Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

امریکہ میں انسانی حقوق کی حالیہ تحریک …..محمدآمین

شیئر کریں:

امریکہ اپنے اپکو انسانی حقوق کے نہ صرف سب سے بڑا عالمبردار سمجھتا ہے بلکہ دوسرے ملکوں پر بھی اس حوالے سے اپنی اجاداری ڈوھونپنے کی کوشش کرتا ارہاہے اور جہاں بھی امریکہ کے نزدیک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر اتی ہے تو سارے امریکین کنٹرولڈ میڈیا بشمول اقوام متحدہ کے مختلف اداروں میں ان ممالک کے خلاف اواز اٹھنے شروع ہوتے ہیں اور ان تمام چیزوں کے پیچھے امریکہ کے ذاتی مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ان ممالک پر سخت اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی جا تی ہیں۔بقول امریکہ کے انسانی حقوق کی پاسداری ان کے فاونڈنگ فادرز (foundingfathers) کے نصب العین میں شامل تھا اور ان کی حفاظت امریکین پر فرض ہے۔


لیکن سکے کا دوسراپہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ کے اندر انسانی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ انسانی حقوق کی مسلمہ تعریف کے مطابق سارے انسانوں کے یکسان حقوق ہوتے ہیں اور سارے قانوں کے نزدیک برابر ہوتے ہیں اور رنگ،نسل اور مذہب اس معاملے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں بدقسمتی سے خود کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا چمپین کہنے ولا ملک کی داستان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھری ہوئی ہے چاہیے وہ اندرونی ہو یا بیرونی۔امریکہ کے قیام سے لیکر صدر ابراہیم لنکن کی حکومت تک جب غلامی کو امریکہ میں قانونی حثیت حاصل تھی، گورون اور سیاہ فام باشندوں کے لئے علیحدگی (segregation) کا نظام قانونی طور پر جائز تھا اور ان کے لیے الگ تعلیمی ادارے،کیفے ٹیریا اور بس سروزیز وغیرہ موجود تھے اس کے علاوہ روزگار کے مراکز میں بھی یہ امتیازی سلوک بڑے پیمانے پر پائے جاتے تھے بات سیاہ فام تک ختم نہیں ہوتی ہے لاطینی،ہسپانوی اور ایشیاء کے لوگ بھی اس بدنما سلوک سے بری طرح متاثرہوتے ہیں۔لیکن ابراہیم لنکن کے بعد بھی یہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سلوک جاری و ساری رہے۔اور جب بھی کسی سیاہ فام کو جرم کے الزا م میں پکڑا جاتا تو گورے نسل کے پولیس والے کے ہاتھوں تشدد کے علاوہ بعض اوقات قتل بھی ہو جاتے تو جیوری بیٹھ کر شواہد کی عدم دستیابی پر ان پولیس افسرز کو رہا کرتے کیونکہ قاتل سفید رنگت سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اعلانان گورون کی سرزمین ہے اور دوسروں کے لئے کوئی جگہ نہیں صرف وہ غلام ہوتے ہیں اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس نظام کو الگ ناموں سے پکاراگیا امریکہ کی اس دوہری اور دوغلی پالیسی میں ہٹلر کی بو اتی ہے جو جرمن نسل کو سب سے اعلی اریان نسل سمجھتا تھا۔


جہان تک امریکہ کے بیرونی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تعلق ہے وہ چاہئے ویت نام،افغانستان،عراق،کیوبا ہو یا دوسرے ایشائی یا افریقین یا دوسر ے نارتھ امریکن ممالک ہو وہاں تو اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر انسانی حقوق کی دھجکیان اڑائی جاتی ہے لیکن یونائٹیڈ اسٹیٹس کی اقتصادی،تکنیکی اور عالمی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک پر مکمل اجادری کی وجہ سے کوئی بھی اس کے سامنے بولنے کی جرات نہیں کر سکتا جن کی واضح مثالین اسلامی جمہوریہ ایران،شمالی کوریا،شام،کیوبا اوروینزیلہ وغیرہ شامل ہیں ان جیسے ممالک کے خلاف دوسرے ملکوں کو بھی مجبور کردیتی ہے کہ ا ن ممالک کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی روابط ختم کریں ورنہ ان ممالک کے کمپنیان بھی پابندی کی ذدمیں ائیں گے،تاکہ ان نافرماں حکمرانوں کو سبق سیکھائی جائے گی کہ بڑوں کا احترام کس طرح کی جاتی ہے انکل سام ان اقدامات پر اپنے روایتی حالیفون (traditional allianaces) خصوصا برطانیہ،اسرائیل،اسٹریلیا اور دوسر ے مغربی اور مشرق وسطی کے ممالک کی پشت پنائی حاصل کر پاتی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ جب بات اس کے دوست ممالک سعودی عرب،بحرین اور یو اے ای کے خلاف ہوتی ہے جہاں انسانی حقوق ہسر سے سے ہوتی نہیں تو امریکہ بالکل خاموش تماشائی بن کر رہتی ہے کیونکہ ان سے ایک طرف پیٹرو ڈالر ملتے ہیں تو دوسری طرح علاقے میں وہ اس کی آلہ کار بنے ہوتے ہیں۔


لیکن کہتے ہیں کہ اللہ کی لاٹھی بے اواز ہوتی ہے اج کل آمریکہ کے چالیس سے ذائد ریاستوں میں سیاہ فام باشندہ جارج فلائیڈ کا سفید رنگ (white colour)کے پولیس افسر کے ہاتھوں بے رحمانہ اورغیر انسانی طرز کے قتل کے خلاف جو مظاہرے ہورہے ہیں جن میں سیاہ فام نسل کے لوگوں کے علاوہ بڑی تعداد میں گورے رنگ کے لوگ بڑھ چٹرھ کے حصہ لے رہے ہیں اور اس سے(Black lives Matter)مومونٹ کا نام دیا گیا ہے اور یہ تحریک امریکہ سے باہر نکل کر برطانیہ،اسٹریلیا،فرانس،جرمنی اور نیوزلینڈ وغیرہ میں پھیلا ہوا ہے اور مظاہریں امریکہ کے نظام انصاف کے خلاف شدید تنقید کرتے ہیں اور اس تحریک کا بنیادی مقصد سیاہ فام نسل کے ذندگیوں کو احترام اور عزت دینا ہے۔


لیکن حیرت کی بات یہ ہے ان تمام واقعات کے باوجود وائٹ ہاوس ٹھاس سے ماس نہیں ہورہا ہے جو انتظامی حکم نامہ (Executive Order)صدر ڈونالڈٹرمپ نے پولیس اصلاحات کے حوالے سے جاری کردیا اس میں بھی اس نے پولیس تشدد کو واضح الفاظ میں برا بھلا نہیں کہا صرف سیاہ فام لوگوں کی گرفتاری کے وقت سول سوسائٹی کے لوگوں کی شمولیت اور گردن سے دبوجھنے (choke holds) کے عمل کو منسوخ کردیا اگر اس ارڈر میں سکول چوائس کو بھی شامل کیا گیا تاہم امرکین اور بین الاقوامی ماہریں کے نزدیک صدر ٹرمپ کی یہ حکم نامہ بھینس کے اگے بین بجانے کے برابر ہیں کیونکہ اس نے کھولے الفاظ میں پولیس تشدد کی مزمت نہیں کی اور مظاہریں کی دوسرے مطالبات پولیس کی فانڈگ میں خاطر خواہ کمی کو ٹرمپ نے مسترد کردیا جس سے یہ مظاہرے مذید بڑھیں گے۔اور مظاہروں نے جو پیغام امریکین سیاستدانوں کو دے رہے ہیں ان سے امریکہ کی کھوکھلی زہنیت (mindset)اور سسٹم میں کمزوریوں کاپتہ چل گیا اور ٹرمپ جیسے عنا پرست اور مغرور شخص کے غرور کو بھی خاک میں ملا دیالیکن صدر ٹرمپ سے اسے زیادہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کے فیصلے ہمیشہ عقلی اصولوں کے تضاد ہوتے ہیں وہ چاہئے کورونا وائرس (COVID-19) کی امور ہو یا عالمی ادارہ صحت سے ٹسل یا فلسطین اسرائیل کا مسلہ یا مشرق وسطی سب میں اس کی عدم توازن نمایاں نظر اتی ہے۔لیکن امید کی جاتی ہے کہ امریکہ کے قانوں ساز اور باشعور لوگ اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور انسانی حقوق کے حوالے سے امریکن پالیسی پر نظر ثانی کریں گے تاکہ بین الاقوامی تناظر میں امریکہ کی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کرسکیں۔امید کی جاتی ہے کہ بلیک لائیوز میٹر مومنٹ امریکہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گاجسے انسانیت کو بڑے پیمانے پر آمن اور عزت ملے گا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
36681