Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

موبائل ایب۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

خیبر پختونخوا میں پہلی بار خواتین، بچوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے واقعات کی شکایات درج کرانے کیلئے ویب سائٹ اور موبائل ایپ کا آغاز کر دیا گیا، یہ ایپ ایک منفرد نظام کے تحت اردو، انگریزی، پشتو، چینی اور عربی سمیت 8 مختلف زبانوں میں دستیاب ہو گی۔ اس ایپ میں تشدد کا شکار ہونے والی خاتون داد رسی کیلئے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں سے رجوع کرسکتی ہے۔مذکورہ ویب سائٹ اور موبائل ایپ نجی تنظیم زمونگ جوندون کی جانب سے بنائے گئے وومن پروٹیکشن ونگ کا حصہ ہے جس کا مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ وومن پروٹیکشن ونگ کی چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ ایپ کے ذریعے خواتین، بچے اورخواجہ سراء اب کہیں سے بھی تشدد کے واقعے کی رپورٹ درج کراسکتے ہیں وومن پروٹیکشن ونگ کا عملہ ایک گھنٹے کے اندر شکایت کنندہ سے رجوع کر کے معاملہ متعلقہ حکام تک پہنچائے گا۔وومن ونگ کے پاس قانونی اور نفسیات کے ماہرین، پولیس اور ایف آئی اے کے ساتھ رابطے کیلئے خصوصی ٹیم موجود ہے۔ ایپ پر شکایت کا اندراج ہوتے ہی تمام اداروں کو فوری مطلع کیا جائے گا۔صوبائی حکومت کی طرف سے گھریلوتشددکا نشانہ بننے والی خواتین کی داد رسی کے لئے موبائل ایپ ایسے موقع پر جاری کیاگیا ہے جب کورونا کی وجہ سے آبادی کا بیشتر حصہ گھروں میں محصور ہے، نامور ماہر نفسیات اور ذہنی امراض کے معالج پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی نے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ تین مہینوں کے اندر صوبے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔کورونا کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم اور کاروبار ٹھپ ہوکررہ گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ کی بڑی تعداد ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہورہی ہے اور اس کا عملی مظاہرہ وہ گھروں میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے ذریعے کرتے ہیں اس عرصے میں گھریلو ناچاقیوں اور طلاق کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جو خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہورہی ہیں انہیں موبائل ایپ کی بدولت قانونی مدد اور تحفظ ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے تاہم یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی کتنی خواتین کو موبائل اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ہمارے صوبے کی 80فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ایبٹ آباد، ہری پور، چترال، پشاور اور کرک کو چھوڑ کر دیگر اضلاع میں خواتین میں خواندگی کی شرح 20سے 25فیصد ہے۔ان خواندہ خواتین میں بھی 90فیصد نوجوان لڑکیوں، طالبات اور غیر شادی شدہ خواتین پر مشتمل ہے۔صرف پانچ سے دس فیصد دیہاتی شادی شدہ خواتین موبائل استعمال کرسکتی ہیں۔موبائل ایپ کا فارمولہ ان معاشروں میں کارآمد ہوسکتا ہے جہاں تعلیم نسواں کی شرح 70فیصد سے زیادہ ہو۔اس سے قبل حکومت نے بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں معلوم کرنے کا موبائل ایپ بھی جاری کیا تھا۔سرکاری اداروں میں خالی اسامیوں اور ان پر بھرتیوں کے شیڈول اور طریقہ کار سے متعلق بھی ایپ تیار کیاگیا تھاجن کے خاطر خواہ نتائج اب تک سامنے نہیں آئے۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ہماری حکومت کو گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی مظلوم خواتین کی تکلیف کا احساس ہے اور انہیں آبرومندانہ طریقے سے اس تکلیف سے نجات بھی دلانا چاہتی ہے۔تاہم اس کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیاگیا ہے اس کے مطلوبہ نتائج ملنے کی بہت کم ہی توقع ہے۔اس طرح کی جدید سہولیات سے مستفید ہونے کے لئے خواتین کو پہلے معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک اہلکار نت نئے تجربات کے ذریعے حکومت کو مرغوب کرنے میں مصروف ہیں، ان کے زرخیز ذہن ان تجربات کے فوائد عام آدمی تک پہنچانے کا طریقہ بھی یقیناً تلاش کرسکتے ہیں۔ اردو، انگریزی اور پشتو زبان میں موبائل ایپ بنانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن چینی اور عربی زبان کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوئی تک سمجھ میں نہیں آرہی، اگر زیادہ زبانوں میں ایپ بنانا ضروری تھا تو مقامی زبانوں ہندکو، کہوار، گوجری اور سرائیکی کو ایپ میں شامل کیاجاسکتا تھا۔یہ تو ہماری ذاتی رائے ہے اس سے اتفاق کرنا ارباب اختیار سمیت کسی کے لئے بھی لازمی نہیں، جس کا کام اسی کو ساجھے کے مصداق صوبائی حکومت اور اس کے ذیلی ادارے اپنا کام خود بہتر سمجھتے ہیں تاہم ان کی سوچ کا معیار عام آدمی کی سوچ سے تھوڑا اونچا ہے اس لئے ان کی باتیں لوگوں کے سروں کے اوپر سے گذر جاتی ہیں۔ہمارا کام عام آدمی کی سوچ اور ضروریات سے متعلق باتیں ارباب بست و کشادکے گوش گذار کرنا تھااس میں کسی کی دل آزاری کبھی مقصود رہی اور نہ کبھی رہے گی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
36306