Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہماری معشیت۔۔۔۔۔۔تحریر:میر سیما امان

شیئر کریں:

جب کبھی معشیت کی بات ہوتی ہے۔ہم ملکی معشیت کا ہی رونا روتے رہتے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ ملکی معشیت کا انحصار کس چیز پر ہے؟ آ پ صوبائی سطح کو بھی چھوڑیں صرف علاقائی معشیت پر زرا غور فرمائیں۔تو اپکو احساس ہوگا کہ ہم ملکی معشیت بہتر بنانے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔؟؟

ہمارا علاقائی معاشی نظام کیا ہے؟ اور اسکا انحصار کن چیزوں پر ہے ؟اور عوام کا کردار کیا ہے؟انتہائی سادہ الفاظ میں اگر بات کریں تو چترال کے اندر ملازمت  پیشہ اور کاروباری افراد کی تعداد کتنی ہے؟ ایک بڑی تعداد فارغ بیٹھی ہوئی نظر آتی ہے۔کیوں؟ اور اس کیوں کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس نوکریاں نہیں۔عہدے سفارشات پر بک رہے ہیں جس کی لاٹھی اسکی بھینس وغیرہ وغیرہ۔

چترال کے اندر اگر تجارت کے معیار پر غور کیا جائے تو سوچ کر ہی افسوس ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے علاقے میں محض ڈاؤن ڈسٹرکٹ سے سبزیاں ، کپڑے جوتے لا کر فروخت کرنے کو ہی کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ہماری کاروباری سوچ کے محدود ہونے کا اندازہ آ پ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آج تک علاقے میں کوئی فوڈ اسٹریٹ نہیں نہ ہی فوڈ اسٹریٹ بنانے کی طرف  آ ج تک کوئی رجحان پا یا گیا۔۔۔

حالا نکہ چترال جیسے علاقے بالخصوص چترال ٹاؤن کی یہ  اولین ضرورت ہے۔جس سے نہ صرف عام عوام بلکہ  طلبہ۔ ملازمین ۔مسافر اور سیاح مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ  اسکا قیام علاقائی معشیت کو بھی چار چاند لگا سکتا ہے۔یہی حال چترال میں بننے والے کپڑے چترالی شو(پٹی)  کی ہے ۔جسکی مانگ بین القوامی سطح پر ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ علاقے کے اندر آج تک اسکی مارکیٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہی حال ہمارے علاقائی دستکاریوں کی ہے۔ہما ری  خواتین کوڑیوں کے دام اپنا ہنر بیج رہے ہیں۔کیونکہ علاقے کے اندر مارکیٹنگ کا کوئی نظام موجود نہیں۔ اور یہی حالات ہمارے روایتی کھانوں کی ہے۔۔اپ مجھے پورے چترال میں ایک ایسا ریسوٹورنٹ دکھائیں جہاں روایتی کھانوں کو پرموٹ کرنے کا کوئی قابل تعریف انتظام موجود ہو؟؟؟

یہ تلخ حقیقت ہے کہ چترال کے اندر برسوں سے جتنے چھوٹے بڑے ہوٹلزیاریسٹورنٹس موجود ہیں یہ سب محض اونچی دکان پھیکے پکوان کے مترادف ہیں۔

بات جب علاقائی معشیت کو بہتر بنانے کی ہو۔تو علاقے کے ہر گھر میں کم ازکم اتنی زمین ضرور موجود ہے جہاں وہ کم ازکم گھریلو ضرورت پوری کرنے کے لیے ہی سبزیاں اگا سکیں ۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چترال میں ہر شخص گارڈینگ کا شوقین ہے ۔۔۔ہر دوسرے گھر کے باغیچے میں اپکو رنگ برنگے پھول نظر آئیں گے۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ چترال کے اندر پودوں کی ایک بھی مقامی نرسری موجود نہیں ۔۔

یہ بات باعث شرم ہے کہ ہم ایک نرسری لگانے تک کی ہمت نہیں رکھتے۔کیا اپکو نہیں لگتا کہ چترال آہستہ آہستہ غیر لوگوں کے سپرد ہو رہا ہے۔اپ بڑے شہروں کے کسی بھی نرسری میں جائیں چنار کا ایک چھوٹا سا شاخ اپکو پانچ ہزار تک کی قیمت میں ملے گا۔۔یہاں پورا چترال باقی پودوں کو چھوڑیں چنار کے درختوں سے ہی بھرا پڑا ہے۔لیکن چترال کا ایک بھی باشندہ ان سے  فائدہ اٹھانے کی نہیں سوچتا۔۔

اگر آپ کاروباری دماغ رکھتے ہیں تو موجودہ حالات میں چترال کے اندر سستے اور معیاری ریسوٹورنٹس ۔ شادی ہالز ۔معیاری پیکجز کے ساتھ ٹیکسی سروسز ۔سیاحوں کے لیے پروفیشنل گائڈز وقت کی اولین ضرورت ہیں۔ہمارے اردگرد ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے۔جنکا سارا وقت یا تو سوشل میڈیا میں بک بک کرتے ہوئے گزرتا ہے یا پھر محلے کی دکانوں پر۔۔جن سے نہ صرف انکا وقت برباد ہوتا ہے بلکہ اہل محلے کے لیے بھی یہ تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔حا لا نکہ انکے پاس کوئی اور ٹیلنٹ ہو نہ ہو ذہانت ہے۔

اگر آپ کالج یا یونیورسٹی کے طلبہ ہیں ۔جس سبجیکٹس میں آپ بہتر ہیں آپ جونیئرز کو ان سبجیکٹس پر ٹیوشن دے سکتے ہیں۔اگر آپ ڈرائنگ یا سکیچینگ میں مہارت رکھتے ہیں ہیں تواپ کسی بھی ایجوکیشن ادارے سے منسلک ہوکر اپنی اس ہنر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اگر آپکی گرائمر اچھی ہے تو آپ سکول کالجز یا اکیڈمی نہ سہی محلے کے بچوں کی بھی انگلش پرونسیشین ٹھیک کرنے میں انکی مدد کرسکتے ہیں۔

یہاں پر انتظامیہ اور اداروں کی بھی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ مواقع فراہم کریں۔۔ ہماری سکولز اور کالجز میں کم از کم ایک زیرو پریڈ تو ایسا ہو نا چاہیے جہاں  سکلز ڈویلپمنٹ کا پروگرام رکھا جائے۔۔۔چترال کے اندر  روزمرہ کا سودا سلف منگوانا،سلائی مشین واشنگ مشین ٹھیک کروانا یا پھر پوسٹ آفس سے کچھ منگوانا یا بھیجنا ہمیشہ سے ہی خواتین کے لیے بہت  بڑے مسئلے رہے ہیں۔

گو کہ چند نوجوانوں نے ڈیلوری سروس کا آغاز کرکے کسی حد تک اس مسلئے کو ختم کردیا ہے لیکن یہ سروس پورے چترال کو کور نہیں کرتی ۔ہمارے ہر علاقے میں بیسیوں نوجوان زاتی موٹر بائیکس اور کار  رکھتے ہیں اور فارغ الاوقات ہونے کی وجہ سے بے وجہ مٹر  گشت کرتے رہتے ہیں ۔۔۔ حتی کہ خود انکے اپنے گھر والے بھی ان مسائل کا شکار رہتے ہیں۔بجائے ہینکی پھینکی میں وقت برباد کرنے کے اگر یہ نوجوان سوشل گروپ تشکیل دیں اور اپنے علاقے کے لیے  ڈیلوری سروس کا آغاز کریں تو نہ صرف انکا اپنا مالی فائدہ ہوگا بلکہ گھریلو خواتین کی بھی ایک بڑی پریشانی  ختم ہوجائیگی۔۔

ان ساری باتوں کو لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ موجودہ وقت نہ تو محض ڈگریوں پر فخر کرنے کا ہے نہ ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے کر سر کاری نوکریوں کا انتظار کرنے کا، اور نہ پدر من سلطان بود کا۔۔۔

یہ دور خود انحصاری کا دور ہے۔اپنے ارد گرد دیکھیں آپ  کے پاس سینکڑوں آپشنز ہیں ۔یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی دماغ حتیٰ کہ کوئی چیز بے فایدہ نہیں بنایا۔۔فرق صرف اسے استعمال میں لانے کا ہے۔۔

آخر میں صرف اتنا کہونگی کہ آپ چاہیں تو اس مضمون کو مشورہ مفت ہے کا عنوان دے سکتے ہیں اور چاہیں تو استعمال میں لاسکتے ہیں ۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
36172