Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہمارے ڈاکٹرز ہمارے مسیحا……..تحریر: سردار علی سرداؔر ا پر چترال

شیئر کریں:

                                                                              

اسلام ایک خوبصورت اور فطرت کے عین مطابق جامع  اور مکمل دین ہے جس کی خوبصورتی کا یہ عالم ہے کہ اس میں ہر چیز  اپنی رعنائیوں اور دلکشی کے ساتھ خدمت کے جذبے سے سرشار ہے ۔مثال کے طور پر جب ہم سورج کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ دنیا کو روشنی اور حرارت پہنچانے  کے  لئے اپنی خدمت پر مامور ہے۔  آسمان پر گہرے بادل  جب سمندروں کے بخارات  سے ٹکراتے ہیں تو بارش  بن کر مردہ زمین کو نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔ اسطرح  زمین  پر بسنے والے حیوانات بھی انسانوں کی خدمت کے لئے ہی  مامور ہیں ۔ اُن میں سے کوئی بوجھ اُٹھاکر اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے تو کوئی دودھ کے ذریعے خوراک پہنچاکر  انسانوں کی پرورش میں اپنا مثبت کردار ادا کررہا ہے۔ گویا یہ تمام ذی روح اپنی اپنی خدمات پیش کرکے فطرت کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کردیتے ہیں۔

مختصر یہ کہ فطرت کے جس حسین نظارے   پر نظر  داوڑائیں تو  قدرت کی کرشمہ سازی کے شاہکار ہر ذی عقول انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کی خلقت کی ان تمام مہربانیوں پر اگر سجدہ شکر بجالایا جائے تو بھی کم ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں ایسا خوبصورت نظام وضع کیا گیا ہے کہ ہر چیز خالق کی طرف سے اُس کے بندوں کی خدمت کے لئے تیار  اور مامور ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں  خدمت کے اس فلسفے کو اگر  دیکھ لیا جائے  تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ انسانوں کی خدمت ہی در اصل عین عبادت ہے۔ دنیا میں بہترین انسان وہ ہے جو اپنے ذاتی  پسند و مفادات کو بلائے طاق رکھ  کر    دوسرے  انسانوں کی خدمت کو اپنا شغار بنائے۔ درحقیقت انسان کی پیدائش کا مقصد ہی ایک دوسرے کے ساتھ  نیکی کے کاموں میں تعاون،ہمدردی اور ایک دوسرے کی بےلوث خدمت  ہے۔جیسا کہ خداوند تعالیٰ  (2:5نے ارشاد فرمایا ہے۔وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۔ (

 نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو۔

اس آیت ِ کریمہ میں  بِر اور تقویٰ  کے دو   پرُ حکمت اور علم و دانائی کے بہت ہی  خوبصورت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق  اُن کی تشریحات  اگرچہ مختلف ہوسکتی ہیں ۔تاہم انسانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاطر اچھا برتاو کرنا اور بیمار انسانوں کی خدمت کرتے ہوئے اُن کے علاج معالجے کے لئے اپنا وقت اور اپنی توانائی صرف کرنا ہی در اصل برۤ اور تقویٰ کے ذمرے میں آتا  ہے۔اس اہم کام کو انجام دینے والا طبیب ہی ہوتا ہے جسے آج کل کی زبان میں ڈاکٹر کہتے ہیں۔

ڈاکٹر ز ہمارے معاشرے کے باعزت طبقہ ہیں جن کا کام  بیماری کی تشخیض کے ساتھ ساتھ  بیماروں کے سا تھ حسنِ سلوک  یعنی اُن کے ساتھ اچھی گفتگو،ان کی حوصلہ افزائی   اور اُن کا علاج کرنا  ایک اچھے ڈاکٹر کی صفات  اور اُن کی ذمہ داریوں میں  شامل ہیں جس کی وجہ سے ہہمارے ڈاکٹرز کو مسیحا کے مقدس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔کیونکہ اُن کا کام ہمیشہ بیماروں ،معزوروں اور صحت کے مختلف مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ایک مریض جو زندگی سے ہارچکا ہوا ہوتا ہے اُن کی اچھی  خدمت کرکے اُ س کو نئی زندگی دینا ہی یقیناََ مسیحا کا کام ہوتا ہے۔ہسپتال میں جب ایک مریض آتا ہے تو اُس کی یہ  امید ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر کے علاج اور دوائی سے ضرور شفا پائے گا اور یہ امید ہی اس کو نئی زندگی عطا کرتی ہے۔

ایک پروفیشنل اور مستند ڈاکٹر ہی بیمار انسان کی نفسیات کو اچھی طرح جان سکتا ہے کہ اُس کے ساتھ کس طرح بات  چیت کرنی ہے اور بیمار کو کس قسم کی دوائی سے شفا یابی دلائی جاسکتی ہے۔ میرے خیال میں دوائی سے زیادہ ڈاکٹر کی شرین اور خوش اخلاق گفتار  ہی بیمار کی دوا کے لئے مسیحا کا کام دے سکتا ہے۔اگر ڈاکٹر کی زبان تلخ  اورکڑوی ہو تو مریض کی بیماری کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ بلکہ مریض ایسے ڈاکٹر سے علاج کرنے کے بجائے گھر پر مرنے کو ترترجیح دے گا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ڈاکٹرز کی  ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بیماروں سے خوش اخلاقی اور شرین زبان سے گفتگو کریں ۔ ڈاکٹرز  کی بھی یہ  اولین خواہش ہوتی ہے کہ مریض کسی نہ کسی طرح  تندروست اور صحت مند ہوکر اپنے گھر چلا  جائے،کم و بیش ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹرز کی محنت اور کوشش کے باوجود  مریض اجل کو لبیک کہتا ہے ۔لیکن ڈاکٹرز کی محنت اور جانفشانی کو داد دیجئے کہ وہ آخیری دم تک اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مریض کی جان بچانے کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں۔کیونکہ میڈیکل کی دنیا میں اُن کو شروع ہی سے یہ تعلیم دی  گئی ہے ۔وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا( 5.32)جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا وہ پوری انسانیت کی جان بچائی۔

اس آیہ کریمہ پر اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ایک  انسان کے اندر بحدِۤ قوت پوری انسانیت بسی ہوئی ہے۔ اس لئے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پوری انسانیت کی سلامتی اور زندگی دینے والے دراصل مسیحائے روزگار ہوتے ہیں اور وہ ہسپتالوں میں ہر وقت مریضوں کے ساتھ رہنے والے ہمارے معزز  ڈاکٹرز، نرسیس اور پیرامیڈیکس  ہوتے ہیں جن کی پوری زندگی بیماروں کے ساتھ بسر ہوتی ہیں ۔کیونکہ دنیا میں مشکل ترین کاموں میں سے ایک مشکل کام بیمار کے ساتھ ڈیلنگ کرنا ہے۔

درحقیقت یہ مسیحا  ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺکے مشن کے  اُن   پرجوش اصحاب کرام   رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی راہ پر ہیں جنھوں نے دین کی بےلوث خدمت کے لئے نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ ۔[61.14] یعنی ہم خدا کی مدد کرنے والے  ہیں ،کا نعرہ بلند  کیا تھا  ۔ آج اُسی نعرے کا عملی اظہار ہمار ے معزز ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس  اور صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام خواتین و حضرات ہیں جنہوں نے وبا کے ان ناگفتہ حالات میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بیماروں کی قیمتی جانوں کو بچانے کے لئےشب و روز برسرِ پیکار ہیں۔

مذکورہ بالا آیت   میں مدد کے حوالے سے یہاں ایک نکتے کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی کم علمی اور ناتوان حیثیت کو لیکر خدائے بزرگ و برتر کے ساتھ مدد اور تعاون کس طرح کرسکتے ہیں؟ جبکہ خدائے ذوالجلال کی ذات کامل ، بےنیاز  اور  ہر چیز پر قادر ہے۔ اُس کے سوا ہرشئی نامکمل  اور ناپختہ ہے۔اہلِ دانش کو معلوم ہے کہ اللہ کا تعلق اُس کے بندوں کے ساتھ وابستہ ہے لہذا خدا کی رضا مندی خدا کے بندوں کے ساتھ مضبوط  رشتہ استوار کرنے میں ہے۔ اور یہ مضبوط رشتہ خدا کے بندوں کے ساتھ اُن کے دکھ درد میں شرکت، اُن کی ضروریات حتیٰ کہ اُن کے بھوک، پیاس ، بیماری کے وقت اُن کی تیماداری جیسے حالات میں اُن کی خبرگیری کرکے اُن کی ضروریات کو پورا کرنا شامل ہے۔جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں  فرمایا گیا ہے کہ “اور بروزِ حشر اللہ فرمائے گاکہ اے فرزندِ آدم ! میں بیمار پڑااور تو نے میری عیادت بھی نہیں کی۔وہ پوچھے گا کہ اے میرے رۤب تو تو رۤب العالمین نے اُس کی عیادت نہیں کی۔ تجھے علم نہیں کہ اگر تو اُس کی عیادت کرتا تو مجھے اُس کے پاس پاتا”۔

         ( کاوش : ذوالفقار علی جیسانی ص 101 کراچی: اپریل 2007) 

اس حدیثِ قدسی سے یہ حقیقت واضح ہے کہ خداندِ قدوس کو ان تمام چیزوں کی کوئی  ضرورت نہیں ہے ضرورت ہے خدا کے بندوں کی جنہیں سہارے ، حاجت روائی اور بیماری کے وقت تیمارداری اور علاج و معالجے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کرنے، مصائب و مشکلات میں مدد اور تعاون کرنے اور اپنے  جیسے انسانوں کے لئے جذبہ، خدمت، اور اپنائیت کا احساس پیدا کرنے سے انسانیت اپنے معراج کو پہنچتی ہے ۔ طرزِ معاشرت ، رہن سہن اور بودوباش کے طور طریقوں اور دوسرے انسانوں سے غافل انسان آج کی دنیا میں جی نہیں سکتا ۔ باہمی اشتراک، تعاون اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر مصائب کا مقابلہ کرنے کاجذبہ  یقیناََ انسان کو کامیابی تک پہنچا سکتا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم بہ حیثیت اچھے انسان اور اچھے مسلمان بن کر دوسروں کے فائدے کے لئے کوشش کریں جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ خَیرُ النَاسِ مَن یَنفَعُ الناَس۔یعنی “بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے”۔ (گلستانِ حدیث ص 34 مولانا جعفر شاہ پہلواری)

مذکورہ بالا حدیث پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ  ہمیں دوسرے انسانوں کی خدمت اور فائدہ پہنچانے کے ذرائع کو سب سے پہلے سمجھنا ہوگا کیونکہ خداند تعالیٰ نے اپنے کمال مہربانی سے بہت سی نعمتوں سے اپنے بندوں کو نوازا ہےجن کے ذریعے سے وہ ایک دوسرے کی بھلائی اور بہبودی کے لئے استعمال کریں گے ۔ ان نعمتوں میں انسان کی جسمانی قوت، ذہنی صلاحیت ، علم وقت، مال و دولت اور ہر انسان کی پیشہ ورانہ صلاحیت وغیرہ   سب شامل ہیں۔اگر ان کو انسانیت کے مفاد کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ  پیدا ہوتا ہےاور اسی خدمت کو قربانی کے عظیم نام سے بھی  یاد کیا جاتا ہے اور قربانی بغیر عشق و محبت کے نہیں دی جاسکتی اوریہی عشق و محبت انسان کی طمانیتِ قلبی کا ذریعہ بنتی ہے۔ خوشی کے حصول کی خواہش ہی تمام انسانی سرگرمیوں کے لئے بنیادی محرک کا کام دیتی ہے۔

لیکن یہ خوشی بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں ملتی بلکہ یہ  خوشی اُن لوگوں کومیسر ہوتی  ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو انسانوں کی فلاح وبہبود کے لئے وقف کیا ہو۔ دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا مشن بنایا  ہوں اور شمع  کی مانند خود تو جل کر دوسروں کو روشنی پہنچاتا ہو ۔ جس کا عملی اظہار وبا کے دنوں میں ہم  ہر روز دیکھتے ہیں کہ ہمارے چند  مسیحا ، ہمارے ڈاکٹرز انسانوں کی جانوں کو بچاتے ہوئے خود بھی اس وبا میں مبتلا ہوکر دائمی شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ ہم گلگت بلتستان کے اُس عظیم مسیحا  ڈاکٹر ریاض  اُسامہ کو کیسے بھول سکتے ہیں ۔ہم پشاور حیات آباد کے اُس ہنرمند ڈاکٹر محمد جاوید کو کیسے فراموش  کرسکتے ہیں ۔ ہم کراچی کے اُس عظیم ڈاکٹر فرقان کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی جان کی پرواہ کئے بغیر بیماروں کی جان بچاتے ہوئے خود امر ہوگئے۔ سلام ہو اُن پر اور اُن کے خاندان پر  ۔

اس کے علاوہ پاکستان  کے مختلف  ہسپتالوں میں اس وقت ۱یک سو پچاس سے زیادہ ڈاکٹرز، نرسیس اور پیرامیڈیکس کورونا   وائرس کی وبا سے مریضوں کی جان بچاتے ہوے خود متاثر ہوگئے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ان سب کو صحت  اور تندرستی  دے اور اُن کو  مذید  بیماروں کی بہتر خدمت کرنے کی اعلیٰ توفیق عنایت فرمائے۔  

مختصر یہ کہ ہمارے ڈاکٹرز ہمارے مسیحا ہیں جنہوں نے پاکستان کے اندر یا باہر مختلف ہسپتالوں میں  وبا کے ان ایّام میں اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر کورونا سے متاثر بیماروں کی علاج  اور اُن کو نئی زندگی دینے کے لئے   اپنی اپنی خدمات شب و روز ایک کرکے  انجام دے رہے ہیں۔ درحقیقت یہ خدمت عبادت سے کم نہیں اور اس کا صلہ دونوں جہاں میں پروردگارِ عالم اُن کو عطا فرمائے۔ ہم اُن تمام مسیحاوں  کو  جو ڈاکٹرز، نرسیس اور پیرامیڈیکس کی صورت میں اپنی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں، کو  دل کی گہرائیوں سے سلام  پیش کرتے ہوئے  اپنے دل میں اُن کے لئے عزت ،احترام اور محبت کے ساتھ “ہمیں تم سے پیار ہے” ہے کا یہ خوبصورت   گیت  ڈیڈیکیٹ کرتے ہیں۔ اور اُن کے حق میں یہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگارِ عالم اُن کو سلامت رکھنے کے ساتھ ساتھ مذید خدمت کرنے کی طاقت اور ہمت عطا   فرمائے۔کیا خوب فرمایا  سعدی شیرازی رح نے

ہرکہ خدمت کرد او مخدوم شد  

ہرکہ خود را دید او محروم شد

ترجمہ: جو بھی انسانیت کی خدمت کرے وہ قوم کا خادم ہوتا ہے جو کوئی اپنے اپکو دیکھ کر خدمت سے دور رہے وہ محروم رہتا ہے۔

وما علینا الالبلاغ


شیئر کریں: