Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ماحول اور انسان..(5جون،عالمی یوم ماحولیات کے حوالے سے خصوصی تحریر) ..ڈاکٹر ساجد خاکوانی

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
(World Environment Day)
اس دنیامیں وارد ہوتے ہی نومولودانسان کا سب سے پہلا واسطہ ماحول سے ہی پڑتاہے۔صحت بخش اورصاف ستھرے ماحول میں جنم لینے والا بچہ دنیامیں زندہ رہ جاتاہے لیکن آلودہ،جرثوموں سے بھراہوااورگندگی والے ماحول میں جنم لینے والے بچوں کو اپنی زندگی کے تسلسل کی خاطرایک بھرپورچومکھی جنگ لڑنی پڑتی ہے،پس جوبچہ جنگ جیت جاتاہے وہ جام حیات سے سیراب ہوپاتاہے بصورت دیگر ماحولیاتی آسیب اسے موت کی وادی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے درگورکردیتاہے۔ماحول کے لغوی معنی اردگرد کے ہیں،یعنی جو کچھ ہمارے دائیں بائیں،اوپرنیچے اورآگے پیچھے موجودہے اور جس جس کے اثرات ہمارے اوپرمرتب ہوتے ہیں،وہ اثرات مثبت ہوں یا منفی ہوں بہرصورت میں وہ ماحول کہلاتاہے۔زمین ہوفضاہویاپانی ہوجہاں بھی کوئی جاندارہو،اس جاندارپر اس کے اردگردسے جوجو عوامل اس کی صحت،مزاج،طبیعت،اسکی نفسیات یااس کی نسل وغیرہ پر اپنے اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں وہ ماحول یاماحول کاحصہ ہوتے ہیں۔جوجیسے ماحول میں رہے گا وہ ویساہی ہوجائے گا،دریاکے کنارے رہنے والا خاموش اورگہراانسان ہوگا،ریگستان میں رہنے والا خشک اور روکھی طبیعت کامالک ہوگا،پہاڑوں میں رہنے والا بلند ہمت اورعالی مقاصدرکھنے والاہوگااور سرسبزمیدانی علاقے کارہنے والا خوشگوارفطرت کاحامل اور ہنس مکھ اور کھلے دل و دماغ کامالک ہوگا،الا ماشااللہ۔اسی طرح غربت کے ماحول میں پلنے والے،آسودگی اور راحت میں پرورش پانے والے،امن کے حالات میں زندہ رہنے والے اور جنگ و جدل کے درمیان پلنے بڑھنے والے،تجارت پیشہ خاندان اورملازمت پیشہ والدین کی اولاد غرض ہربچہ اپنے اپنے ماحول کانمائندہ ہوتاہے۔یہاں تک کہ موسم سے بدلنے والا ماحول بھی انسان پر کتنی تاثیررکھتاہے،گرمیوں میں انسانی نفسیات سردیوں کے رویوں سے مختلف ہوتی ہے اور بہاروخزاں سے رویوں کی تبدیلی شاعروں کے اشعارسے نکھرنکھرکرسامنے آرہی ہوتی ہے۔


ایک ماحول وہ بھی ہے جوسب انسانوں کو برابری کی بنیادپر فراہم ہوتاہے۔یہ ماحول آب و ہواسے قدرے وسیع تر مفہوم کا گردونواح ہے۔اس ماحول میں سب انسان سانس لیتے ہیں،زندہ رہتے ہیں اوراس ماحول کے اچھے برے اثرات سے متاثرہوتے ہیں۔قدرت نے یہ صاف ستھراماحول انسانوں کے لیے کرہ ارض پر بڑی فراخدلی سے مہیا کر دیاہے،اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًا(۷۷:۵۲) اَحْیَآءً وَّ اَمْوَاتًا(۷۷:۶۲) وَّ جَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسْقَیْنٰکُمْ مَآءً فُرَاتًا(۷۷:۷۲)ترجمہ:”کیاہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کے لیے (سمیٹ کررکھنے والی)کافی نہیں بنادیاہے؟؟اوراس میں بلندوبالاپہاڑبنائے اور تمہیں میٹھاپانی پلایا“۔اس قرآنی آیت میں واضع طورپرپہاڑوں اور پانی کاذکرہے جو ماحول پر براہ راست اثررکھنے والے دو بڑے بڑے عوامل ہیں۔اللہ تعالی نے زندہ انسانوں کے لیے اور مردوں کے لیے اس زمین کاصاف شفاف ماحول بناکرانسانوں کے حوالے کیا۔اب یہ انسانوں پرمنحصرہے کہ وہ اس ماحول کی کیسے حفاظت کرتے ہیں اور پہاڑوں اور پانی کوصاف ستھرارکھ کر قدرتی ماحول کی حفاظت کرتے ہیں۔اللہ تعالی نے اس زمین کے ماحول کو متوازن رکھنے کے لیے ہرچیزبقدرضرورت پیداکی،جس کی زیادہ ضرورت تھی وہ زیادہ پیداکی اور جس کی کم ضرورت تھی وہ کم پیداکی،کچھ مخلوقات زیرزمین اور کچھ زیرآب اور کچھ فضائی مخلوقات پیداکیں اورکچھ کو زمین،فضااورپانی تینوں میں دسترس دی،جانداروں میں نراورمادہ بھی ایک تناسب سے پیداکیے، اِنَّا کُلَّ شَیْ ءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ(۴۵:۹۴)۔فطرترجمہ:”بے شک ہم نے ہرچیزایک اندازے(تقدیر)کے مطابق پیداکی ہے“چنانچہ تخلیق خداوندی میں افراط و تفریط نہیں ہے۔ فطرت اور شریعت دونعمتیں ہیں جو اللہ تعالی نے انسان کو عطاکی ہیں،فطرت براہ راست انسان کوملی ہے جس میں زندگی گزارنے کاایک ہی راستہ ہے جب کہ شریعت انبیاء علیھم السلام کے ذریعے انسانوں کو ودیعت ہوئی ہے اور اس میں دوراستے دکھائے گئے ہیں۔شریعت جس کوسیدھاراستہ کہتی ہے وہ فطرت کے عین مطابق والا راستہ ہے۔انسان اگراس راستے پر چلتے رہیں توآب و ہوا،فضا،موسم،ماحول اور پانی سب کچھ صاف شفاف اور بے داغ و چمکتادمکتاہوااورصحت بخش رہے گا۔اس کے برعکس رویہ زمین میں آلودگی کاباعث بن کر انسانی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔


اسلامی تعلیمات میں ماحول کوصاف ستھرارکھنے کے احکامات بہت واضع ہیں۔آپﷺنے ارشادفرمایا”بے شک اللہ تعالی پاک ہے اور پاکیزگی کو پسندکرتاہے،اللہ تعالی صاف ہے اور صفائی کوپسندکرتاہے،اللہ تعالی کریم ہے اور کرم کرنے کوپسندکرتاہے،اللہ تعالی سخی ہے اور سخاوت کوپسندکرتاہے،پس تم اپنے گھروں کوصاف ستھرارکھاکرواوران یہودکی مشابہت اختیارمت کروجواپنے گھروں میں کوڑاکرکٹ جمع کرتے رہتے ہیں“(مسندابویعلی،الموصلی 79)۔ایک اورموقع پرآپ ﷺنے فرمایاکہ ”جہاں تک تم سے ہوسکے تم صفائی اختیارکروکیونکہ اسلام کی بنیاد صفائی پر ہے اورجنت میں صرف صاف رہنے والے ہی داخل ہوں گے“(کنزالعمال)۔اسی طرح آپﷺنے تین جگہوں پرقضائے حاجت کرنے سے منع فرمایاپانی بھرنے کی جگہ پر،سایہ دارجگہ پراور راستہ کی جگہ پر۔راستے کے بارے میں آپﷺ کاارشادہے کہ ”جس نے مسلمانوں کے راستے سے کسی تکلیف دہ چیزکوہٹادیاتواس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی“(معجم طبرانی کبیر)۔ایک اورموقع پر آپ ﷺ نے فرمایاکہ ”جس نے مریض کی عیادت کی،اپنے اہل و عیال پرخرچ کیایاراستے سے کسی تکلیف دہ چیزکوہٹایاتواس کی نیکی دس گناہے“(مصنف ابن ابی شیبہ)۔ماحول کو صاف شفاف رکھنے کے لیے آپﷺکا ارشاد مبارک ہے کہ”گھرمیں کسی طشت میں پیشاب نہ رکھاجائے،کیونکہ فرشتے اس گھرمیں داخل نہیں ہوتے جس میں پیشاب رکھاہواوراپنے غسل خانوں میں ہرگزپیشاب مت کیاکرو“(معجم اوسط طبرانی)۔اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت میں لکھاہے ”ٹہرے ہوئے پانی میں کوئی بھی پیشاب نہ کرے“۔مسواک کااستعمال سنت متواترہ میں سے ہے چنانچہ جب مسواک بہت چھوٹی ہوکر ناقابل استعمال ہوجاتی توآپﷺاس کو مٹی میں دبادیتے تھے۔ماحول کوصاف رکھنے کے لیے آپﷺ کی تعلیمات میں پانی کے ناجائزاسراف سے منع کیاگیاہے۔وضواور غسل میں ضرورت سے زائد پانی کااستعمال شریعت میں منع ہے۔زمین کو آباد کرنے اور سرسبزوشاداب رکھنے کے بارے میں آپﷺنے فرمایاکہ ”جومسلمان درخت لگاتاہے یاکسی چیزکی کھیتی کرتاہے پھراس درخت یاکھیت سے کوئی انسان یاچرندپرندکھائیں تووہ اس مسلمان کے لیے صدقہ بن جائے گا“(بخاری)۔


ماحول کی پاکیزگی کے پس منظرمیں ہی شاید آپﷺکاارشادمبارکہ ہے کہ طہارت نصف ایمان ہے۔جملہ عبادات سے پہلے طہارت کاحکم بھی اسی لیے دیاکہ جوانسان اپنے آپ کوصاف رکھے گاوہی انسان اپنے ماحول کو بھی صاف رکھے گا۔پھریہ وحی کی اعلی ترین تعلیمات ہیں کہ صرف بیرونی ماحول کو ہی صاف کرنا مقتضی نہیں ہے بلکہ قلب و نظر اور فکروعمل کی پاکیزگی بھی یہاں محل نظر ہے۔”تقوی“کے عنوان سے اخلاقی پاکیزگی پر بھی مسلسل زوردیاجارہاہے۔حقیقت یہی ہے جو انسانی معاشرہ اپنے اندرون سے پاکیزہ ہوگا اس کا بیرون بھی صاف شفاف ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ اکل و شرب کو بھی آلودگیوں اورنجاستوں سے پاک صاف کر دیا۔نشہ اور شراب جیسی گندگیوں سے انسان کو دوررہنے کادرس دیااوران جانداروں کاگوشت کھانے کی اجازت دی جو فطرتاََپاکیزہ ہیں اورجن کے کھانے سے انسان کے اندر بھی پاکیزگی کی نمو ہوتی ہے۔
انہیں تعلیمات کا نتیجہ تھاکہ ایک ہزارسالہ مسلمانوں کے دوراقتدارمیں فضائی آلودگی کاسوال ہی پیدانہیں ہواتھا۔لیکن گزشتہ تین صدیوں میں جب سے سیکولرازم انسانوں کی گردنوں پر مسلط ہے تب قرآن مجید کی زبان میں یہ حال ہوگیاہے کہ وَ اِذَا تَوَلَّی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَ یُہْلِکَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ (۲:۵۰۲)ترجمہ”جب اسے اقتدارحاصل ہوجاتاہے توزمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ وہ فسادپھیلائے،کھیتیوں کوغارت کرے اور نسل انسانی کوتباہ کرے حالانکہ اللہ تعالی فسادکو بالکل بھی پسندنہیں کرتا“۔پوری دنیاکواپناغلام بنانا،پھرغلام ممالک سے لوٹ مارکرکے اپناخزانہ بھرنا،مفتوح اقوام میں غدار کے خاندانوں کی پرورش اور مدمقابل کے عدم برداشت کی ایسی سطح کہ دوبڑی بڑی جنگوں کی تباہیاں اوراس کے بعد اسلحے کی دوڑاور ہمہ وقت سرد جنگ کاتناؤ،سیکولرازم کے وہ منحوس تحفے ہیں جنہوں نے اس زمین کے موسمیاتی و اخلاقی ومعاشی وتعلیمی وسماجی ماحولیات کاستیاناس مارڈالاہے۔اب ماحولیاتی آلودگی کوسیکولرازم نے معاشی جنگ کے ہتھیارکے طورپر اپنالیاہے اور اس آلودگی کونئے شہرآبادکرنے،کیڑے مارزہرکے سپرے ختم کرنے،اکل و شرب میں احتیاط کرنے اورمصنوعی طرزحیات کوترک کرنے کے ذرائع سے ختم کرنے کی بجائے تیسری دنیاکے ممالک کو کہاجارہاہے کہ آلودگی کوختم کرناہے تو کارخانے مت لگاؤ۔تاکہ ان کی مصنوعات فروخت ہوں اورانہیں کی اقوام ترقی کریں اور تیسری دنیاکے ممالک ہمیشہ ان کے دست نگررہیں۔لیکن اب بازی الٹ چکی ہے،اقوام ایشیابیدارہوچکی ہیں اور سرمایادارانہ نظام اپنی بساط لپیٹنے کوہے اور خطبہ حجۃ الوداع کی تعلیمات بحیثیت منشورانسانیت لاگوہواچاہتی ہیں،ان شااللہ تعالی۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
36176