Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دُعا نجات کا ذریعہ…..تحریر: سردار علی سردارؔ

شیئر کریں:

اللہ تعالیٰ نے حضرت ِ انسان کو اس کائنات میں خلق کرنے کے بعد اُسے اسباب کے اندر زندگی گزارنے کی ہدایت کی ہے۔ اس لئے خداوند تعالیٰ کو ربّ العالمین کے بابرکت نام کے ساتھ ساتھ مسبب الاسباب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے یعنی وہ ہستی جو تمام اسباب کو پیدا کرنے والا ہے۔ اُس کی رحمت اور مہربانی یہ ہے کہ اُس نے اپنے بندے کے لئے اس دُنیا میں مشکلات کے حل کے لئے ذرائع بھی پیدا کیا ہے تاکہ انسان اُن سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے مشکلات کا مقابلہ کر کے اپنی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرے۔

ہم جانتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے بندے کو احسنِ تقویم کے اعلیٰ درجے پر خلق کرکے دوسری مخلوقات پر اُسے فوقیت دے کر اُس کی خوبیوںکو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ  اُس کی کمزوریوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔ اُس کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ہر وقت کسی دوسری ہستی کی مدد  کا محتاج ہے کیونکہ انسان کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے یہاں خوشی اور غم ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔خوشی کے لمحات میں اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہےجبکہ پریشانی کے الم میں صبرو تحمل سے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ زندگی کے مشکل لمحات میں کسی کے سہارے اور مدد کی ضرورت کے لئے مافوق الفطرت ہستی کی طرف رجوع کرنا  بھی پڑتا ہے  اس عقیدے کے ساتھ کہ اس عالم کو بنانے والا بھی کوئی ہےجس کے ہاتھ میں ہم سب کی زندگی کی بقا ہے۔ موت و حیات،خوشی،غم، عزت،ذلتّ غرض ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہےکیونکہ اُسے معلوم ہے کہ وہ  ہر وقت غنی ہے اور بندہ فقیر  جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ (47.38 )    ترجمہ:  اللہ تعالٰی غنی ہے اور تم فقیر ۔

ان تمام توانائیوں اور قوت کے باوجود وہ ہستی ایسا مہربان اور رحمان ہے کہ اُس نے اپنے بندے کے لئے بھی رحمت کے دروازے اسباب کی صورت میں پیدا کیا ہےتاکہ انسان تکلیف اور مصیبت کے اوقات میں خلوصِ دل سے اپنے ربّ سے اپنے تعلقات مضبوط کرےاس تعلق کا اظہار  مالکِ حقیقی کے سامنے سجدے میں جاکر گڑ گڑانے اور دُعا مانگنے کی صورت میں ہوسکتا ہے۔دُعا کے معنی پکارنا، بلانا اور مددطلب کرنا ہوتا ہے اور یہ دُعا یعنی پکار اس لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے خداوندِ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوکر اُس کی رحمتیں حاصل کرسکتے ہیں۔بارگاہِ ایزدی میں توبہ و استغفار کرکے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرسکتے ہیں اور اپنی روح کے اندر اطمینان پاسکتے ہیں کیونکہ دُعا انسانی روح کی غذاہے اور مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے ۔یہ آنے والی بلاہوں کو ٹال سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ خدا کی قربت کا ذریعہ ہےتبھی تو اللہ نے فرمایا ہے کہ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۔ (  2.186  )

ترجمہ: جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں۔

انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا انسانی زندگی پر مایوسی کے بادل چھا جاتے ہیں تو انسان بے اختیار اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہے کیونکہ یہ دُعا ہی ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ یہ رابطہ اُس وقت پرُ اثر ہوتا ہے جب پکارنے والے کے دل میں خلوصِ نیت ہو اور عجزو انکساری کے ساتھ ساتھ چشم پرُنم ہوتو ایسی دُعا کبھی بھی رائیگان نہیں جاسکتی۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔.

 أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ۔   (27.6)    ترجمہ: وہ کون ہے جو بےقرار کی دُعا کو قبول کرتا ہے۔

مذکورہ اس آیت سے یہ حقیقت واضح  ہوتی ہے کہ انسان جب اضطراری کیفیت میں ہو تو اپنے پروردگار سے دُعا مانگتا ہےتاکہ اُس کی تکلیف اور مصیبت دور ہو کیونکہ خدا رحمان اور رحیم ہے وہ نہیں چاہتا کہ اُس کا کوئی بندہ تکلیف میں مبتلا  رہ  جائے۔پھر بھی زندگی میں تکالیف آتی رہتی ہیں  اور انسان کسی نہ کسی طرح پریشانیوں سے نبرد آزما ہوتا رہتا ہے مگر اللہ کی رحمت یہ ہے کہ اُس نے اپنے بندے کو ان تکالیف کے آنے کی صورت میں اُن کا مداوا بھی بتادیا  ہے تاکہ انسان اُن  کی وساطت سے اپنی  روحانی علاج کراکر اپنے لئے طمانیت ِ قلبی حاصل  کرلے۔وہ ذرائع کیا ہیں جن سے ایک بندہ مومن اللہ کی قربت حاصل کرسکتا ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔  وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا   ۖ   (7.180)

ترجمہ: اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں تم ان ناموں کے ذریعے سے اللہ کو پکارو۔     

اس آیت میں فرمایا گیا ہے  کہ خداوندِ تعالیٰ کے بہت اچھے اچھے اسماء ہیں خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے ان اسماء سے ہی اللہ کو پکارا جائےاور  اپنی روحانی رشتے کو مضبوط کیا جائےکیونکہ انسانی روح کا منبع وہی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔

یہ حقیقت ہر عبادت گزار بندے کو معلوم ہے کہ جب وہ خلوص و محبت اور عجزو انکساری کے ساتھ ان اسما الحسنیٰ کی وساطت سے  بارگاہِ ایزدی میں اپنا سر جھکاکر اپنی عبودیت کا حق ادا کرتا ہے تو اُس کی روح کے اندر ایک قسم کی خاص کیفیت پیدا ہوجاتی ہےجو اس کے لئے سکونِ قلب کا باعث بنتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بندہ مومن آنسو بہاکر حالتِ گریان میں جب سجدے سے اپنا سر اُٹھاتا ہے تو اُس کی پرنم آنکھیں اُسے دُعا کی قبولیت کی خوشخبری دیتی ہیں۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ دل سے جو بات نکلتی ہے وہ آثر کرتی ہے کیونکہ جب خلوصِ دل سے مانگا جائے تو خدا بھی اُس کو سنتا ہےاس لئے انسان کو مکمل یقین رکھنا چاہئے کہ وہ جو دُعا مانگتا ہے اُسے خدا ضرور قبول فرماتا ہے۔ یہاں ایک نکتے کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ جس دُعا میں عاجزی و انکساری ، توجہ اورقلبی یکسوئی نہ ہو ،محض دیکھاوے کی بنیاد پر عبادت و بندگی ادا کی جائے تو ایسی صورت میں وہ دُعا بے مقصد رہے گی۔اسی حقیقت کی طرف عارف رومیؒ نے فرمایا ہے۔

اگر نہ روئی دل اندر برابرت آرم

من این نماز حسابِ نماز نہ شمارم

ترجمہ: اگر میری توجہ مکمل طور پر حالاتِ نماز میں تیری جانب نہیں ہوتی ہے تو میں ایسی نماز کو نماز ہی نہیں سمجھتا۔

(کلیاتِ شمس تبریزی ص650 )

تاریخ گواہ ہے کہ مختلف ادوار میں جب انبیاء پر تکالیف آئیں تو اُن کی التجائیں بھی دُعا ء کے وسیلے سے ہی خدا کے حضور شرفِ قبولیت سے ہمکنار ہوئیں۔جیسا کہ قرآن مجید نے  حضرت آدمؑ اور حواکی دُعا کا ذکر اس طرح بیان کیا ہے۔   قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۔(7.23)

 ترجمہ: دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اس طرح حضرت نوحؑ کی دُعا  کی بدولت خداوند تعالیٰ نے اُن کی اطاعت گزار جماعت کو کشتی میں سوار کرکےنجات دی۔ حضرت ابراہیمؑ نے خدا سے اولاد کے لئے یوں دُعا کی۔  قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً۔ ۖ (3.38)   

ترجمہ: اے میرے پروردگار مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو دعا کا سننے والا ہے۔

اسطرح حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لئے باب خطۃ مقرر کیا اور لوگ خطۃ (یعنی ہم بخشش چاہتے ہیں )کہہ کر اُس دروازے سے گزر جاتے تھے اور اپنے گناہ معاف کرواتے تھے۔ اسطرح حضرت عیسیٰؑ  خدا کے حضور  دُعاؤں سے مردوں کو زندہ کردیتے تھے جبکہ حضرت محمد ﷺرحمت العالمین بن خدا کے حضور اپنی دُعاؤں کے ذریعے اپنی اُمت کی بخشش اور معافی کا سہارابن گئےجس سے انسان کو ایک قسم کا اطمینان ،سکون اور سکھ ملتے رہےاور ہر قسم کے عذاب سے محفوظ رہےجیسا کہ خداوند تعالیٰ خود  فرماتا ہے وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ  ٘ (8.33) 

 ترجمہ:اور اللہ تعالٰی ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے  اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں۔

اس آیت میں وضاحت کی گئی ہےکہ مشکل حالات میں اُمت کی نجات کا ذریعہ توبہ و استغفار اور یادِ الہی ہی ہے جس کے ذریعے سے اُسے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔کیونکہ انسان وقتاََ فوقتاََ مختلف قسم کے تکالیف اور آفات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے تو ایسے حالات میں صبر، ہمت، اور مشکلات کی آسانی کے لئے ذکرو تسبیح کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ اللہ کی ذات ہی ہوتی ہے جو اپنے پریشان حال بندوں کی فریاد سُن لیتا ہے۔اس  کےلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ گناہوں سے توبہ کی جائیں اور صدقِ دل سے خدا سے مانگا جائیں یہی وہ منزل ہے کہ جس کے ذریعے سے کوئی بندہ  اپنے مقصد کو پاسکتا ہے۔حافظ شیرازی نے کیا خوب فرمایا ہے۔

دُعائے صبح و آہ و شب کلیدِ گنجِ مقصود است

بدین راہِ روش برو کہ بہ دلدار پیوندی

ترجمہ: صبح کی دُعا اور رات کی گریہ وزاری مقصد کے خزانے کی چابی کی حیثیت رکھتی ہے تو اس راستے  پر اس طریقے سے(یعنی دُعا وبندگی ) عمل کرتا رہ تاکہ تو اپنی منزلِ مقصود تک پہنج پائے گا۔    ( دیوانِ حافظ،ص 407 )

حکما ء نے زندگی کا راز یہ بتایا ہے کہ دُنیا میں آفات و آلام، بیماریاں اور اس قسم کے بہت سی تکالیف جب سر پہ آتی ہیں تو ان سے انسان کو اپنے مالک حقیقی کی جانب متوجہ ہونے کا ایک اہم موقع میسر آتا ہے کیونکہ انسان دُنیوی زندگی کی آسائیشوں میں محو ہوکر اپنے حالق کی یاد سے دور رہتا ہے ۔وہ اپنی طاقت، دولت اور علم پر انحصار کرتا ہے اور اُسے یہ غرور یا گمان  لاحق ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اُس نے اپنی محنت اور علم سے حاصل کیا ہے  حالانکہ یہ سب کچھ خدا کی مہربانی اور اُس کی رحمت سے ہوئی ہے ۔اس خیال و گمان میں اچانک اُس کی زندگی میں آزمائیش اور پریشانیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں یہ پریشانیاں اُس کے لئے زندگی میں کچھ سیکھنے کے لئے آتی ہیں اور وہ ان سے بہتر سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے آپکو اپنے حالق سے جوڑ دیتا ہے۔ اور پھر سے اپنے اپکی اصلاح کرنے کی فکر میں ہوتا ہے جو کہ اللہ کی طرف سے اُس کے لئے ایک رحمت ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا  کہ

خد اتجھے کسی طوفان سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

یہ فطری بات  ہے کہ انسان جب کسی طوفان سے نبرد آزما ہوتاہے تو وہ دُعا اور توبہ و استغفار کا دروازہ کھٹکٹھاتا  ہےجس سے اُس کی زندگی میں اعتدال اور توازن پیدا ہوتا ہےگویا یہ تمام آزمائیش اُس کی زندگی میں بہتری لانے کے لئے اُسے ایک موقع فراہم کرتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ۔.فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ  ٘ (21.88)

ترجمہ: تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں۔

دُعا اور استغفار کی بات کو اگے بڑھاتے ہوئے یہ نکتہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری دُعائیں کیوں قبول نہیں ہوتی ہیں؟  اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے درجہ زیل چند نکات کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ پہلی چیز یہ کہ دُعا کے لئے خلوص ،انکساری ،عاجزی اور چپکے چپکے سے  دُعائیں مانگنا لازمی امر ہے ۔ جس دل میں خلوص نہ ہو خالی ریاکاری اور دیکھاوے سے کی گئی دُعا کوئی معنی نہیں رکھتی اور جس ہستی کے سامنے ہاتھ پھیلائی جارہی ہے اُس ہستی پر مکمل یقین اور بھروسہ ہو۔ یقین نہ ہونے کی صورت میں جتنی بھی فریاد کی جائے رائیگان  اور بےسود ہو جائے گی۔ارشاد خداوندی ہے۔ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ  ۔(7.55)

ترجمہ: (لوگو)اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دُعائیں مانگا کرو وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

دُعا کے ذریعے جو چیز ہماری مفاد میں ہو وہی قبول ہوتی ہے جو چیز ہماری مفاد میں میں نہ ہوں وہ نظر انداز ہوتی ہے کیونکہ بعض چیزیں ہم پسند کرتے ہیں لیکن وہ فطرت کے مطابق نہ ہو ں تو بھی دُعائیں قبول نہیں ہوسکتی ہیں۔کیونکہ فطرت کے اٹل قوانین کو ہم دُعاؤں کے ذریعے بدل نہیں دے سکتے ۔مثال کے طور پر ہم انگور کے درخت سے آخروٹ کے پھل کا تقاضا نہیں کرسکتے اس کے  لئے ہمیں آنگور کا بیج بونا پڑے گا  یہ فطرت کا اُصول ہے جس میں پسند و ناپسندکی بات نہیں ہوسکتی۔ہوسکتا ہے کہ انسان جس چیز یا خوشی کو حاصل کرنے کے لئے بےچین ہے مگر ربّ العالمین تمام حالات سے واقف ہے ہو سکتا ہے کہ وہ چیز اس بندے کے لئے نقصان دہ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔

ترجمہ: اور شاید تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے اچھی ہو اور عجب نہیں کہ تم ایک چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہ تمہارے حق میں بُری ہو اور خدا تو جانتا ہی ہے مگر تم نہیں جانتےہو۔ (2.216)

مذکورہ آیت رباّنی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے کہ کیا چیز اُس کے بندے کے لئے فائدہ مند ہے اور کیا چیز اُس کے لئے نقصان دہ ہے ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ یقین کرنا چاہئے کہ اللہ سے یہ دُعا کی جائے کہ اے اللہ ! جو  میرے لئے اچھا ہو  اُسے ہمیں عنایت فرمائیں ۔  اپنی ہی مرضی کے حصول کے لئے بضد نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم  تکالیف اور پریشانیاں آنے کی صورت میں دُعا  اور صلواۃ سے  ضرور سہارا لینا چاہئے تاکہ خدا کی رحمت  جوش میں آجائے اور ایک ہی لمحے میں وہ تکلیف دور ہو۔نیز دُعا کی قبولیت کے لئے یہ شرط بھی ہے کہ رزقِ حلال سے ہی انسان کی پرورش ہو اور اُس کی روحانی دُنیا پاک ہو تاکہ اُس کی زبان سے نکلے ہوئے پاکیزہ دُعائیہ کلمات اور عملِ صالح براہِ راست عرش تک پہنج سکے۔ یہ پاکیزہ کلمات ہی ہیں جو ہر خلوصِ دل سے دُعا کرنے والے انسان کی دُعا کی قبولیت کے لئے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔جیسا کہ پروردگارِ عالم نے فرمایا ہے۔

 إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ  ۔ (35.10 )

ترجمہ: تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں  اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے:

اسطرح ایسی دُعائیں جو برائی اور بددیتی پر مبنی ہوں قبول نہیں ہوسکتی ۔کسی کےلئے  خیر اور نیکی کے لئے دُعا کرنا   ہی درست اور صحیح طریقہ ہے ۔ کبھی کبھاراس دنیا میں انسان حالات سے تنگ ہوکر خود اپنے لئے موت کی دعا کرتا ہے جوکہ سراسر ظلم اور قانونِ فطرت کے خلاف ایک بغاوت ہے کیونکہ مایوسی گناہ ہے اور گناہ خدا کی رحمت سے دوری کا نتیجہ ہے۔اس لئے دُعا مانگتے ہوئے خدا سے رحمت کا طلب گار ہونا چائیے جلد بازی میں خدا سے مانگی ہوئی دُعا  پُر آثر نہیں ہوتی ۔ اور بعد میں پشمانی اور ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لئے ہمیں اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے ہمیشہ اُس کی رحمت کی امید رکھنی چاہئے اور خدا نے خود یہ دُعا ہمیں بتایا ہے کہ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ( 39.53) ۔ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔

مختصر یہ کہ دُعا ایک ایسی عبادت ہے جس کے ذریعے سے ایک بے سہارا انسان اللہ کی قربت حاصل کرکے اپنی تمناؤں کو خدائے بےنیاز کے سامنے رکھ کر اپنی بےبسی کا اظہار کرکے اپنے لئے روشنی کا ذریعہ ڈھونڈ نکالتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ غم اور پریشانیوں سےگھبرا نانہیں چاہئے بلکہ صبرو تحمل اور قوتِ برداشت سے مسائل کا مقابلہ دُعا و بندگی کے  ذریعے کی جائے کیونکہ تمام عبادتوں اور ذکرو مناجات کی بنیاد اورمغز دُعا ہی ہے جس کے سہارے ہر انسان سکون اور ذہنی طور پر مطمئن زندگی گزارسکتا ہے۔یہ دُعا ہی ہے جو خالق اورمخلوق کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ یہ رابطہ اُس وقت پرُ اثر ہوتا ہے جب پکارنے والے کے دل میں خلوصِ نیت ہو اور عجزو انکساری کے ساتھ ساتھ چشم پرُنم ہوتو ایسی دُعا کبھی بھی رائیگان نہیں  جاسکتی۔نیز ہمیں نہ صرف اپنے لئے بلکہ پوری انسانیت کی فلاح اور نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور  دُعا مانگنی چایئے کیونکہ ہم سب آدمؑ کی اولاد ہیں ہمیں ایک نہ ایک دن خدا کے حضور جانا ہے۔کون اچھا ہے کون بُرا  یہ فیصلہ مالک ِ یوم الدین  کے ہاں ہونا ہے۔ بحر حال ہمیں اپنے اپکو اللہ کی مشیت کے مطابق پہلےصحیح انسان  او ر پھر صحیح مسلمان بننے کی از حد کوشش کرنی چایئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلوصِ نیت کے ساتھ خد اکے سامنے دُعا اور گریہ وزاری کرنے کی توفیق ، ہمت اور موقع عطا فرمائے۔

آمین ثمہ آمین


شیئر کریں: