Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ھمارے ڈاکٹر ‘مسیحا یا قاتل ؟؟…..گل عدن چترال

شیئر کریں:

ایڈیٹریا ادارے کامراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں!

ڈاکٹری کے مطلب مسیحائی کے ہیں ۔جب ہمیں کوئی جسمانی تکلیف ھو تو اللہ کے بعد اگر کوئی ھماری تکلیف کو سمجھ سکتا ہے اور دور کر سکتا ہے تو وہ یہی ڈاکٹرز ہیں ۔یہی وجہ ھے کے اس پیشہ کو ہر دور میں عزت و اکرام حاصل ہے ۔اور ڈاکٹروں کےبارے میں ہماری عام رائے ہےکہ یے انتہائی ہمدرد انسان دوست اور فرشتہ صفت مخلوق ہیں ۔مگر بد قسمتی سے یہ رائے اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک ہمارا پالا کسی ڈاکٹر سے نہیں پڑتا ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی دقت نہیں  کے اس دوڑ کے ڈاکٹرز ( چند ایک کو چھوڑ کر) اس پیشہ کی عظمت پر دھبہ ہیں ۔اس تحریر کےزریعے میں سب سے پہلے اس عظیم ڈاکٹر قوم کی ایک گھٹیا غلط فہمی دور کرنا چاہتی ہوں ۔ہم سب کے گھروں کا یہ اک عام رویہ ہےکہ جب کوئی بیمار ہو تو وہ سب سے پہلے ایک رشتے دار ڈاکٹر کے پاس جانے کو ترجیح دیتا ہے ۔دوسری طرف ایک ڈاکٹر جب اپنے رشتہ دار کو مریض کی صورت میں اپنے سامنے پاتا ہے ایک بار۔دو بار یا مسلسل تیسری چوتھی مرتبہ  تو ان عظیم ڈاکٹر صاحبان کے پیشانی پر بل پر جاتے ہیں ۔اور دل میں انکو کوس رہے ھو  تے  ہیں  کہ لو  پھر آ  گیا مفت کے چکر میں ۔۔کب جان چھوڑیں گے وغیرہ وغیرہ ۔

میں آپکو یہ بتانا از حد ضروری سمجھتی ہوں کہ ممکن ھے کہ رشتے دار ڈاکٹر کے پاس جانے والے دو فیصد مریضوں کا مقصد پیسہ بچانا ہو لیکن 98%  مریض آپکو اپنا جانکر آپ کے پاس آتے ہیں ۔اس سوچ کے ساتھ لوگ اپنی رشتے دار ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں کہ ھماری بیماری کی تشخیص علاج غرض ھر کام بروقت اور توجہ سے ھو گی ۔ اور پریشانی کے وقت ایک جان پہچان والی مسیحا کے پاس جانا ان کے دل کے اطمینان کا سبب ھوتا ہے۔افسوس ان ڈاکٹروں پر جو رشتہ داری کی بنیاد پر اک اچھا مفت  مشورہ تک نھیں دے سکتے وہ علاج کیا کریں گے۔میری عوام سے یہ درخواست ہے کہ اگر آپکو آپ کی صحت اور جان پیاری ہے تو خدارا کبھی بھی رشتہ دار ڈاکٹر کے پاس مت جائیں ۔یہ آجکل کے ڈاکٹرز صرف اور صرف نام اور پیسہ بنانے والے زبردست مشین بن چکے ہیں ۔ان مشین نما انسانوں کو دیکھ کر گھن آتی ہے اور افسوس ھو تا ہے ک الله نے ان کو کتنا بڑا مقام عطاء کیا مسیحائی کا اور یہ ناشکر بےضمیر لوگ  تکبّر میں آکر فرعون بن چکے ہیں ۔کہا جاتا ہےکہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا ظالم کا ساتھ دینے کے برابر ھے۔اس لیے پورے پاکستان کو چھوڑ کر اپنی آنکھوں دیکھا حال ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کے خلاف آواز ضرور اٹھاؤں گی۔اس ہسپتال میں کچھ نرسز سمیت وارڈ بوائز سے لیکر چپراسی تک عزت احترام اور سلیوٹ کے قابل ہیں ۔لیکن سینئر ڈاکٹرز اور انکا ماتحت عملہ کس اخلاقی پستی کا شکار ہیں یہ سب جانتے ہیں ۔ 

سب سے زیادہ توہین آمیز سلوک زچہ بچہ وارڈ کے مریضوں کےساتھ ہو رہا ہے ۔ کرسی پر بیٹھ کر تنخواہ لینے والی ان ڈاکٹرنیوں کا رویہ مریض کیساتھ ایسا ہے جیسے برسوں سے ڈی ایچ کیو چترال میں بغیر تنخواہ کے خوار ھو رہی ہوں ۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز اس ہسپتال سے سوائے تنخواہ اور مریضوں کی بددعاؤں کے علاوہ کچھ وصول نہيں کر پا رہے ۔اس ہسپتال کی کارکردگی عام حالات میں ہی انتہائی ناقص اور تباہ کن تھی ۔اب کرونا کی آمد کے بعد اس ہسپتال سمیت پورے چترال کا الله ہی حافظ ہے ۔ جنرل وارڈ میں نجانے کتنے کرونا کے مریض آذاد سانس لے رہے ہیں کچھ پتا نہیں ۔آئسولیشن کے نام پر اک وارڈ بنا دی گئی ہے جس میں کرونا کے مشتبہ اور ثابت شدہ دونوں طرح کےمریضوں کو ان کے اہل واعیال سمیت بغیر کسی حفاظتی انتظام کے رکھا جارہا ہے۔کوئی نہیں پوچھتا کے ایک  مریض کے ساتھ اسکے پورے خاندان کو جانتے بوجھتے کرونا کے جہنم میں دھکیلنا کہاں کا قانون ہے؟؟؟؟؟

ان اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کو کوئی بتائیے گا کہ آئسولیشن کے اردو معنی کیا ہیں ۔!!!ہسپتال انتظامیہ صرف اپنی حفاظت کا بہترین انتظام کرکے سلیوٹ وصول کرتا آرہا ہے؟؟عام حالات میں بھی کوئی ایک بیماری لیکر اس ہسپتال میں گیا ہے تو واپسی اسکی چار مزید بیماریوں کے ساتھ ہو ئی  ہے  ۔مرض کی غلط تشخیص ‘ غلط انجکشن ڈرپ لگوانے میں غلطی ادویات کا غلط استعمال اس ہسپتال کی روایت بن چکی ہے۔کیونکے کو ئی پوچھنے والا نہیں ہے  ہسپتال انتظامیہ نے تو بے ضمیری اور بے حسی کی بدولت لوگوں کی جان کیساتھ کھیلنے کی قسم کھا رکھی ہے مگر قانون نافذ کی نے والے بھی اپنی بد بختی کے سبب کہیں سورہے ہیں ۔ان سب حالات کے باوجود ہمارے درمیان ایک ایسی قوم بھی ہے جو ہر حال میں ڈاکٹر برادری کی چمچہ گیری کے لیے اس دنیا میں آئی ہے ۔ جوتی کو سر پے سجانے کے مصداق ان نام نہاد ڈاکٹروں کو ان کی اوقات سے زیادہ عزت دینے والی یہی چمچے ہیں ۔ مجھے اس چمچہ برادری سے زرہ بھی ہمدردی نہیں ہے ۔میری دعا ہے کہ اللہ جہنم کو بےضمیر ڈاکٹروں اور انکے چمچوں سے بھر دے آمین ۔ان سطور کے زریعے میں کسی ڈاکٹر یا کسی صاحب حثیت چمچے سے کوئی درخواست نہیں کرنے جارہی بس اتنا یاد دلانا چاہتی ہوں کے الله نے قرآن کریم میں اپنے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ‘
اور اللہ زبردست ہے ‘انتقام لینے والا ۔


شیئر کریں: