Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سانحہ ء بارہ مئی کے حقیقی ہیرو ۔۔۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

شیئر کریں:

12مئی2007کوکراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن شمار کیا جاتا ہے، جب ایک ایسے نظریہ تشدد کے خلاف قیمتی جانوں کی قربانیاں دی گئیں، جس کو کسی بھی زرتلافی سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔  عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے لئے اہل کراچی نے اپنے خون سے تاریخ لکھی۔اس سانحے کے لواحقین انصاف کے حصول سے مایوس ہوچکے، صرف چند برسوں میں نظروں کے سامنے لکھی جانے والی تاریخ حرف آخر کی طرح، جیسے مٹادی گئی۔ تاریخ کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ کراچی میں کشت و خون کی کئی ہولیاں کھیلی جا چکی ہیں، لیکن اس سانحے نے جس طرح دماغوں کو مفلوج کیا، ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی کل کی بات ہو۔ نیوز چینلز براہ راست وہ مناظر دکھا رہے تھے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صرف اُن میڈیا ورکرز کی وجہ سے ممکن ہو پایا، جو میدان جنگ میں فرنٹ لائن پرصرف قلم اور کیمرے کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے۔


 میڈیا کارکنان نے پوری قوت کے ساتھ فسطائیت کے اُن چہروں کو بے نقاب کیا، جو آئندہ آنے والے برسوں میں تصور بھی نہیں کئے جاسکتے۔بارہ مئی سے قبل ہی علم ہو چکا تھا کہ ائیرپورٹ پر جانے والے قافلوں کو بزور طاقت روکا جائے گا۔ اُس وقت کی صوبائی حکومت کو طاقت کا غرور اسلام آباد کی آشیر باد سے ملا تھا۔ سیاست کو ہمیشہ مفاہمت کا نام دیا جاتا رہا اور یہ بھی مانا جاتا ہے کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا، لچک دار رویہ ہی دراصل سیاست ہے۔ لیکن سیاست میں موقع سے فائدہ نہ اٹھانا، بدترین بے وقوفی قرار دی جاتی ہے۔ دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر اگلی صفوں میں جانا سیاسی بازی گری مانی جاتی ہے۔ یہی کچھ اُس دن ہواجو سانحہ ء بارہ مئی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔


مضافاتی علاقوں سے گاڑیوں کے جلوس نکلنے سے قبل سیاسی جماعتوں کے کچن کیبنٹ کے اجلاس منعقد ہوئے کہ حالات کسی انتہائی ناخوشگوار معاملات کی جانب اشارہ کررہے ہیں، اس لئے حتمی طور پر ایک بار پھر سوچ لیا جائے کہ تصادم کی راہ سے گریز ہوسکے تو زیادہ بہتر ہو۔ میڈیا ورکر ز کو ادرک ہوچکا تھا کہ معاملات، سیاسی جماعتوں کی سوچ سے بھی زیادہ سنگین ہے،لیکن اُن کے مشوروں کو سُناتک نہیں جارہا تھا، ماننا تو بہت دور کی بات تھی، واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ یہ کسی بھی سیاست دان کے لئے بڑا ”سنہرا“ موقع ہے کہ وہ اپنی سیاست کو چمکا سکتا تھا، اگر کچھ تحفظات ظاہر بھی کردیئے جاتے تو شک کی نظر سے دیکھا جاتا کہ”دشمنوں“سے تو نہیں ملا ہوا۔کراچی لسانی اکائیوں کا خوب صورت گلدستہ ہے، لیکن پھولوں کے ساتھ کانٹے بے احتیاطی کرنے والے کو تکلیف ہی پہنچا تے رہے ہیں۔ شہر قائد کی سیاست میں لسانی گروہ بندی و فرقہ وارانہ فسادات سے بے امنی کی تاریخ کئی بار لکھی جاچکی، سانحات کے اتنے دور گذرے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ ہمارا کراچی کتنی بار پل صراط سے گذرا۔


گولیوں کی ترتراہٹ اور گاڑی،بسوں میں خون کی ندی بہنا ایک درد ناک خواب جیسا ہے، نہتے عوام جس طرح فسطائیت کا نشانہ بن رہے تھے، آج بھی تاریخ کے اُن سیاہ باب کومٹایا نہ جاسکا۔ جن کے پاس ذاتی تحفظ کے لئے حفاظتی اسلحہ موجود تھا، وہ بھی اُن جارح پسندوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے، جنہوں نے اسلحے کے انبار کے ساتھ نہتے سیاسی کارکنوں اور میڈیا ہاؤسز سمیت میڈیا ورکرز پر حملے کئے۔ یہ واقعی قیامت صغریٰ تھی جو کراچی میں بَرپا تھی۔شنید ہے کہ اُس وقت پنجاب سے بھی کہا گیا تھا کہ منصف اعظم کو بزور طاقت سے روکا جائے لیکن چوہدری بردارن نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا تھا، لیکن کراچی کے نام نہاد خیر خواہوں کے منہ کو خون لگ چکا تھا،انہوں نے سوچا کہ دنیا عزیز آباد سے شروع ہوتی ہے اور لائنز ایریا پر ختم ہوجاتی ہے۔میڈیا ورکرز اپنے جانوں پر کھیل کر ایک ایک منظرکو محفوظ کررہے تھے، لیکن اُن کو تحفظ دینے کے بجائے گالیاں، دہمکیاں،گھروں میں بوریوں میں کتوں کی لاشیں اور سر پر پیوست کرنے والی نائن ایم ایم کی گولیاں ہی دی جاتیں۔


لسانیت ہو یا قوم پرستی، اُس کے بعد کراچی کی زمین کو خون سے سیراب کرنا مقدرٹھہر گیا، کچھ لوگوں کو اربوں روپے فنڈز ملنے لگے تو کچھ جماعتوں کو سیاست میں زندہ رہنے کا موقع۔شہر قائد کا نقشہ ہی بدل گیا اور پھر کراچی آپریشن فیز ون تا تھری تک، معاشی حب کے ساتھ جو ہوا، وہ تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے، جسے بھلانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہر برس پھر بارہ مئی آجاتا ہے۔ میڈیا منجمنٹ کے نام پر میڈیا کو اس طرح یرغمال بنایا گیاکہ وہ پَر بھی نہیں مار سکتے تھے۔ آج کل میڈیا کی آزادی کی بات کی جاتی ہے، کیا اُس دور سے بُرا دور کبھی دیکھا گیا کہ پرائم ٹائم سے اینکرز کوچٹکی بجا کر یرغمال بنا لیا جاتا اور گھنٹوں عوام کو وہ کچھ سننا پڑتا جو وہ کبھی بھی نہیں چاہتے تھے۔ آج میڈیا کتنا آزاد ہے اور کتنی پابندی ہے، اس پر کچھ کہنا لاحاصل ہے، کیونکہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ آج دنیا بھر میں طب سے وابستہ افراد کو ہیرو مانا جارہا ہے انہیں سلامی دی جاتی ہے، سیکورٹی فورسز ہیرو ہیں، سیاسی جماعتوں کے کارکنان، لیڈر ہیرو ہیں، لیکن میڈیا کے کارکنان کسی کے ہیرو کیوں نہیں۔ میڈیا کے کارکنان کے لئے کوئی جھنڈے نہیں لہراتا نہ واٹس ایپ گروپ بنا کر دس سیکنڈ کا کلپ نشر کیا جاتا ہے کہ صحافی ہمارے حقیقی ہیرو ہیں۔


بارہ مئی سے پہلے یا بعد میں، آج تک میڈیا ورکرز نے فرنٹ لائن پر آکر حقائق عوام کے سامنے لائے۔ میں اُن اینکر پرسن کی بات ہی نہیں کررہا جن کو کریڈٹ لائن تک کا علم نہیں، سانحہ بارہ مئی میں سیاسی کارکنان نے فسطائیت کے خلاف مقابلہ کیا تو دوسری جانب میڈیا ورکرز نے اپنی جانوں پر کھیل کروہ الم ناک واقعات محفوظ کئے جن کو اب توڑ رمروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق کو جس طرح میڈیا ورکرز سامنے لائے، آج سانحہ بارہ مئی اگر زندہ ہے تو ان میڈیا ورکرز کی وجہ سے ہی ۔حقیقی ہیرو میڈیا ورکر تھا اور رہے گا۔ میڈیا ورکرز نے آگے بڑھ کر ہمیشہ سچ کو سامنے لانے کی حتی المقدور کوشش کی، لیکن جس کی جتنی حدود ہے بس، اُس کے بعد SOP (Standard operating procedure)ہیں، جس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔


شیئر کریں: