Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آرزوئے سحر۔۔۔۔۔دیسی منافق اور پاکستان۔۔۔۔تحریر: انشال راٶ

شیئر کریں:

دیسی منافقین کا پاکستان اور افواج پاکستان سے بغض کوئی نیا نہیں اور ملک و ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جس طرح ایک عورت کرنل کی بیوی کی آڑ لیکر پورے ادارے کو نشانہ بنایا گیا جسے بھارتی میڈیا و پروپیگنڈسٹ نے اور بھی زیادہ اچھالا وہ بالکل وہی صورت ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے کہ یہود اور مشرکین اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں اور تاریخ سے واضح ہے کہ یہود نے ہمیشہ پیچھے رہ کر سازشیں کیں جبکہ مشرکین کھل کر سامنے آئے، اس کے ساتھ ساتھ ایک طبقہ منافقین کا بھی رہا جس نے اندر رہ کر سازشیں کیں اور دشمن کو فائدہ پہنچایا بالکل اسی طرح پاکستان کو بھی آغاز سے ہی ایک طرف دیسی منافقین کی سازشوں کا سامنا رہا تو دوسری طرف ازلی دشمن بھارت کھل کر ہمارے وجود کو تباہ کرنے پہ تُلا رہا، یہی وہ فکر لاحق تھی جو قائداعظم کی زبان پر آخر وقت بھی رہی جسے بابائے قوم کے ذاتی معالج نے اپنی یادداشت میں تحریر کیا کہ آپ نے فرمایا “پاکستان میں سب کچھ ہے اس کے پہاڑوں، ریگستانوں، میدانوں میں نباتات و معدنیات ہیں جنہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے، قومیں نیک نیتی، اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں جبکہ اخلاقی برائیوں، منافقت، زرپرستی اور خودپسندی سے تباہ ہوجاتی ہیں” آج اگر مجموعی قوم کا سطحی جائزہ لیا جائے تو اوپر والے طبقے کا حال کس سے مخفی ہے کہ زرپرستی و خودپسندی میں یہ طبقہ کہاں پہنچا ہوا ہے، منافقت کا یہ عالم ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے دعا کرنے کے جرم میں مولانا طارق جمیل کو بلاجواز ہدف تنقید بنائے رکھا، حامد میر صاحب تو ساری حدیں پار کرگئے مولانا طارق جمیل پہ کالم لکھا جس میں یہ کہا گیا کہ علما کا کام صرف نماز روزہ ہے باقی روزمرہ زندگی کے معاملات و معاشرتی امور سے ان کا کوئی تعلق نہیں اس کے لیے محض چند سو خاندانوں کا حق ہے، میر صاحب نے دلیل کے طور پر امام ابو حنیفہ کا واقعہ توڑ مروڑ کر پیش کیا کہ آپ نے قاضی القضاة کا عہدہ قبول نہ کیا اور ثابت کیا کہ علما کو سیاسی معاملات و امور حکومت سے دور رہنا چاہئے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ امام ابو حنیفہ نے وہ عہدہ اس لیے قبول نہ کیا کہ امام صاحب جاگیرداری و غیرحاضر زمینداری کو جائز قرار دینے پہ راضی نہیں تھے جسکے لیے انہیں یہ عہدہ پیش کیا گیا، کیا ہی عجیب دانشوری ہے کہ فضل الرحمان کا گروہ جو کرے تو وہ ہپ ہپ اور اگر ملک و قوم کے حق میں کوئی اور عالم دین آجائے تو وہ ناجائز۔ دیسی منافقین کا یہ حال ہے کہ کتنا ہی اچھا یا ترقی کا عمل ہو لیکن اس طبقے کا دودھ میں مینگنیاں ملا کر خراب کرنا ہی مقصد ہے جیسا کہ پاکستان کی طرف سے امریکہ کو امدادی سامان بھیجا گیا جوکہ ایک تاریخی باب ہے کہ آج باجوہ ڈاکٹرائن اور موجودہ حکومت کی نیک نیتی و بہترین کارکردگی کا زندہ و جاوید ثبوت ہے کہ امریکہ جیسا ملک خواہ اسے ضرورت نہ ہو لیکن پاکستان کا امدادی سامان قبول کرتے ہوے شکریہ پاکستان کہنے پہ مجبور ہوا ورنہ وہ وقت بھی تھا کہ حکومتی اعلیٰ شخصیات تک کے کپڑے اتار کر اسکین کیا جاتا تھا لیکن افسوس ان دیسی منافقوں پر کہ ان سے عزتیں اترنا قبول لیکن ملکی عزت و وقار قبول نہیں اور جو کام بھارت نہ کرسکا وہ یہ حضرات بخوبی انجام دے رہے ہیں، وہ وقت بھی تھا کہ دنیا میں پاکستان کو ناکام ریاست کے طور پر لکھا جانے لگا، کہا جانے لگا کہ پاکستان کی الٹی گنتی شروع اور اب یہ مرد بیمار بستر مرگ پر آخری ایام گن رہا ہے لیکن قربان ملک و قوم کے جانباز محافظوں پہ کہ جو آگ مجموعی طور پر قوم پہ برسنی تھی وہ اپنے سینوں پہ جھیل کر دشمنوں کو خاک چاٹنے پہ مجبور کردیا تو مجھے اقبال کے خطبے کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں کہ ” محسوس ہوتا ہے یہ تقدیر مبرم ہے کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک اسلامی ریاست قائم ہوگی اور اگر ایسا ہوگیا تو ہمیں موقع مل جائے گا کہ دنیا کو اسلامی تعلیمات کی اصل صورت دکھا سکیں” لیکن افسوس جلد ہی قائداعظم و لیاقت علی خان کی دنیا سے رخصتی کے بعد لیڈرشپ کا خلا پیدا کردیا گیا اور تدریجاً جاگیرداروں و سرمایہ داروں نے قدم جمانا شروع کردئے، اور جس طرح برگد کے درخت کا پھیلاٶ بڑھتا ہے تو اس کی شاخوں سے انسانی داڑھی نما اضافی جڑیں نیچے اترتی جاتی ہیں جو زمین تک پہنچ کر نہ صرف زمین سے غذائیت حاصل کرکے پہنچاتی ہیں بلکہ ستونوں کا کام بھی دیتی ہیں بعینہ چند سو قابض خاندان جتنا پھلتے پھولتے گئے اسی قدر اپنے وفاداروں و خدمت گزاروں کو منصب، عہدے، پلاٹ، قرض معافی، سبسڈی اور ٹھیکوں سے نواز کر اپنی گرفت مضبوط کرتے گئے اور اگر اس سے زرا اوپر یعنی عالمی لیول پہ جائیں تو کون ہے جو نہیں جانتا کہ عالمی طاقتوں کے مفادات کن سے وابستہ رہے اور کس کس طرح وہ اپنے خدمت گزاروں کو مستفید کرتے رہے، اسی لیے تو صدر پاکستان کہنے پہ مجبور ہوے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ملک و قوم کا ہر طرح سے استحصال کیا گیا اور بانی متحدہ نے 2017 میں کراچی والوں سے خطاب کرتے ہوے Thought Provoking لیکچر میں ایک خوفناک انکشاف کیا تھا کہ “ن لیگ قرضے لیکر پنجاب پہ اس لیے لگا رہی ہے کہ عنقریب پاکستان کی تقسیم ہونی ہے اور پنجاب ان کے حصے میں آئیگا، سندھ پر زرداری خاندان اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے جبکہ KPK و بلوچستان کے پشتون علاقوں اور افغانستان کو ملاکر پشتون ریاست پر اچکزئی و ANP والوں کی اجارہ داری ہوگی اور مہاجروں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ تم بھی اپنی تیاری رکھو” اگر پچھلی ایک دہائی کے واقعات و حالات کو سامنے رکھ کر اس انکشاف کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تو تھا جسکی پردہ داری رہی، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے افواج پاکستان نے محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ مل کر یہ تمام خواب چکنا چور کردئیے تو اب دیسی منافقوں کا جتھا افواج پاکستان کو برداشت نہیں کرپارہا اور دوسری طرف ان کے بیرونی و اندرونی آقا تو ہیں ہی اپنی اپنی بادشاہت کے دفاع میں، زرا سوچئے کہ اتنے سالوں سے سبسڈی، قرض معافی اور ٹھیکوں و معاہدوں کی آڑ میں ملکی استحصال جاری رہا تو کسی کو تکلیف نہیں ہوئی اور اب آکر اگر عمران خان نے اس کھیل کو بےنقاب کر ہی دیا ہے تو دیسی منافق بجائے لوٹنے والوں سے سوال کرنے کے الٹا کپتان کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں جو انتہائی مضحکہ خیز بات ہے، میں یہ سوچ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ ملک کے چھوٹے بڑے سرکاری عہدوں و ملازمتوں کے آرڈرز چند خاندانوں کی اوطاقوں اور ڈیروں سے بنٹتے رہے، پبلک سروس کمیشن اوپر سے آنیوالی لسٹوں پہ سلیکشن کرتے رہے تو کبھی کسی کو معیوب نہ لگی لیکن اگر کوئی سابق فوجی افسر میرٹ پہ کہیں تعینات ہوجائے تو دیسی منافقوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں ہوجاتی ہے، چین ہو یا یورپ مرد بیمار ترکی، روس ہو یا جرمنی آج اگر دنیا کی طاقتور قومیں بن کر سامنے آئی ہیں تو ان سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ دیسی منافقوں کے لیے زیرو ٹالیرینس رہی اب پاکستان کے لیے بھی لازم ہے کہ سب سے پہلے فتنہ پرست گروہ دیسی منافقین کو ان کے انجام تک پہنچائے تو قوم کو گمراہ کرنے والا کوئی نہ ہوگا پھر غلط کو غلط اور صحیح صحیح پیش کیا جاسکے گا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
35877