Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بھارت کا میزائل پروگرام ……ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھارت کی ریاست سیکولرازم کی بہترین نمائندہ مملکت ہے جس کے بارے میں علامہ محمد اقبال ؒکا یہ تبصرہ صادق آتا ہے کہ ”چہرہ روشن اندروں چنگیزسے تاریک تر“۔”سیکولر ازم“انسانوں کی گمراہی کا وہ نظام ہے جس نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاہے اور اس کی عمدہ ترین مثال بھارت میں دیکھی جا سکتی ہے جس ملک کی کوئی اقلیت مطمئن نہیں ہے،کتنے ہی صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور جس ملک کی ”سیکولر“فوج نے اپنے ہی ملک کے باسیوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھاہے۔اور اس سے بڑھ کر”سیکولرازم“کے اور کیا ثمرات ہوں گے کہ مذہبی ومقدس مقامات تک فوج کے ناپاک بوٹوں سے محفوظ نہیں ہیں ان سب پر مستزاد یہ کہ غربت اور جہالت نے ملک کے طول وعرض میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں،نسلوں پر نسلیں گزر جاتی ہیں لوگ فٹ پاتھوں پر پیداہوتے ہیں پلتے بڑھتے ہیں اور مر جاتے ہیں اس ”سیکولرازم“اور ہندومت کی چھتری تلے انہیں کسی مکان کی چھت میں ایک رات کی نیند نصیب نہیں ہوتی۔بھارتی سیکولرازم کا ایک اور تحفہ غریب والدین کا اپنے بچوں کی فروخت ہے جس کا دلسوزوجانگدزا دھندا دنیامیں سب سے زیادہ بھارت کے اندرجاری ہے۔بھارتی”سیکولرازم“ان سب حالات میں بھی اپنے وسائل عوام پر خرچ کرنے کی بجائے اسلحے کے انبار پر ہی خرچ کرنے کی ترغیب دیتاہے۔


بھارتی ”سیکولرازم“کے شاخصانے بھارت کی خارجہ پالیسی میں بھی بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں،ہندؤں کی مذہبی کتب میں لکھاہے کہ ہمسایہ کبھی اچھادوست ثابت نہیں ہوسکتاپس اس تعلیم کے سبب بھارت نے سب پڑوسیوں کو خوب دبانے کے لیے اسلحے کے ڈھیر کے ڈھیر جمع کر رکھے ہیں،پاکستان اور جمہوریہ چین سے تو وہ متعدد بار میدان بھی سجاچکاہے اور باقیوں کو بھارت نے اپنی قوت کے سامنے سرنگوں کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور زیادہ سے زیادہ قوت کا حصول اسی مقصد کے لیے ہے کہ ہمسایہ ممالک کو زیر دباؤ رکھاجاسکے۔ایٹمی دھماکے،جوہری طاقت کا استعمال اور میزائیل ٹیکنالوجی سمیت بری،بحری اور فضائی نئے سے نئے ہتھیاروں کی درآمد اور پھر انکی داخلی صنعت بھارت کے وہ مہنگے شوق ہیں جنہوں نے پورے جنوبی ایشیاپر تنگدستی،پسماندگی اور بیماری کے گھمبیرسائے مسلط کر رکھے ہیں۔بھارتی قیادت پر ”سیکولرازم“کی سوچ اور برہمن راج وہندوبنئے کی بالادستی نے اس عظیم خطے کو جو کبھی دنیامیں سب سے آگے تھاآج دنیامیں اس کا شمار سب سے پیچھے رہ جانی والی قوموں میں کردیاہے۔دو بڑی بڑی جنگوں کے باوجود دوسری دنیائیں آج خوشحال ہیں،ان کی راتیں ان کے دنوں سے زیادہ روشن ہیں، انکے عوام باہم شیروشکر ہیں،صنعت و حرفت نے ان کے معیارزندگی کو آسمان کا عروج اور شبنم کی تازگی عطا کی ہے اوررنگ و نسل وزبان اور مذہب کا اختلاف ان کے ہاں کوئی معانی ہی نہیں رکھتا جبکہ ہندولالے نے آزادی کے ایک خط مقدس اور دوقومی نظریے کی تاریخی حقیقت کو آج تک دل سے قبول نہیں کیااور یہاں کے عوام کوآج تاریخ کے یہ بدترین دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔


توسیع پسندانہ عزائم کے زیر اثر بھارت نے اپنا میزائل پروگرام آزادی کے کچھ ہی عرصے بعد 1958میں شروع کر دیا تھا۔ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن(DRDO)نامی ادارے نے ملک کے اندر دفاعی سائنس و تیکنالوجی کی ترقی کے طور پر اس میزائیل پروگرام کا آغاز کیا۔بعد میں اس ادارے کو ڈیفنس ریسرچ اینڈڈویلپمنٹ لیبارٹریز(DRDL)کانام دے دیا گیا۔ابتداََصرف تحقیق و جستجوپر ہی انحصارکیاگیاکیونکہ یہ بات اس ادارے کے ذمہ داران کے ذہن میں بخوبی موجود تھی میزائلوں کی تیاری کا مرحلہ ابھی کافی دور اور دقت طلب ہوگا۔1970میں بھارتی حکومت نے فرانس سے لائسنس حاصل کر کے تو اینٹی ٹینک میزائل بنانے کاآغاز کیا۔اس کے فوراََ بعد اس ادارے نے دو بڑے بڑے پروگرام بھی شروع کر دیے،پہلا”پراجیکٹ والینٹ“جو دورمار بلاسٹک میزائل کی تیاری کا تھا اور دوسرا ”پراجیکٹ ڈیول“جو SA-2ہواسے ہوامیں مار کرنے والے میزائل کی تیاری کا تھا،لیکن یہ دونوں پروگرامز اپنی کامیابی سے پہلے ہی بوجوہ ختم کر دیے گئے۔ایک طویل جدوجہداور مسلسل سفر کے بعد 19 83میں وہ فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا جب بھارتی حکومت نے ”انٹی گریٹڈمیزائل ڈویلپمنٹ پروگرام(IGMDP)“جاری کیااور اس پروگرام کے

تحت میزائلوں کی تیاری کے لیے باقائدہ سے رقومات فراہم کر دی گئیں اور ڈاکٹر عبدالکلام کو اس کا نگران بنایا گیا جس نے اڑیسہ کے اندر ان میزائلوں کی تجرباتی جانچ شروع کی۔چنانچہ اب تک جو کام زیر زمین ہو رہاتھایا تجربہ گاہوں اور تحقیق و جستجو کی کتابوں،مقالوں اور خطبات تک محدود تھا اب لنگوٹی کس کر میدان میں آن اترا۔1998میں بھاری حکومت نے روسی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت کروزمیزائلز کی تیاری میں روس نے بھارت کی مدد کرنا تھی۔اس پروگرام کے تحت سب سے پہلے دو قسم کے بلاسٹک میزائل تیار کیے جانے لگے ایک کانام ”پرتھوی“اور دوسرے کا نام ”اگنی“میزائل رکھاگیا۔
”پرتھوی“اور ”اگنی“یہ دونوں ہندؤں کی مذہبی اصطلاحات ہیں۔سوال یہ ہے کہ دفاع کے معاملے میں ”سیکولرازم“کہاں گیا؟؟یہ ”سیکولرازم“مشرق میں ہو یامغرب میں سوائے منافقت کے کچھ نہیں،بھارت کواگر ان میزئلوں سے دفاع ہی مقصود تھاتو مذہب سے ہٹ کر بھی تو کوئی نام رکھاجا سکتاتھایا پھربھارت میں رائج دیگرمذاہب کی اصطلاحات بھی تو اختیار کی جا سکتی تھیں لیکن ایک خاص ہندوانہ اصطلاح ”پرتھوی“ہی استعمال کیوں کی گئی؟؟”پرتھوی دیوی“ہندؤں کی مذہبی دیوی ہے جسے اس زمین کی ماں سمجھاجاتاہے اس کا دوسرا نام ”دھرتی“بھی ہے اور اسی کی نسبت سے وطن کو ”دھرتی ماتا“کہاجاتاہے،یہ ہندؤں کے مشہور خدائے تعمیر ”وشنو“کی دوسری بیوی ہے جبکہ اس کی پہلی بیوی ”لکشمی دیوی“ہے،بعض ہندوروایات کے مطابق لکشمی دیوی کا دوسرا روپ پرتھوی دیوی بھی ہے۔ ”پرتھوی راج چوہان”ہندؤں کا ایک بادشاہ بھی گزرا ہے جس کا تاریخی دورانیہ 1166-1192عیسوی کے درمیان ہے،یہ راجپوت کھشتری خاندان سے تعلق رکھتاتھا20سال کی عمر میں تخت نشین ہوا اور اجمیر اور دہلی دونوں شہروں کو بطور دارالحکومت کے استعمال کرتارہا اور اس بادشاہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے ایک عرصے تک مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکے رکھا اور پنجاب کے راجپوتوں نے اس کی بھرپور مدد کی لیکن 1192میں جب محمدغوری نے بھرپور حملہ کیا تو ”پرتھوی“میدان جنگ میں مارا گیا۔مسلمانوں کے خلاف اس بھرپور مزاحمت کے باعث بھی شاید اس میزائل کانام اس بادشاہ سے منسوب کیاگیا لیکن اس کاانجام پیش نظر نہیں رکھاگیا۔دوسرا میزائل”اگنی“کے نام پر رکھاگیا یہ آگ کا دیوتاہے جس کا ذکر ”رگ وید“نامی ہندؤں کی مقدس کتاب میں ملتاہے،یہ ہمیشہ جوان رہنے والا دیوتاہے اور دیگر دیوتاؤں کے برعکس اس کا بسیرا زمین پر ہے اور یہ زمین والوں کا دوسرے دیوتاؤں سے رابطے کاکام بھی کرتاہے۔یہ بھارتی حکومت کی ”سیکولرانسانیت“ہے کہ انہوں نے پڑوسیوں پر ”آگ“برسانے کے لیے اس آتشیں دیوتاکانام چنا ہے۔


پرتھوی میزائل تھوڑے فاصلے تک مار کرنے والا بلاسٹک میزائل ہے جبکہ اگنی میزائل درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا بلاسٹک میزائل ہے جومیڈیم رینج ٹیکنالوجی ڈیمانسٹریٹر(TD)سے تیارکردہ ہے۔”بلاسٹک“کی اصطلاح ان مشینوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو ہوا میں سفرکرتی ہیں،اسی سے لفظ ”بلٹ“ بھی نکالاگیاہے جو بندوق کی گولی کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ گولی ہوا سے گزر کر شکار کو لگتی ہے۔”بلاسٹک“میزائل نیم مداروی شکل یا دائروی حصاربناکر اڑتے ہوئے اپنے شکار تک پہنچتے ہیں اور اسی لیے انہیں یہ نام دیا گیاہے۔”گائڈڈ“کی اصطلاح اس لیے استعمال کی جاتی ہے کہ اس کے اندر ایک خاص راکٹ انجن ان کی اڑان کا ذمہ دار ہوتاہے جو انہیں نشانے تک لے جانے کی تیکنالوجی کا حامل ہوتاہے۔سب سے پہلا بلاسٹک میزائل نازی جرمنوں نے بنایاتھااور سب سے پہلے6ستمبر1944کو پیرس پر داغا گیاتھا۔
امن پسندبھارت نے اسی پروگرام کے تحت ٹیکٹیکل گائڈڈمیزائل بھی تیار کرنے کا پروگرام بنایا،یہ ٹیکٹیکل گائڈڈمیزائل آوازسے دوگنی رفتار کے حامل ہوتے ہیں،راکٹ انجن سے چلتے ہیں، میدان جنگ میں محدود فاصلے تک مار کر سکتے ہیں اور ان میزائلوں میں پہلے ٹھوس ایندھن اور استعمال کیاجاتاتھا لیکن اب مائع ایندھن بھی استعمال کیا سکتاہے۔میزائل کی یہ قسم لانچر پر چڑھانے اور فائر کرنے میں آسان ہوتی ہے۔بھارت نے اس جنریشن کے تین قسم کے میزائل تیار کیے ہیں،آکاش میزائل،ترشول میزائل اور ناگ میزائل۔آکاش سنسکرت میں تمام مرئی اور غیرمرئی قوتوں کے سرچشمے کو کہتے ہیں۔ترشول سے مراد تین منہ والا ہتھیار جونیزے کی طرح ہوتاہے،نیزے کا ایک پھل ہوتا ہے جبکہ ترشولا کے تین پھل ہوتے ہیں اور ہندومت کی کہانیوں میں اور تصویروں میں ”شیوا“نامی تخریب کے خدا نے اس ہتھیار کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے دکھایا گیاہے۔ناگ ہندومت میں غصے اور ناراضگی کی علامت سمجھاجاتا ہے جس کا تعلق مشرقی بنگال کی پانچ ہزار سالہ قدیم ایک کہاوت میں ہے جس کے مطابق سری رام کرشنا نے کوبرانامی کالے ناگ کے ساتھ ٹکر لی تھی۔ہندؤں کے ہاں ”شیش ناگ“نامی ایک خدا کی پوجا بھی کی جاتی ہے جو دوزخ کے ایک حصے”پاتال“کا مالک گرداناجاتاہے اورظاہر ہے کہ سانپوں کے خاندان سے تعلق رکھتاہے۔ہندومت کی بعض کہاوتوں کے مطابق شیش ناگ نے دنیاکو اپنے سر پر بھی اٹھا رکھاہے۔ایک بار پھر یہ امر قابل توجہ ہے کہ”سیکولرازم“کے نام پر ہندومت کی بڑھوتری صرف خاص کراڑوی فکرکے ہی پرتو ہیں جبکہ بھارت میں متعدد بڑے چھوٹے بہت سے دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی آباد ہیں۔سیکولرنظریے کے مطابق اگر سب مذاہب کے لوگ بھارت کے باسی ہیں تب کوئی نام توکسی دیگرمذہب کے شعائرسے لیاجاتا۔پس ثابت ہوا کہ سیکولرازم کی حقیقت ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں اور بھارت صرف برہمن برتری کادیش ہے جس میں باقی سب ملیجھ اور ناپاک تصورکیے جاتے ہیں،خواہ وہ ہندؤں کے ہی دیگر طبقات سے ہوں۔
”پرتھوی“نام کے متعددمیزایل تیار کیے جا چکے ہیں:


1۔پرتھوی ونSS150میزائل،مائع ایندھن سے چلنے والا میزائل ہے جو 150کلومیٹر دور تک 1000کلوگرام تباہ کن مواد لے کر جا سکتاہے۔مئی2007میں اس کا پہلا تجربہ کیاگیاتھا اور اب بھارت ڈائنامک لمیٹڈ(BDL)میں اس میزائل کی تیاری کاکام جاری ہے جو اب بھارتی ”سیکولر امن پسند“فوج کے بری دستوں کے حوالے کیاگیاہے۔


2۔پرتھوی ٹوSS250میزائل،یہ بھارتی فضائی کے سپرد کیاجانے والا میزائل ہے جو250کلومیٹر تک مار کر سکتاہے اور500کلوگرام تباہ کن مواد بھی اٹھا سکتاہے۔اس کا پہلا تجربہ1993میں کیاگیا لیکن مئی2008میں اسے فوج کے حوالے کر دیاگیا۔


3۔پرتھوی تھریSS350میزائل اس جنریشن کی تیسری قسم کامیزائل ہے،اس کا دوسرا نام”دھنشا“بھی ہے جوہندوؤں کے ایک مقدس مقام سے منسوب ہے،یہ میزائل بحری جہازوں کے لیے تیار کیاگیاہے اور پانی کے اندر بھی مار کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔نومبر2004میں اس میزائل کو بھی بھارتی بحریہ کے سپرد کر دیاگیا۔


K15سگریلا،بھارت کا ایک اور میزائل ہے جوپرتھوی تھری کی نسل(جنریشن) سے تعلق رکھتاہے اور یہ بھی بحری استعمال میں لایا جاتاہے۔26فروری2008کواس میزائل کاکامیاب تجربہ کیاگیاجب کہ اس سے پہلے چار مرتبہ اس کاتجربہ ناکام ثابت ہواتھا۔یہ ساڑھے چھ میٹر لمبااور سات ٹن وزنی میزائل ہے،اس میں ٹھوس ایندھن استعمال ہوتاہے،اس میں پانچ سوکلوگرام تک جوہری اور روایتی تباہ کن مواد لے جانے کی صلاحیت ہے اور یہ بحری جہازوں سے اور زمین سے بھی داغاجاسکتاہے اور اس کے لانچر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانابھی کوئی مشکل نہیں۔ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن(DRDO)کے مطابق اب وہ اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں کہ ان تمام بھارتی ”ہندو“میزائلوں کوایٹمی اسلحہ لے جانے کے قابل کیونکر بنایا جا سکتاہے۔سوال یہ ہے کہ آخر بھارت ان میزائلوں کوکس کے خلاف استعمال کرنا چاہتاہے؟؟اور کیاان میزائلوں کو مذہبی ناموں سے منسوب کرنا مذہبی دہشت گردی نہیں ہے؟؟اگر یہی کام مسلمانوں کے ہاتھوں سے واقع ہو تو پوری دنیا میں شور مچ جاتاہے کہ اسلامی بم تیار ہو رہے ہیں اور ایٹمی اسلحہ کہیں مذہبی انتہاپسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائے، جب کہ یہاں پوری کی پوری ریاست مذہبی جنون میں مبتلا ہو کر تباہ کن اسلحہ بنارہی ہے جو کہ ان کے ناموں سے ہی حکومتی ارادوں کی تشہیر وتوضیع کر دیتاہے۔بھارت کی اس ہندوانہ جنگی تیاریوں کے باعث بھارت کی اندرونی غیر ہندوملل اور بھارت کے پڑوسی پوراپورا حق رکھتے ہیں وہ اپنے دفاع کے لیے بھارت سے بڑھ کر اپنی دفاعی تیاریاں مکمل رکھیں کیونکہ ہندوؤں کے ماضی کی تاریخ،حال کے ارادے اور مستقبل کے تیورانتہائی ناقابل اعتماد ہیں۔


بھارتی میزائل پروگرام کا دوسرابڑا منصوبہ ”اگنی“میزائل ہیں جو کہ خالصتاََ ایٹمی اسلحہ لے جانے کے لیے تیار کئے گئے بلاسٹک میزائل ہیں:


1۔اگنی ون میزائلوں کے تجربات جنوری 2002سے جون2004کے درمیان متعدد مواقع پر کئے گئے،یہ سات سو سے آٹھ سو کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتاہے اور 1000کلوگرام ایٹمی تباہ کن مواد ساتھ لے جا سکتاہے،اگنی ون ریل اور سڑک دونوں طرح سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتاہے۔


2۔اگنی ٹومیزائل پہلے سے بہتراور ٹھوس ایندھن سے چلنے والے راکٹ کا میزائل ہے،دوہزارسے ڈھائی ہزارکلومیٹر دور تک مار کر سکتاہے اور ایک ہزار ایٹمی تباہ کن مواد لے کر اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتاہے،اس ثانی الذکر میزائل کے تجربات کا دورانیہ اپریل 1999سے اگست2004ہے۔اگنی ون اور اگنی ٹو دونوں قسم کے میزائل ایک عرصے سے بھارتی ”امن پسند“ہندوفوج کے حوالے کیے جاچکے ہیں۔


3۔اگنی تھری میزائل اپریل2007اور مئی2008میں تجربہ کیے گئے اور بالآخر2009میں بھارتی فوج کے سپرد کیے گئے۔اگنی تھری تین سے چارہزارکلومیٹر تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتاہے اوراسی لحاظ سے اس کے اندر جنگی مواد لے جانے صلاحیت بھی موجود ہے۔


4۔اگنی فور،یہ ہلکے وزن کا میزائل ہے جو 3500سے4000کلومیٹرتک مارکرسکتاہے۔اس میں وقت کی جدید ترین تکنالوجی استعمال کی گئی ہے چنانچہ اس میں راکٹ انجن دو مرحلوں میں اپناکام مکمل کرتاہے اوراپنے بوجھ کو منزل مقصودتک پہنچاپاتاہے۔میزائل کو درست سمت میں رکھنے کے لیے اس میں Micro Inertial Navigation System (MINGS) بھی استعمال کیاگیاہے اور یہ الف تا ے مکمل طورپرکمپیوٹرسے چلایاجانے والا میزائل سسٹم ہے۔15نومبر2011سے اس میزائل کی تجرباتی شروع ہوئی اور چھ مرحلوں میں مکمل ہوکر23دسمبر2018کو یہ تیارہوچکا۔


5۔اگنی فائیو،18جنوری2018کو اس میزائل کاتجربہ خلیج بنگال میں بھارتی مشرقی ساحل سے فضامیں چھوڑ کرکیاگیا،بھاری وزارت دفاع کے دعوے کے مطابق یہ میزائل پانچ ہزارکلومیٹرتک اپنے ہدف کو نشانہ بناسکتاہے۔اس کا اراکٹ انجن تین مرحلوں میں اپنے بوجھ کومنزل مقصودتک پہنچاپاتاہے۔اس کاوزن پچاس ہزارکلوگرام ہے،لمبائی 17.5میٹر،قطر دومیٹرکے لگ بھگ اور رفتار 24مارک تک ہے۔گزشتہ اھنی میزائلوں کی نسبت اس میزائل میں ایک سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔


6۔اگنی سکس پر کام جاری ہے اور اس کے ہدف کا فاصلہ آٹھ سے دس ہزارکلومیٹرتک ہوگا۔
اگنی فوراوراگنی فاؤ میزائلز کے بعد جمہوریہ چین کادارالحکومت بھی بھارتی میزائلوں کی زد میں آگیاہے۔ان موخرالذکرمیزائلزکی تیاری سے بھارت ICBMصلاحیت کا حامل ہو چکاہے، جس سے مرادبین البراعظمی بلاسٹک میزائل کی صلاحیت ہے یعنی ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک میزائل داغنے کی صلاحیت۔گویا اب بھارت کی ہندوانہ یلغار سے دوسرے براعظم بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔


بھارت کے پرامن اسیکولرازم اورانسان دوست ہندوؤانہ سوچ نے ”کروز میزائل“بھی بنانے میں تاخیر نہیں کی،یہ میزائل کی جدید ترین قسم ہے جسے ایک طرح سے ایسا چھوٹا ہوائی جہاز کہنا چاہیے جو بغیر پائلٹ کے اڑایاجاتاہے،اصطلاح میں اس تیکنالوجی کو ”ان نیمڈ ایریل ویکل(UAV)“کہتے ہیں یا پھر”ان نیمڈ ائرکرافٹ سسٹم(UAS)بھی کہتے ہیں۔کروزمیزائل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ نیچی پرواز بھی کر سکتے ہیں جس کے باعث یہ ریڈار کی پہنچ سے بچ جاتے ہیں،ان میزائلز کی رفتار بہت زیادہ تیز ہوتی ہے اسی لیے انہیں سپر سانک یا سب سانک بھی کہتے ہیں ان کے پر بھی لگائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تباہ کن مواد ان میں بھراجا سکے جس کاوزن سینکڑوں کلوگرام تک بھی ہوسکتاہے۔1916میں اس طرح کے طیاروں پر تجربات شروع ہوئے تھے اور”انسان دوست“ امریکہ بہادر نے 1920میں سب سے پہلے کروزمیزائل سے ملتاجلتاایک کامیاب تجربہ کیاتھااور یہی وہ واحدملک ہے جس نے ایٹم بم بھی انسانوں کی بستیوں پر چلایاہے،1957اور1961کے درمیان امریکہ نے سب سے پہلے ایٹمی اسلحہ لے جانے والے کروز میزائل تیار کر لیے تھے اور آج یہی امریکہ ”انسانیت“کا سب سے بڑا امام بناہے اورسرزمین ایشیا میں بھارت اسکے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے والوں میں سرفہرست ہے اقبال ؒنے کیا خوب کہا کہ”پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات“۔


بھارتی کروزمیزائل کا نام ”بھرم پترا موسکاوا“ہے جسے مختصراََ”بھراموس“بھی کہتے ہیں۔بھرم پترا ہندوؤں کا مشہور دریاہے جسے جمنا کہتے ہیں اور اسے ہندودھرم میں بے پناہ مذہبی تقدس حاصل ہے،جنوب مغربی تبت کی پہاڑیوں سے نکلنے والا یہ دریاہمالیہ کی وادیوں سے گزر کر اور ہندوؤانہ تحریم سے بھرپورہوکر بنگال سے ہندوستان کے شہروں میں داخل ہوتا ہے۔”موسکاوا“دریائے ماسکوکا نام ہے جو روس کے دارالحکومت ماسکو میں بہتاہے،روس میں اس دریاکی مناسبت سے یہی ایک شہر کانام بھی ہے۔میزائل کایہ نام دراصل بھارت اور روس دوستی سے مستعار نہیں ہے کیونکہ بھارت میں تو دیگر مذاہب بھی بستے ہیں جن کے نزدیک جمناکی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے یہ نام دراصل ہندوبنئے اور روس کی دوستی ہے۔یہ کروز میزائل300کلومیٹر تک تین سو کلوگرام تباہ کن مواد لے جاسکتاہے اور مکمل طور پر روسی تیکنالوجی کا شاہکار ہے۔اب اس میزائل کو بحری اورہوائی جہازوں میں نصب کرنے کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔لڑاکا ہوائی جہاز میں نصب کیے گئے ”بھراموس“کروز میزائل کو وزن اور طوالت کے اعتبار سے مختصر رکھاگیاہے اور یہ روسیSU30mk1فائٹر طیارے میں نصب کیا جا سکے گا۔اس طیارے کا یورپی نام فلینکر سی ہے اور یہ دوانجنوں کا لڑاطیارہ ہے اور اس میں دو پائلٹ بیٹھ سکتے ہیں اس طیارے میں ہوا سے ہوااور ہوا سے زمین پر میزائل داغنے کی صلاحیت موجود ہے۔”بھراموس ٹو“میزائل پہلے سے بھی زیادہ رفتار کا حامل ہوگا جس کی رفتار ماک5سے بھی زیادہ ہو گی جبکہ ایک اندازے کے مطابق 5.26ماک تک اس کی رفتار ہو گی۔”ماک“فضا میں اڑنے والے اجسام کی رفتار کو کہتے ہیں جس کا موازنہ آواز کی رفتار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ایک اور ایٹمی کروز میزائل ”نربھے“اس لفظ کا مطلب بے خوف ہونا ہے،ہے جو 1000کلومیٹرتک ایک ہزار کلوگرام تباہ کن مواد لے جا سکتاہے،یہ چھ میٹر لمبااور520ملی میٹر چوڑاگولائی میں ہوگااور زمینی ریڈار کی پہنچ سے بچنے کی صلاحیت بھی اس میں موجود ہے۔یہ بھارتی ہندوانہ سیکولرازم کی سوچ ہے کہ ایسے ایسے تباہ کن ہتھیار بنائے جائیں جو انسانی بستیوں کو چشم زدن میں خاک کا ڈھیر بناکر رکھ دیں۔


”ناگ“میزائل،یہ بھارت کا اینٹی ٹینک میزائل ہے جوچار سے سات کلومیٹر تک موثرحملہ کر سکتاہے،انفراریڈ شعاعوں سے چلنے والا یہ میزائل دن اوررات دونوں اوقات میں موثر رہتاہے،اس میزائل کا وزن 42کلوگرام ہے اور یہ مکمل طور پر فائبرگلاس کے مواد سے بنایا گیاہے۔یہ میزائل زمین سے زمین پر مار کیاجاسکتاہے اور لڑاکا طیاروں میں بھی استعمال کرنے کے قابل ہے جس کی وجہ سے اس کی تیکنالوجی میں معمولی تبدیلی بھی کی گئی ہے جبکہ اس میزائل کی ایک قسم ہیلی کوپٹر سے بھی داغی جا سکتی ہے۔


اس تشنہ مضمون کی تیاری میں طوالت سے بچنے کے لیے ان میزائلزپراٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ پیش نہیں کیا،حقیقت یہ ہے ان منصوبوں کے لیے فراہم کی جانے والی رقوم کو گننا مروجہ گنتی کے بس کی بات نہیں اور سائنسی اصطلاحات میں دس کے اوپر ایک اور ہندسہ لکھ کر تو اندازہ کر نا پڑتاہے کہ کتنے اخراجات کیے گئے۔ایک ایک میزائل کی تیاری پر اٹھنے والے اخراجات سے ایک آدھ شہر کو ہی نہیں انسانوں کی کئی نسلوں کو خوراک،تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں،ممکن ہے تیاری پر پھر بھی کم اخراجات اٹھتے ہوں لیکن ان میزائلوں کی حفاظت کے لیے اور ان کی نگرانی کے لیے مزید کئی
گنا اخراجات اٹھ جاتے ہیں اور دوسری طرف انسانیت سسک سسک کر اور ایڑھیاں رگڑ رگڑکر مررہی ہوتی ہے،کہیں خوراک میسر نہیں اور انسان اور جانور ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں تو کہیں علاج کی فراہمی ممکن نہیں اور معمولی معمولی بیماریاں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہیں اور کہیں نسلوں اور قرنوں سے اس قدر جہالت ہے کہ اکیسویں صدی کی دہلیزپر چکاچوند روشنیوں میں مظاہر فطرت کو پوجا جارہاہے اور مٹی اورگارے سے بنی مورتیوں کو اپنے نفع نقصان کا مالک سمجھا جاتاہے۔یہ سب سیکولزازم کے مکروہ نتائج ہیں،انسانوں کواپنی فلاح کے لیے بلآخر انبیاء کی تعلیمات کی طرف پلٹنا ہوگاکہ اس کے علاوہ کسی اور چشمے سے انسانیت کی سیرابی ناممکن الحصول ہے۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں: