Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش…..کرونا اور خدا ….. تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

شیئر کریں:

آجکل پو ری دنیا پر کرونا ایک دہشت خوف اور ڈپریشن کی طرح سوار ہے‘ موجودہ دور کا انسان تین سو سالہ ترقی کے بعد اس زعم میں مبتلا ہو گیا تھا اگر پیسہ وسائل اچھے ملک میں آپ ہیں تو آپ کی زندگی پر سکون کامیاب خو شگوار اور حفاظت سے گزر سکتی ہے محلے میں ایسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں جو یہ کہہ کر پاکستان چھو ڑ گئے یہاں کے حالات ٹھیک نہیں‘ سیکورٹی تو بلکل بھی نہیں جس کا جب دل کر تا ہے آپ کو لوٹ لیتا ہے سڑک پر گھروں میں گھس کر آپ کو اغواکر کے ساری زندگی کی کمائی نچوڑ لیتے ہیں یہاں پر نظام حکومت ٹھیک نہیں میں پڑھ لکھ گیا ہوں میرے پاس وسائل ہیں ترقی یافتہ ملک میں سیٹ ہو نے کے مواقع موجود ہیں اِس لیے میں اب کسی ترقی یافتہ ملک میں جا کر سیٹ ہو جاؤں گاپھر یہ لوگ چلے بھی گئے اور جا کر سیٹ ہو گئے اگر کبھی پاکستان آتے تو کہتے یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ہے آپ لوگ بھی باہر آجاؤ‘ زندگی آرام سے خوشگوار اور کامیاب گزر جائے گی‘ دولت مند لوگوں نے خوب لوٹ مار کی اور جا کر باہر سیٹل ہو گئے اِس سارے عمل میں یہ لوگ اِس بات کو یکسر بھو ل گئے کہ اِس زمین کا ایک مالک بھی ہے اُس نے چند صدیاں اگر آپ پر گرفت ڈھیلی چھوڑ دی تو اِس سے آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اِس دھرتی پر میرا قانون اور مرضی چلے گی جبکہ یور پ اور پاکستان کے لوگ خدا کو مکمل بھول بیٹھے تھے بلکہ اگر کو ئی بیچارہ خدا کی بات کر تا تواُس پر دقیانوسی کے الزامات لگائے جاتے پھر اللہ ذات باری تعالی نے طاقت ٹیکنالوجی دولت کے گھوڑے پر سوا رقوموں کو ہلکا سا جھٹکا کر و نا کی شکل میں دیا تو جو لوگ اپنی اپنی منصوبہ بندیاں پلان کر کے بیٹھے تھے کہ ہم نے روپیہ کما لیا ترقی یافتہ ممالک میں سیٹل ہو گئے وہ پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ہوا‘ ترقی اور معاشی استحکام کے گھوڑے پر سوار قومیں حیران پریشان کہ یہ کیا ہم تو خود ہی خدا بن کر بیٹھے تھے کہ ہم نے اتنی شاندار ترقی اور مالی استحکام اور طرزِ حکومت بنا لیے ہیں اب ہمیں کو ئی بھی تنگ نہیں کر سکتا لیکن یہی اِ ن غرور کے پتلوں زمین کے فرعونوں کی غلطی تھی۔

آج کا ترقی یافتہ ابھی بھی اِس وبا کے اسباب اور وجہ کو دریافت نہیں کر پایا اِس میں ایک ہی راز پنہا ں ہے کہ تم جو مصنوعی ترقی کے زعم میں بد مست ہاتھی بن گئے ہو یہ تمہاری مصنوعی ترقی ہے ایک جھٹکے کی مار سے سنبھل جا ؤ فطرت کی طرف آؤ مصنوعی طاقت کے سیراب سے نکل کر حقیقت کی طرف آؤ حقیقت کیا ہے وہ یہ کہ یہ دھرتی خدا کی ہے اِس پر انسانوں کا نہیں خدا کا قانون نا فذ ہو گا خدا کا قانون اور طرزِ معاشرت قرآن مجید اور آقا کریم ﷺ کی زندگی اور احادیث کی شکل میں واضح کر کے بنا دی گئیں ہیں جب تک ہم خد اکو اپنا حقیقی راہبر اور مالک نہیں مانیں گے اُس وقت تک کرونا سے جان نہیں چھوٹے گی ہماری سلامتی اور بقا اِسی میں ہے کہ استغفار کر کے خدا سے معافی مانگیں تاکہ خدا ہم سب کو معاف کر دیں دوسرا مسئلہ آجکل سب سے زیادہ یہ ہے کہ روزانہ مجھے بے شمار فون آتے ہیں کہ ڈپریشن ہو گیا ہے خوف کی چادر میں لپٹا ہوا ہوں نیند نہیں آتی شدید پریشانی اور خوف کا شکار ہوں یہ کرونا سے کب جان چھوٹے گی یہ گھروں میں قید رہنے کا وقت کب ختم ہو گا زندگی نارمل کب ہو گی کیا ہم نارمل زندگی کی طرف جا پائیں گے کہ ہمارے معمولات زندگی پہلے کی طرح ہو جائیں گے ہم اِسی طرح قید میں مزید ڈپریشن میں ڈوبتے جائیں گے تو ایسے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ مشکل ہر دور میں ہر قوم پر آتی رہی ہے لیکن ان مشکلات وباؤں آفتوں سے کامیا بی سے جو لوگ نکلے وہ اس لیے کہ کسی بھی مشکل پر متاثر قوم کا ردعمل کیا ہو تا ہے ردِ عمل کی مثال آپ اِس طرح سمجھ پائیں گے کہ کرونا آیا چین جنوبی کوریا اور جرمنی نے فوری معاملے کی سنجیدگی کو سمجھا لاک ڈاؤن اپنایا ہر شہری کو ٹیسٹ کے عمل سے گزارا کر متاثرہ لوگوں اور بوڑھوں کو الگ کر لیا مشکل وقت کو گزار لیا اٹلی سپین فرانس برطانیہ امریکہ سائنسی ترقی نظام صحت کی ترقی اور معاشی استحکام کی وجہ سے ردِ عمل وقت پر نہیں کیا تو اُن کی بربادی ہر گزرتے د ن کے ساتھ جو بڑھتی جارہی ہے اِس کا تماشہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے امریکہ کہتا تھا جو کچھ ہو گا ہم دیکھ لیں گے ہم بہتر ہیلتھ نظام رکھتے ہیں دنوں میں متاثرہ مریضوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی ہے بے وقوفوں والا ردعمل اُن کو برباد کر گیا۔

اب ہم عام معاشرتی سماجی اور خاندانی زندگی انفرادی و اجتماعی کی طرف آتے ہیں وہ یہ کہ کرونا کی وبا پھوٹ پڑی پو ری دنیا کو اِس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا سماجی کاروباری خاندانی زندگی پر بہت برا اثر پڑا اب جب مشکل وقت آگیا ہے تو اِس کو گزار لیا جائے کیونکہ اگر آپ رو پیٹ کر گزاریں گے تو بھی وقت تو اپنی رفتار سے ہی گزرے گا آپ کے رونے پیٹنے سے حالات ٹھیک نہیں ہو جانے نہ ہی حال اور مستقبل کے وسوسوں سے آپ خوش ہو سکتے ہیں اِن حالات میں صرف اور صرف اپنی موجودہ خوشیوں اور اللہ کی موجود نعمتوں کا احساس کر کے اُس کو انجوائے کر نا شروع کر دیں دوسری بات اِس دنیا میں کامیاب پر امن معاشرے اور سکون کے لیے اچھے صالح شہریوں کی بہت ضرورت ہے جن سے مل کر اجتماعی معاشرے تشکیل پا تے ہیں اِس لیے اللہ تعالی نے اپنا تصور اتارا کہ تمہارا ایک خدا ہے جو تمہاری ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے آپ اُس ستر ماؤں سے بھی مہربان خدا سے دوستی لگا لو کیونکہ تاریخ انسانی کا ورق ورق پڑھ لے جس نے خدا کو دل سے روح سے مان لیا وہ یہاں بھی کامیا ب اور اگلے جہان میں بھی کامیاب ہو گا دوسری بات جس انسان نے خدا سے دوستی لگالی وہ پھر زمینی خداؤں کے خوف سے مستقبل کے آنے والے پریشان کن حالات سے آزاد ہو جاتا ہے جب آپ اپنی زندگی دماغ خیالات میں خدا تعالی کو لے آئیں گے اگلے ہی لمحے آپ ہر قسم کے غم دکھ خو ف وسوسے سے آزاد ہو جائیں گے۔

عبادت مذہبی احکامات آپ کو مشکلات پریشانیوں سے دور کر دیتے ہیں دوسرا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تم اطمینان قلب یعنی دل کا سکون چاہتے ہو تو میرا ذکر کرو اپنی زبان کو میرے ذکر سے تر رکھو کھڑے بیٹھے لیٹے کروٹوں کے بل ہر حال میں میرا ذکر کرو آج کا انسان موجودہ مادیت پرستی سے بھر پور زندگی میں خدا سے دور ہو گیا تھا بے پناہ مصروفیت نے اُسے خدا سے دور کر دیاتھا وہ خدا کو بھول بیٹھا تھا بے پناہ مصروفیت میں خدا سے بات نماز ذکرکا وقت ہی نہیں ملتا تھا اب خدا نے موقع دیا ہے قرآن مجید کی تلاوت ترجمہ اور تفسیر شروع کر یں قرآن کے نور اور پیغام کو اپنے اندر اتاریں پھر آپ دیکھیں کس طرح آپ ڈپریشن خو ف سے آزاد ہو تے ہیں اور موجودہ انسان جس مصنوعی ترقی سائنس عقل مندی کے غرور میں ہوامیں اُڑ رہا تھا وہ خدا نے ایک جھٹکے میں اُس کو زمین پر دے مارا ہے کرونا کے بعد انسان اچھی طرح جان گیا ہے کہ سائنسی ترقی سپر پاورز کے ہیلتھ سسٹم اور معاشی استحکام زندگی کی ضمانت نہیں ہیں یہ بات سارے ڈاکٹر اور طبی ماہرین پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ جن لوگوں کا ایمیون سسٹم میٹابولزم مضبوط ہو گا وہ اِس بیماری کے دور سے نکل جائیں گے تو ایمیون سسٹم ڈاکٹروں ڈالرو ں روپے کے ہا تھ میں نہیں ہے وہ صرف اور صرف خدا کے ہاتھ میں ہے ترقی یافتہ قومو ں کے لیے یہ بہت بڑا جھٹکا ہے کہ افغانستان بنگلادیش سری لنکا جیسے غریب ملکوں میں کرونا نے اُس طرح تباہ کاریاں نہیں پھیلائیں جو ترقی یافتہ ملکوں میں پھیلا چکا ہے۔ جب زندگی موت بیماری صحت بیماری سے مقابلہ کر نے کی ہمت پیدا کر نے والے کے ہاتھ میں ہے تو کیوں نہ ہم اُس خدا سے دوستی کر لیں اُس کو اپنا حقیقی خدا اور راہبر مان لیں اپنی پچھلی کو تاہیوں گناہوں سیاہ کاریوں بد معاشیوں کی معافی مانگ کر یہ وعدہ کر یں کہ آئندہ کے لیے ماضی کی غلطیاں اور گناہ نہیں کریں گے عبادت حقیقی معنوں میں کریں گے تو آپ دیکھیں گے ڈپریشن ختم ہو گا ایک نئی امید کا احساس اور توانائی کا احساس ہو گا خدا کی موجودگی ہر لمحہ موجود ہو گی جو کبھی بھی انسان کو اکیلا نہیں چھوڑتا لیکن اُس کو جو خدا مان لے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
34630