Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بحیثیت قوم ہماری اخلاقی حالت ……(ابن نیاز)

شیئر کریں:

اللہ تعالیٰ کے پاک نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ تم میں سے ہر اک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسی قول کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ کبھی کوئی چھوٹا سا کنکر اٹھا کر کہتے کہ کاش وہ ایک کنکر ہوتے کہ جس سے قیامت کے دن حساب کتاب تو نہیں ہو گا۔ ان کے پیش رو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کسی پرندے کو اڑتا دیکھتے تو آہیں بھرتے کہ کاش ایک پرندہ ہی ہوتے جو آزاد فضاؤں میں بنا کسی حساب کتاب کے ڈر کے اڑتا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں کسی محلے کے چیئرمین سے لے کر وزیر اعظم اور صدر تک کی صورتحال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک قول کے مطابق اختیار ملتے ہی ان کی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ اپنے لیے آسان سے آسان تر ذریعہ اختیار کرتے ہیں جو ان کی زندگی کو آسان ترین بنا سکے۔ اس وقت موجود ہر قسم کی سہولت کو اپنے لیے میسر کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ پلک جھپکتے میں ان کی ہر خواہش پوری ہو جائے۔ ان کی اولاد کے لیے، ان کے گھر کے لیے دنیا کی ہر آسائش موجود ہو۔
ان کے دل میں دور دور تک یہ خیال نہیں آتا کہ یہ سب کچھ کتنے لوگوں کے دلوں کا خون نچوڑ کر حاصل کیا گیا ہو گا۔ کتنی خواہشوں کو پاؤں تلے روندا گیا ہوگا۔ کتنی بچیوں کے ارمانوں کا جنازہ اٹھا ہوگا۔ لیکن یہ سب کچھ کیوں سوچا جائے؟ انھیں تو بس اپنی تجوریوں کو بھرنا ہے۔ پہلے اپنے لیے اور پھر اپنی اولاد کے لیے دنیا بھر کی آسائشوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ کہیں ان کی اولاد کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اگر ان کے گھر نیا مہمان بھی آئے تو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہو۔ بھلے ان کے ہمسائے میں بھوک کے مارے میں کوئی آخری سسکیاں لے رہا ہو۔
بات خواص سے نکل کر عوام تک پھیل چکی ہے۔ عوام نے سوچا کہ جب ہمارے نظام میں کرپشن اس حد تک رچ بس چکی ہے کہ رینٹل پاور پراجیکٹ میں راجہ پرویز اشرف کی ضمانت منظور ہو جاتی ہے۔ شرجیل میمن کے پاس سے ایک جج کی موجودگی میں شراب برآمد ہوتی ہے اور لیبارٹری اس کو شہد ثابت کر دیتی ہے۔ مسٹر ٹین پرسنٹ کون تھا، سرے محل کا مالک کون تھا لیکن پھر بھی کوئی کرپشن نہیں۔ تو وہ بھی کیوں نہ بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھو کر ثواب حاصل کریں۔ اب رمضان المبارک ہویا عید کے دن۔اس قوم پر کوئی آفت آئے،اپنی اپنی اوقات کے مطابق موقع سے فائدہ نہ اٹھانا شدید ترین گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں جب کوئی مذہبی تہوار ہوتا ہے تو ہر چیز سستی کر دی جاتی ہے۔ یہاں پھل جو ایک دن پہلے چالیس روپے میں فروخت ہوتا ہے، پہلی رمضان کو اس کی قیمت دو سو روپے فی کلو ہو جاتی ہے۔
جب اکتوبردو ہزار پانچ میں مانسہرہ، کشمیر میں شدید زلزلہ آیا تھا تو اس وقت جہاں کراچی سے کشمیر تک کے عوام نے تعاون و مدد کی انتہا کر دی تھی۔ وہیں پر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جنھوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ جو سامان ٹرک بھر بھر کر بالاکوٹ اور دوسرے آفت زدہ علاقوں کے لیے بھیجا جاتا، وہی سامان دو تین دن کے بعد مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب ہوتا تھا۔جو خواتین ملبے کے نیچے دب کر فوت ہوئیں، اگر ان کے بازو باہر تھے اور ان پر سونے کی چوڑیاں تھیں، انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں تو بدبختوں نے وہ بھی نہ چھوڑے۔ جن ہاتھوں سے وہ نکل نہ سکے، ان بازوؤں کو کاٹ کر زیور نکالا گیا۔ مکانات کی تلاشی لے کر قیمتی سامان چوری کیا گیا۔


آج اس وقت قدرت کی طرف سے ایک وبا کورونا وائرس کی شکل میں امتحان یا پھر عذاب کے طور پر انسانوں پر مسلط کی گئی ہے۔ ساری دنیا میں عوام کو سہولیات دی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں ہر سہولت کو چھینا جا رہا ہے۔جب پاکستان میں کورونا کا آغاز ہوا تو ماسک جو دس بیس روپے کا ملتا تھا ایک دم سے مارکیٹ سے غائب کر دیا گیا۔ پھر ایک سو سے پانچ سو روپے تک فروخت ہونا شروع ہوا۔ ہر اس دکاندار سے لے کر بڑے بزنس مین تک نے فائدہ اٹھایا، جس کا کسی بھی طور اس سے واسطہ تھا۔ اس کے بعد جیسے جیسے کسی دوا کا سنتے گئے کہ کورونا کو ختم کرنے کے لیے کام آتی ہے، وہی دوائی یا تو مارکیٹ سے غائب ہو گئی یا اس کے دام ایک دم سے ہزاروں گنا زیادہ کر دیے گئے۔ اس کی عام مثال سنا مکی ہے۔ جو کبھی دو تین سو روپے کلو ملتی تھی۔ اس کے بارے میں ایک ویڈیو کیا وائرل ہوئی، اس کی قیمت سولہ ہزار روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ ڈیکسومیتھازون ایک سٹیرائیڈ میڈیسن ہے۔ اس کے بارے میں علم ہوا کہ کورونا وائرس کے مریض میں قوت مدافعت کو بڑھوتری دے کر مریض کو جلد صحت یاب کرتی ہے۔ دس روپے کی پانچ گولیاں ملتی تھیں۔ ایک دم سے پہلے قیمت بڑھی۔چار سو کی دس گولیاں ہوئیں اور اب مارکیٹ سے غائب کر دی گئی ہے۔ اور اب بنگلہ دیش سے برآمد کرنے کا پروگرام ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب نے یہ اعلان فرمایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ خود سب سے بڑے ادوایات کو مہنگا کرنے میں ہاتھ رکھتے ہیں۔ تو ان کا اعلان یقیناً درست ہو گا۔ کورونا کے مریض کو اگر شدید کیفیت میں ہے تو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دم سے آکسیجن اور اسکے سلینڈر کی قیمت سولہ سو روپے سے بڑھ کر بیس سے پچیس ہزار روپے ہو گئی۔


کسی سے اگر پوچھا جائے کہ مہنگی کیوں بیچ رہے ہو تو جواب ملتا ہے کہ انھیں ہی مہنگا ملا تو کیا کریں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ وہی مال ہوتا ہے جو انھوں نے ہفتہ دس دن پہلے خریدا ہوتا ہے۔ جب انھیں اصرار کیا جائے تو کہتے ہیں کیا کریں، مارکیٹ ریٹ یہی ہے۔ اگر اس سے کم میں بیچتے ہیں تو مارکیٹ والے ان کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ یا پھر اجی، اس سے بہتر موقع کب ہاتھ آئے گا۔ حالت ہماری یہ ہے کہ پٹرول جب مہنگا ہوتا ہے تو سب کچھ اس حساب سے مہنگا ہوجاتا ہے۔ لیکن جب سستا ہوتا ہے تو کچھ بھی سستا نہیں ہوتا۔ پھر ان کا رنڈی رونا ہوتا ہے کہ اگر ہم سستا بیچیں تو باقی مہنگائی کو کیسے برابرکریں گے۔ بچوں کے سکول کی فیس، گیس، بجلی، پانی کا بل۔ اس کا کیا کریں گے؟ وہ تو ہر ماہ ہی ایک سے بڑھ کر ایک آتا ہے۔ ہ
ہم بحیثیت قوم کس طرف جا رہے ہیں؟ نہ ہمیں اللہ کا خوف ہے نہ ہی اس کے عذاب سے کوئی ڈر۔ قرآن کو طاقوں میں رکھ کر اس کو بہترین ریشمی غلافوں میں سجا دیا گیا ہے تو اس کی تعلیمات پر عمل کیسے ہو گا۔ یہ ہمارا ہی قصور ہے جو ایسے نااہل حکمران ہم نے منتخب کئے ہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے ایماندار ہمارے حلقوں میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن برادردی، پارٹی سسٹم ہمیں لے ڈوباہے۔ سوچیے گا ضرور۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
37042