Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوسروں کا بچاکھانا جمع کرنے والا ہیرو…..پروفیسر عبدالشکور شاہ

شیئر کریں:

وادی نیلم، جنوری کا مہینہ، ہرطرف برف، ایک کمرے میں 60 کے قریب بچے پرانے گرم کپڑے پہنے ہوئے پڑھائی میں مصروف تھے۔ کچھ بچوں نے اپنے بڑے بھائی،والد ،چچا یا داد جی کے کوٹ پہنے ہوئے جو ان کے قد سے کہیں بڑے اور قومی اسمبلی کی طرح کھلے تھے۔ یوں لگتا تھا کوٹ کئی سالوں سے نہیں دھوے۔ کوٹوں پر جگہ جگہ داغ لگے تھے اوراکثر کے سامنے والے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔ بٹنوں کی جگہ دھاگے سے سلائی کی ہوئی تھی۔یہ ساری چیزیں ہمارے ٹیکسوں کاعوام پراستعمال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اکثر بچے منہ دھوءے بغیر ہی کلاس میں بیٹھے تھے۔ بعض نے تو جوتے بھی اپنے ابو کے پہنے ہوئے تھے جوبڑے اور کھلے تھے مگر بچوں نے 3 تین جوڑے جرابیں پہن کران کا ماپ کسی نہ کسی طرح پورا کرلیا تھا ۔ اگر جرابوں کی بات کریں تو سوائے اوپر والی جراب کے باقی دونوں جوٹے اپنے رنگ اور ڈیزائین کے اعتبار سے مختلف تھے ۔ تھوڑی دیر بعد چڑاسی آتا ہے اورعلی(نام اصلی نہیں استعمال کیا) کوبلا کردفتر لے جاتا ہے ۔ بچے لکڑی کا تختہ پتھروں پر رکھ کر پھنس کے بیٹھے ہوئے تھے ۔ جب کوئی لڑکا غیر حاضر ہوتا تو باقی سکون کا سانس لیتے۔ کیونکہ بیٹھنے کے لیے کھلی جگہ مل جاتی تھی ۔ علی کے جانے پر ایک بولا: شکر کر موٹا گیا، میری تو پسلیاں ٹیڑی ہوگی تھیں۔ سنا ہےشہرمیں طالبعلموں کو بیٹھنے کے لیے کرسیاں ملتی ہیں۔ ایک کونے سے جواب آیا کرسی پہ بیٹھنے کے لیئے منہ دھونا پڑتا شیرو؛ تمہیں وہاں بھی تختہ ہی ملنا۔علی واپس بہت پریشان لوٹا؛ سب نے سوچا استاد جی نے پٹائی کی ہوگی ۔ سب اس بات سے واقف تھےعلی تھا بہت شریف، نہ کوئی شرارت ، نہ کوئی چالاکی بس اپنے کام سے کام رکھتا تھا ۔ ریاضی کا ٹیسٹ تھا، علی نے استاد صاحب کا ڈنڈا پکڑا اورکرسی کے ساتھ رکھ کر اپنے ہاتھ کھول کر مارے کھانے کے لیے کھڑا ہو گیا ۔ بولا استاد جی سوال نہیں آتے مار لیں ۔ سرخ چہرہ، کانپتے ہاتھ، نم آنکھیں ، پرانا کوٹ، پھٹے ہوئے جوتے، سر پہ باندھا ہوا میلا رومال اور ان دھلا منہ دیکھ کر استاد جی کوخلاف معمول پتہ نہیں کیا سوجھی، ڈنڈے برسانے کے بجاءےغصے سے ڈانٹتے ہوئے کہا جاو معیدے سے سمجھ لو۔علی پڑھنے میں بڑا لائق تھا، سب حیران تھےآج اسے کیا ہو گیا ہے۔ کلاس میں چند بچے ریاضی کے سوال کر رہے تھے باقی دعائیں مانگ رہے تھے یا اللہ آج بچا لےکل سے کام کر کے آئیں گے۔ وادی کے سرکاری سکولوں میں ایسے ہی ہوتا ہے ۔ مجھے یاد ہے ہمارا ایک کلاس فیلو اشفاق ایک دن کہتا یار دو دن ہو گئے مار نہیں پڑی ہاتھوں میں خارش ہو رہی لگتا ہے کل پڑنی ہے ۔ دعائیں قبول ہوئیں ۔ پیریڈ ختم ہوا اور استاد کل ٹیسٹ لینے کا کہہ کر کلاس سے چلا گیا۔ سب نے اکھٹے گہری سانس لی اور بولے آمین ۔ بریک ہو گئی سب کھیل میں مصروف ہو گئے ۔ بریک کےبعد مانیٹر فیس جمع کر نے کے لیے نام لکھنے لگا۔ ایک بچہ روہانسے انداز میں بولا میرے پیسے کسی نے نکال لیے ہیں اوررونے لگ گیا ۔ سب نے تسلی دینے کی کوشش کی مگر جس کی ساری جمع پونجی چلی گی ہو اس کو کیسے تسلی ملے ۔ گھر بتانے پر بھی مار پڑنی اور فیس نہ دینے پر بھی نہ صرف مار پڑنی بلکہ بات گھر تک پہنچ جانی ۔ فیس معافی کی درخواست بھی نہیں لکھنی آتی ۔غم سے نڈھال خاموشی سے رو رہا تھا۔ بعض اوقات ہمارے دکھ اتنے زیادہ ہوتے، صدمہ اتنا گہرا ہوتا کہ زبان بھی ساتھ چھوڑجاتی ۔ اس لڑکے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ کلاس کے سب لڑکوں کی توجہ اس کی طرف تھی اتنے میں اونچی آواز آئی بیٹھ جاو۔ سب اپنی بیٹھنے کی جگہوں کی طرف ایسے بھاگے گویا کوئی خودکش بمبار آگیا ہو۔ استاد نےغصے سے پوچھا کیا ہوا ہے؟ کیا مجمع لگایا ہوا ہے؟ بکریوں کی طرح جمع ہو جاتے۔ مانیڑ نے بتایا، سر ایک طالبعلم کی فیس گم ہو گءی ہے۔ استاد نے پہلے تو ماتھے پر بل لایا، ناک اوپرکھینچی، ہونٹ ادھرادھر موڑے اور بولا، (اوے گامیاں اٹھ بوا بند کر)۔ گامے اٹھو دروازہ بند کرو ۔ حکم بجا لایا گیا۔ استاد نے پہلے ساری کلاس پرایک نمبردار کی طرح نظر دوڑائی اورساتھ ساتھ اپنا سر بھی ہلا رہے تھے اور بول رہے تھے ۔ (مکو پتہ پیسے کیسونڑ کڈے دہن ) مجھے پتہ پیسے کس نے نکالے ہوئے ۔ باری باری سب کی تلاشی لینے کا حکم صادر ہوا ۔ سب کی تلاشی لی جانے لگی ۔ جرابیں جوتے، جوتوں کے تلوں پر لگے پیوندوں ( ٹاکیوں ) حتی کے ہر لحاظ سے تسلی کی جارہی تھی ۔ استاد نے تین موٹے لڑکوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ وہ نظر رکھیں جو حرکت کرے اسے ایک تھپڑ رسید کریں ۔ (چھک کے چنڈ ماریں جیڑا ہلے) ۔ فضلو کی باری آئی تو وہ تلاشی نہیں دے رہا تھا ۔فضلو تھا بھی بہت کمزور۔ جب استاد کو بتایا کہ فضلو تلاشی نہیں دے رہا، استاد تو لال پیلا ہو گیا اور بولا(چورے دا پتر ہک پیسے چھپیندا ہے نال مقابلہ بھی کردا ہے کہ تلاشی نہ دیساں ، او وا تلاشی تے تڑا پے بی دیسی وا) چور کا بچہ چوری بھی کرتا ہے اور تلاشی بھی نہیں دیتا ۔ استاد جی انتہائی غضبناک انداز میں کھٹرے ہوئے ۔ ان کے تیوردیکھ کے فضلو کے دائیں بائیں بیٹھے لڑکے اٹھ کر حفظ ماتقدم کے تحت دور جا کھٹرے ہوئے ۔ ایسے ہمارے ہاں الکیشن کے دوران ہوتا جب لوگ ایک پارٹی چھوڑ کے دوسری میں جارہے ہوتے اور تھوڑی دیر بعد گھوم کر واپس آجاتے ۔ اکثر ایسا ہو تا تھا مارایک کو پڑتی تھی اور پڑوسی بھی اس سے متاثر ہو تا تھا ۔ استاد نے فضلو کو بالوں سے پکڑا ہے تھا کہ آواز آئی ماسٹر صاحب بات سنیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کسی کام سے گزر رہے تھے شور سن کر کلاس کی طرف آگئے ۔ جسے اللہ بچائے اسے کون مار سکتا ۔ استاد صاحب ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ چلے گئے ۔ لڑکے ابھی کھسر پھسر کر رہے تھے کے چپڑاسی آیا اور فضلو کو بلا کو اس کے بیگ سمیت لے گیا ۔ اب ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے میں ، استاد صاحب، ہیڈ ماسٹر صاحب اور فضلو موجود تھے ۔ وجہ پوچھنے پرماسٹر صاحب نے ساری بات بتائی اور فضلو کو بھرا بھلا کہتے ہوئے مورد الزام ٹھہرایا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے تحمل اور پیار سے پوچھا کیا تم نے پیسے چرائے ہیں جواب میں فضلو کے دو موٹے موٹے آنسو ٹپکے اور بغیر بولے اس نے نفی میں سر ہلایا ۔ سر یہ جھوٹ بول رہا ہے اور تھپڑ مارنے کے لیے ماسٹر صاحب اٹھے مگر ہیڈ ماسٹر صاحب نے انہیں ہاتھ سے پکڑ لیا ۔ استاد کو کلاس میں بھیج دیا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو اندازہ نہ ہوا کے ماجرا کیا ہے !یہ بیگ کی تلاشی کیوں نہیں لینے دے رہا چہرے کے تاثرات سے تو نہیں لگتا اس نے پیسے نکالے ہوں گے ۔ خیر ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے پاس بلایا، کرسی پر بیٹھایا، پانی کا ایک گلا س پلایا اور کہا ، مجھے پتہ ہے پیسے تم نے نہیں نکالے ۔ پیسے اس لڑکے کے کسی نے بھی نہیں نکالے ۔ وہ تو بریک کے دوران گر گئے تھے اور چپڑاسی نے لا کر مجھے دے دیے تھے ۔ فضلو ٹکٹکی باندھ کے ہیڈ ماسٹر صاحب کو دیکھ رہا تھا ۔ ہونٹ کپکپائے، آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے وہ آنسوں صاف کیے اور کہا تم چور نہیں مجھے یہ پتہ ہے ۔ مگر تم بیگ کی تلاشی نہ دے کر اپنے اوپر شک کیوں کروا رہے ہو؟لڑکے نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ بیگ ہیڈ ماسٹر صاحب کی طرف کر دیا ۔ خود اپنا منہ ہاتھوں میں چھپاکر رونے لگا۔ ہیڈ ماسڑ نے بیگ کھولا تو اس میں پھٹی پرانی استعمال شدہ کتابیں تھیں ۔ پھٹی ہوئی کاپیاں ، مکئی کی آدھی خشک روٹی، ایک ٹوٹی ہوئی پینسل، ایک چھری،ایک بغیر نب والا پن، ایک لکڑی کی پینسل جو چھری سے کاٹ کر پن کی شکل کی بنائی گی تھی۔ ایک کھانسی کے سیرپ کی شیشی جس میں توت نچوڑ کر سیاہی بنائی گئی تھی۔ اس کےعلاوہ کچھ گلاس اورآ لوچے کی گھٹلیاں بھی تھیں ۔ کتابیں ادھر ادھر کیں تو ایک سیاہ رنگ کا شاپر ملا جسے مضبوطی سے گانٹھ لگائی گئی تھی ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب سب کچھ چھوڑ کر اس شاپر کو کھولنے کی کوشش کرنے لگے ۔ ہاتھوں سے گانٹھ نہ کھلی، دانتوں سے کھولی تو یک دم ان کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگ گئے ۔ شاپر میں نگدی کے دو دانے، ایک مونگ پھلی،آدھا کھایا ہوا پکوڑا،پراٹے کا مٹی سے بھرا ہوا ایک ٹکڑا،ایک کاغذ جس پر فرائی کیے ہوئے انڈے کے کچھ زرے موجود تھے، ایک آدھا کھایا ہوا سیب اور ایک ٹکڑا جلیبی کا تھا جو کہ مٹی سے بھرا ہوا تھا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب سمجھ گئے بھوکے کو کھانا چاہیے اور جب کوئی اس کا کھانا بھی چھیننے کی کوشش کرتا ہے پھر وہ مقابلہ کرتا ہے ۔ ہیڈ ماسٹر نے پوچھا ارے یہ کچرا کیوں جمع کیا ہوا ہے; اس کے لیے تم بیگ کی تلاشی نہیں دے رہے تھے ۔ فضلو بولا ، ہیڈ ماسٹر صاحب یہ کچر انہیں ہے یہ رزق ہے ۔ ہزاروں روپے تنخواہ لینے والوں کے لیے یہ کچرا ہے مگر غریب کے لیے یہ رزق ہے ۔ ابو نے کام کیا تھا مگر ٹھیکیدار بھاگ گیا پیسے نہیں دیے ۔ مکئی چکی پر(جندر) پرچھوڑی ہے ابھی باری نہیں آئی ۔ ایک ہفتے سے محلے والوں سے آٹا ادھا ر لے کر کھا رہے ۔ روز مانگنے سے بہتر ہے گرا ہوا کھا لو ۔ میں بریک کے دوران دیکھتا رہتا کون کیا کھا رہا ہے اور کس جگہ کھا رہاہے ۔ بریک ختم ہوتے ہی میں اس جگہ ایسے جاتا جیسے میری کوئی چیز گم ہو گئی ہو اور بہانے سے کھانے کے ٹکڑے اکٹھے کر لیتا ۔ گھر جا کر یہ امی کو دیتا وہ انہیں اچھے سے دھو کر مجھے دیتی اور خود بھی کھاتی ۔ میں یہ اپنے چھوٹے بہن بھائیو ں کو بھی دیتا وہ سمجھتے میں نے کھا کر انکا حصہ رکھا ہے
۔ اب فضلو بول رہا تھا اور ہیڈ ماسٹر صاحب رو رہے تھے ۔ اور ہیڈ ماسٹر صاحب ، میرا پن ٹوٹ گیا میں نے لکڑی کا بنا لیا ہے ۔ سیاہی نہیں لے سکتا تو توت اکٹھے کر کے کپڑے میں ڈال کے نچوڑ کے سیاہی بنا لیتا ۔ پلاسٹک کی بوتل نہیں تھی امی نے کہا میری دوائی گلاس میں ڈال دو اور بوتل میں تم سیاہی بنا لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب یہ ٹوٹی ہوئی کچی پینسل مجھے چاچاغمدو کی دکان کے ملبے سے ملی، انکی دکان سیلاب آنے کی وجہ سے دریا چلی گئی تھی ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا اور یہ چھر ی کیوں رکھی ہوئی؟ فضلو بولا ہیڈ ماسٹر صاحب شاپنر نہیں ہے تو میں چھری سے کچھی پینسل تھوڑی سی بنا لیتا جو استعما ل ہو جائے زیادہ بنا لوں تو سکا ٹوٹ جاتا ہے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا اور یہ گلاس اور آلوچے کی گھٹلیاں کس لیے جمع کی ہوئی؟ 

بولا سر ابو جتنے دن کام پر جاتے مجھے کہتے حساب رکھنا کتنے دن میں کام پر گیا ہوں ۔ ریاضی نہیں آتی میں ان گھٹلیوں سے حساب رکھتا ۔ جس دن انکی د یہاڑی لگ جاتی میں ایک گھٹلی بڑی جیب سے چھوٹی جیب میں ڈال دیتا ۔ یوں مجھے یاد رہتا کتنے دن کام ملا ہے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب بولے ارے فضلو یہ تو دس سے بارہ گھٹلیاں ہیں ۔ مہینے میں تو 30یا 31دن ہوتے ۔ فضلو بولا ہوتے ہوں گے سر ہمارے تو بس دس سے بارہ دن ہوتے جب دیہاڑی لگ جاتی تو دن نہ لگی تو رات ۔ ہیڈ ماسٹر نے فضلو کو گلے لگا لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں کچھ دیر تک روتے رہے ۔ نیلم میں ہرغریب بچہ ایسی ہی مشکل سے پڑھتا ہے۔ جب اس سے اسکے ماں باپ کی بے بسی نہیں برداشت ہوتی تو وہ تعلیم چھوڑ کر کام کاج میں ماں باپ کا ہاتھ بٹاتا ہے ۔ اسی لیے وادی نیلم میں پرائمری سطح پر %35 بچے سکول چھوڑ جاتے ۔ وادی نیلم میں ایسے ہزاروں فضلو آپ کی مدد
کے منتظر ہیں ۔ ۔ ۔ ان کو بچانے کے لیے ، ان کو پڑھانے کے لیے، ان کو کچھ بنانے کے لیے، مل کا نام بنانے کے لیے آواز اٹھائیں ۔ ۔ ان کو انکے حقوق دلائیں ورنہ روز قیامت فضلو کا ہاتھ ہو گا اور ہمارا گریبان ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
37446