Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سلطنت عثمانیہ کے زوال کی ایک بڑی وجہہ ۔۔۔۔تحریر:میر سیما امان

شیئر کریں:

اگر آپ نے عثمانی سلطنت کی تاریخ پڑھی  ہے تو آپکو یاد ہوگا کہ اس عظیم سلطنت کے زوال کے بنیادی اسباب کیا تھے۔ لیکن ان تمام اسباب کے علاوہ اس دور سے قطعی نظر نہیں کیا جا سکتا یعنی  سترھویں صدی جو سلطنت کی زوال اور جمود کا دور رہا  اور یہی وہ دور تھا جسے سلطنت خواتین کا بھی نام دیا گیا کیونکہ سلطنت کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ حرم کی خواتین نے ملکی معاملات میں مداخلت شروع کی اور اس مداخلت کے اثرات کچھ خوشگوار ثابت نہ ہوسکے۔۔۔

اگر آپ نے عثمانیہ سلطنت کی تاریخ نہیں پڑھی تو چند سال پہلے  عثمانیہ سلطنت کے اسی دور پر  پر بننے والا ترکش ڈرامہ میرا سلطان تو ضرور دیکھا ہوگا۔۔۔۔ اس ڈرامہ میں شاہی خاندان کے جاہ جلال ۔عظمت اور خواتین کی خوبصورتی زیبائش اور ملبوسات سے توجہ ہٹاکر کہانی پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سلطنت کے زوال کے کئی اسباب میں ایک بڑی وجہہ محل سرائے کی وہ خواتین تھیں جنھیں انکی اوقات سے ذیادہ عزت دے دی گئی۔۔۔

اس ڈرامہ میں خواتین کی عیاری مکاری ،چالبازیوں کی بھی بھر پور عکاسی کی گئی لیکن چونکہ میرا موضوع خواتین کی بد عادات پر  بحث کرنا نہیں ہے بلکہ خواتین کی سربراہی پر بات کرنا ہے۔لہذا مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ تاریخ کے اوراق اور اس ڈرامے کے مرکزی خیال سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مرد جب خواتین کے زیر اطاعت آ جا ئیں تو محض خاندان یا مملکت نہیں بڑے سے بڑے سلطنتیں بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ جا یا کرتی ہیں۔۔۔

اسلام نے عورت کو عزت بخشی اعلی مقام دیا جو کسی دوسرے مذہب کی عورت کو حاصل نہیں لیکن اسلام عورت کی سربراہی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اسلام میں کسی بھی مسئلہ کے شرعی ثبوت کے مسلمہ اصول چار ہیں۔جنھیں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔۔یعنی قرآن کریم ۔سنت نبوی ۔اجماع امت اور اجتہاد و  قیاس ۔۔

ہم عورت کی سربراہی کے معاملے میں ترتیب کے ساتھ ان چاروں دلائل کو پیش کریں گے۔ قرآن کریم میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ الر جال قوامون علی النسا بما فضل اللہ بعضھم علی بعض ۔۔ ترجمعہ؛ مرد حکمران ہیں عورتوں پر ۔اسلیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔۔۔۔۔

یہ ایک آیت ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ جہاں کہیں بھی مردوں اور عورتوں کا مشترکہ معاملہ ہوگا وہاں حکمرانی مردوں کے حصے میں ہی آئیگی ۔اور یہی وہ فضیلت ہے جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر دی۔اسی طرح حدیث نبوی سے بھی یہ ثابت ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر  سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس بات کی خبر دی گئی کہ فارس کے لوگوں نے کسری کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لن یفلح قوم ولد امر ھم امراۃ یعنی وہ قوم ہرگز کامیاب نہ ہوگی جس نے اپنا حکمران عورت کو بنایا۔۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد نبوی ہے کہ ھلکت الر جال  حین اطاعت انساء  یعنی مرد جب عورتوں کی اطاعت قبول کریں گے تو ہلاکت میں پڑیں گے۔۔قران و سنت کے بعد دلائل شرعیہ میں اجماع کا درجہ ہے اور چودہ سو سالوں سے امت مسلمہ کا اس پر اجماع و اتفاق ہے کہ عورت شرعاً حکمران نہیں بن سکتی۔۔   یہ عمل اس قدر مسلسل ہے کہ تاریخ میں اسکی کوئی قابل توجہ خلاف ورزی نہیں ملتی۔۔اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی بھی ہو تو مسلمانوں نے اس پر گرفت کی ہے جیسا کہ نوی صدی ہجری کا ایک واقعہ  ہے کہ مصر میں بنی ایوب خاندان کی ایک خاتون شجرۃ الدر حکمران بن گئی۔اس وقت بغداد میں خلیفہ ابو جعفر کی حکومت  تھی۔  انھوں نے یہ واقعہ معلوم ہونے پر امراء کے نام تحریری پیغام بھیجا کہ ہمیں بتاؤ اگر تمھارے پاس مصر میں حکمرانی کے اہل مرد باقی نہیں رہے ہیں تو ہم یہاں سے بھیج دیتے ہیں کیا تم نے رسول پاک کا وہ فرمان نہیں سنا کہ وہ قوم کامیاب نہ ہوگی جس نے اپنا حکمران عورت کو بنا لیا۔۔۔

خلیفہ وقت کے اس پیغام پر وہ خاتون فوری منصب سے معزول ہوگئی اور اسکی جگہ سپہ سالار کو منصب دے دیا گیا۔دلائل شرعیہ میں چوتھا درجہ اجتہاد و قیاس کا ہے اس حوالے سے اگر صرف فقہ حنبلی کے مستند کتاب المغنی کے یہ الفاظ لیے جائیں تو کافی ہوگا جو اس پورے عنوان کا نچوڑ ثابت ہوتے ہیں۔۔جیسا کہ بیان ہے کہ عورت نہ ملک کی حاکم بن سکتی ہے نہ شہروں کی ۔اسلیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت کو مقرر نہیں کیا نہ انکے خلفاء نے کسی کو مقرر کیا۔اور نہ ہی انکے بعد والوں نے حکمرانی کےنصب پر کسی عورت کو فائز کیا اور اگر اسکا کوئی جواز ہوتا تو یہ سارا زمانہ اس سے خالی نہ ہوتا۔۔

اس تمام بحث کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اسلام نے  دوسرے مذاہب  کے برعکس عورت کو عزت دی حقوق دیے حتی کہ جنت اسکے قدموں میں ڈال دی لیکن سربراہی کی زمہ داری عورت کو نہیں سونپی۔۔۔سو جس چیز کو اللہ نے خود عورت کے لیے موزوں نہیں سمجھا وہ ہمارے لیے خیر کا باعث کیونکر ہوسکتا ہے؟؟

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہمارے  ہاں سربراہی کے معنی محض حکمرانی ۔سیاسی اور ملکی قیادت کے معنوں میں لیا جاتا ہے  جبکہ میرے اس تمام بحث کا مقصد آپکی توجہ بالخصوص آپکے گھر کی سلطنت کی طرف دلانا ہے ۔اپ ملکی یا سیاسی سربراہی کو چھوڑیں صرف اپنے گھر کی سلطنت کو دیکھیں کہ سربراہی کس کے ہاتھ میں ہے؟؟؟ کیا ہمارے خاندانوں میں مرد برائے نام نہیں رہ گئے ہیں؟؟ کیا ہمارے مردوں کا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا عورت کے اشاروں پر نہیں ہو رہا ہے؟؟؟مجھے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے خاندان  ہلاکتوں میں پڑ گئے ہیں کیونکہ آج ہر گھر کی سربراہ عورت ہے مردوں کا کردار محض کٹھ پتلی جیسا ہے ۔۔

ایسے حضرات کے لیے میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ گھر کی عورت کو عزت دے رہے اس کے احکامات پہ چل رہے ہیں مگر یہ کیسی عزت ہے جو خاندانی نظام کا جنازہ  نکالنے کا سبب بن جاتا ہے؟؟ کہیں آپکی خواتین سمجھ داری کے عار میں آپکی آنکھوں میں دھول تو نہیں جھونک رہی ہیں؟؟ کیا اپکو قرآن کریم کی وہ   آیت بھی یاد نہیں جسمیں واشگاف الفاظ میں آپکو تنبیہ کی گئی ہے کہ  تمھاری عورتوں اور اولاد میں بعض تمھاری دشمن ہیں۔۔سوچیے گا ضرور۔۔۔

اور خواتین جنکو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی  طاقت دی ہے یہ ماں کے عنوان پر اولاد کو مجبور رکھتی ہیں بیوی کے نام پر شوہر کو غلام بنا دیتی ہیں بہنوں کے روپ میں بھائیوں کی ہمدردی حاصل کر  لیتی ہیں اور بیٹی کے نام پر باپ کا اعتماد حاصل کرلیتی ہے ۔ یہ بہت بڑی طاقت ہے جسے مثبت راستے پر استعمال کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ ورنہ یاد رکھیے گا کہ شاہی تاریخ میں ایک حرم سلطان بھی تھی جس نے مکاری اور چالبازیوں سے ملکہ کا مقام تو حاصل کرلیا لیکن چونکہ خاندان آباد رکھنے کے جراثیم اسکے خون میں شامل نہ تھے لہذا کہیں صدیوں سے ایک عالم پر حکومت کرنے والے عظیم خاندان کا ذوال و آختتام  اسی کے نسل پر ہوا۔۔

یہ مثال عورتوں کی حد درجہ اطاعت کرنیوالے مردوں اور مردوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی عورتوں دونوں کے لیے عبرتناک سبق ہے۔۔۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اسلامی نظام زندگی کا حسن ہمارا خاندانی نظام تھا جو  آج صرف مردوں کی غفلت اور  ہم عورتوں کی  بد دیانتی کی ہی وجہ سے اختتام کی طرف گامزن ہے۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
37192