑی بوٹیاں اور معدنیات فروخت کریں۔ حکومت کی نگرانی میں لگائی جانے والی منڈی سے حکومت ٹیکس کی مد میں بھی پیسے حاصل کر ے گی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ مختلف مقامات پر لوگوں کی تربیت کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کرے جن کے زریعے لوگوں کو جدید سائنسی طریقہ سے ان قدرتی خزانوں سے مستفید ہونے کی تربیت دی جائے۔ مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ جڑی بوٹی کی سمگلنگ کو نہ صرف روکا جا سکے بلکہ اس سے قانونی طریقہ کا ر کے زریعے حلال آمدن کا زریعہ بنایا جائے۔نیلم میں کم از کم دو ٹیکنیکل ادارے کھولے جائیں جن کے زریعے نوجوانوں کو سکلز سکھائی جائیں۔ اگر ہم ٹیکنیکل اداروں کی طرف توجہ نہیں دیں گے تو پھر نوجوان رسمی ڈگریاں لے کر نوکری کی تلاش میں بے روزگار بیٹھے رہیں گے اور پھر حکومت کے خلاف سوشل میڈیا کو ہی زریعے اظہار بنائیں گے۔ نیلم کی انتظا میہ اور حکومت سے گزارش ہے وہ نیلم میں پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ پرائیویٹ سیکٹر میں شامل ہو کر بے روزگاری سے نجات حاصل کریں۔ مقامی صنعتیں تو اب برائے نام رہ گئی ہیں۔ ہم وادی کی 51فیصد خواتین کو گائے بکریاں چرانے تک محدود کیے ہوئے ہیں۔ مقامی صنعتوں کو فروغ دے کر ہم 51فیصد خواتین آبادی کو معاشی دھارے میں لا کر معیشت کیا ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ سلائی کڑھائی کی صنعت کو حکومتی اور مختلف این جی اوز کے زریعے فروغ دے کر وادی کی خواتین کو مہارتیں سکھائی جائیں۔لاہور میں موجود صنعت زار طرز پر خواتیں کو روزگار کے لیے تیار کیا جائے۔ حکومت سے گزارش ہے وہ رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ وادی کی نئی نسل کو ہنر سکھانے کی طرف توجہ دے۔ہنر مند افراد حکومت پر بوجھ نہیں بنتے وہ تو ملکی معشیت کو مضبوط کرتے۔ اگر ہم واقعی بے روزگار اور غربت ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو متذکرہ بالا اقدامات اٹھانے ناگزیر ہو چکے ہیں۔


شیئر کریں: