Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا…..تحریر: عبداللہ شہاب

شیئر کریں:

فنِ خطابت۔

فنِ خطابت فنونِ لطیفہ کی ایسی قسم ہے جو بظاہر انتہائی آسان ہونے کے نہایت مشکل اور مشق طلب ہے۔ جس کے بنیادی لوازمات میں انداز،  علم،  سنجیدگی،  موقع محل کے ساتھ ساتھ سامعین کا خیال رکھنا  ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے خطیبوں کی کمی نہیں جن کے نزدیک فنِ خطابت سے مراد چلا چلا کر اپنا نقطہ نظر پیش کرنا  بلکہ دوسروں پر تھوپنا ہے۔ بہترین خطیب کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر مسلط نہیں کرتا بلکہ لوگوں کو قائل کرتا ہے کیونکہ جہاں دلائل کی پستی ہو وہاں آواز کی اونچائی خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ اور اچھے خطیب کی آواز آہستہ اور شائستہ جب کہ دلائل  مضبوط ہوتی ہیں۔

 دوسری قسم کے خطیبوں کو لگتا ہے کہ جن کے پاس علم کا گوہرِ بے مایہ ہے اور باقی جو بیٹھے ہیں سارے للو لال ہیں لیکن اگر سامعین میں بیٹھا ایک شخص بھی ایسا نکلا کہ ان کا علم جس موضوع پہ آپ محو گفتگو ہیں  سے تھوڑا بھی زیادہ ہوتو آپ صرف اسی موضوع پر خرمستی کی وجہ سے مستقل طور پر اپنا وقار کھو دوگے۔ حلانکہ صرف میں جانتا ہوں،  صرف مجھے پتہ ہے،   کیا سمجھ گئے،  اب بھی سمجھ نہیں گئے تو کیا کروں ، جیسے الفاظ سے انسان کی تباہی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

اب آتے ہیں ایسے خطیب جن کو لگتا ہے کہ صرف لوگوں کو ہنسانا یا لطیفہ گوئی سے زیادہ کام لینا فنِ خطابت ہے اور اس اصول پر بھر پور انداز سے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ موضوع کیا ہے اور وہ لطائف کے انبار کہاں پیش کررہے ہوتے ہیں اور خود ایسے ایسے دانت لکال لیے ہوتے ہیں کہ بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانے کی ایکٹینگ کرتا ہے ایسے لوگوں کو خطیب نہیں بلکہ “ٹارگچی” کہتے ہیں جو ضروری سے ضروری بات بھی بتا دیں تو لوگ ان باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ اور ان کو لطیفے سمجھ جاتے ہیں اگر چہ فنِ خطابت کے لیے ظرافت ضروری ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پوری نشست ملا نصیرالدین کی داستانیں لے کر بیٹھ جائیں۔ ظرافت کو خطاب میں بطورِ عمل انگیز استعمال کریں وسیلہ نہ بنائیں۔

اس کےبعد جو خطیبوں کی قسم ہے یہ بڑا خطرناک ہے ۔ کیونکہ ان کے پاس علم بھی ہوتا ہے،  انداز بھی خطیبانہ ہوتا ہے،  سنجیدگی بھی ان کی گفتگو میں ہوتی ہے لیکن یہ “خواتین وحضرات” برمحل گفتگو نہ کرتے ہوئے باقی اوصاف پر پانی پھیر دیتے ہیں ۔ یا تو یہ خطیب مختلف واقعات کو آپس میں جوڑنے کی سعی میں خلط ملط کر بیھٹتے ہیں یا ان کی باتیں “خورا لونی ژوو گہکیری” کی بہترین مثالیں ہوتی ہے۔ جو صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔ مثال کے طور پر ایک بندہ اگر مذہبی حوالے سے بات کررہا ہو،  تو اُسے عید کے دن روزے کے فضائل اور نواقص بیان نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک تو رمضان گزر گیا ہے اور اوپر سے ہم اتنے کند ذہن ہیں کہ کل کا کھایا بھول جاتے ہیں اگلے رمضان تک یہ سب کچھ یاد رکھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہوگا یہ کہ ایک تو اب اس کی قدرو قیمت نہیں رہتی اور دوسرا یہ کہ اس بندے کو لگے گا کہ میں نے فضول میں ایک مہینہ ضائع کردیا۔  اب بخشش کی کوئی امید نہیں ہوتی۔

 اس کے علاوہ ایک اور قسم ہے جن کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ دیکھ،  سمجھ،  بوجھ جائیں کہ میں کن سے مخاطب ہوں؟  یہ لوگ کون ہیں؟ اور معاشرے میں ان کا کیا کردار ہے؟  جو موضوع ان کے سامنے میں پیش کرنے جارہا ہوں یہ روزمرہ زندگی میں ان  کے لیے کتنا اہم ہے۔ مثال کے طور پر کسی دیہات میں کسانوں کو یورپین یونین کے مقاصد بتانا یا کسی تبلیغی جماعت کے سامنے ایٹمی قوت پر بھاشن دینا ، گاوں کے سادہ لوگوں کو محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے معرکوں کا قصہ سنانا چہ معنی دارد؟

لہذا کوشش یہ ہو کہ جہاں ہمیں بات کرنے،  مقالہ پیش کرنے،  خطبہ دینے یا تقریر کرنے کا موقع ملے ان ان باتوں کا خیال رکھیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
36432