Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صبروتحمل اور موجودہ حالات۔۔۔۔۔۔۔تحریر: سردار علی سردار،اپر چترال

شیئر کریں:

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمھاری آزمائیش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو (اللہ تعالیٰ کی خوشنودی) کی بشارت سنا دو۔” 2.156


اس آیہ کریمہ سے یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں ہر فرد کو اللہ تعالیٰ آزمائش میں ڈالتا ہے خصوصاََ موجودہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کورونا وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے تو انسان پہلے سے کہیں زیادہ پریشان اور سراسیمگی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے۔ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے پر خوف، بھوک، مالوں اور جانون کے نقصان کی صورت میں ایک عظیم امتحان ہے جس پر ہمیں ہر لحاظ سے صبرو تحمل کرنے کے ساتھ ساتھ احتیاط بھی کرنی چائیے تاکہ خداوند تعالیٰ اپنے بندے کو اس وبا کے بعد اپنی رحمت اور بخشش سے خوشخبری سنائے اور کامیابی سے ہمکنار کرے اس لئے حالات جیسے بھی ہوں ایک مومن اللہ کی زات پر اعتماد کرتے ہوئے برداشت، حلیمی اور صبرو تحمل سے کام لیں

جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے۔ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ یعنی اللہ تعالیِٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ 39:53:
اللہ کی رحمت اُس وقت زیادہ جوش مارتی ہے جب اُس کا بندہ اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے مصیبت اور تکالیف کے وقت صبرو تحمل سے کام لیتا ہےلیکن افسوس کہ ناز و نعمت سے پالا ہوا یہ نا شکر انسان مادیت پرستی اور دنیا کی چمک دمک سے مسحور ہوکر ،مذہبی تعلیمات سے دور، صبرو تحمل اور قوتِ برداشت جیسے اہم صفات سے محروم ہوچکا ہے۔ اُس پر طرہ یہ کہ ہر انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایک خاندان دوسرے خاندان کے ساتھ اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ دست و گریبان ہے۔ معاشرے میں برداشت اور صبروتحمل جو کہ اسلام کے بنیادی اخلاقی تعلیمات کا لازمی حصۤہ ہیں کو یکسر طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے ان ہمہ گیر اوصاف پر عمل کرتے ہوئے صبرو تحمل کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ کسی صحابی نے رسول صلعم سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! ایمان کیا چیز ہے؟ آپ صلعم نے فرمایا الایمان الصبرو السماحۃ یعنی ایمان اصل میں بردشت اور صبر کا نام ہے۔


مندرجہ بالاحدیث مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت تک ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک برداشت اور صبرو تحمل جیسی بنیادی اخلاقیات کو اچھی طرح نہ سمجھا جائے۔ کیونکہ دینِ اسلام کی تمام تعلیمات کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ معاشرے سے ہے اور تمام عبادات کا اصل مقصد انسان کی اخلاقی اصلاح اور معاشرے میں ایک کارآمد انسان بناناہے۔اب سوال یہ ہے کہ کہ صبرو تحمل اور برداشت کو اپنی زندگی کا حصہ کس طرح بناسکتے ہیں اس کے لئے ہمارے پاس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہےجیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَة۔ٌ:
یعنی بےشک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی آپ کے لئے بہترین نمونہ ہے۔33.21


جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو بیشمار ایسے واقعات ہمیں ملتی ہیں جن میں اللہ کے رسول نے صبرو تحمل اور برداشت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے۔ نبوت کے ساتویں سال کفار مکہ جب اپنی انتھک کوششوں کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ اسلام سے نہ روک سکے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمکمل طور پر قطع تعلق کرلیا یعنی رشتہ،ناطہ،لین دین اور خریدو فروخت کے تمام تعلقات توڑ لئےجس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کی معیت میں پہاڑکی ایک تنگ گھاٹی میں جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی چلے گئےجہاں انہوں نے مصائب کی زندگی نہایت ہی صبرو تحمل کے ساتھ بسر کی۔ طائف کے سفر میں شہر کے اوباش لڑکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتھر مار مار کر لہو لہان کیا مگر آپ نے نہ صرف اُن کو معاف کیا بلکہ ان کے لئے دعائیں بھی دیں۔ جنگِ اُحد میں مسلمانوں کو ہزیمت اُٹھانی پڑی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جرائت اور سیاسی بصیرت کی بدولت مسلمان سنبھل گئےاور دشمنوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی نہ ہوئی۔ اس معرکے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ شہید ہوئے اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داندان مبارک اور پیشانی بھی زخمی ہوگئے۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صبرو استقامت اور قوت برداشت کی وجہ سے حالات دوبارہ درست ہونے لگے۔ اس طرح فتح مکہ کے موقع پر اپنے سخت ترین دشمنوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرکے دنیا کو حیران کردیا۔ کیا خوب فرمایا ہے کسی شاعر نے۔
گفتار میں کردار میں ہوجائے یگانہ
تا درسِ عمل تم سے ہی لے اہلِ زمانہ


موجودہ حالات میں جب ہم اپنے ارد گرد پرنظر دوڑاتے ہیں تو پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے ہر طرف بے اطمینانی، انتشاراور بے صبر ی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دنیا معاشی، علمی اور صحت کے میدان میں پیچھے کی طرف چلا گیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ خداوند تعالیٰ اپنے بندے کو ماضی کے ناپختہ تجربات کو حال کے آئینے میں مزید بہتر کرنے کے لیے امتحان کا ایک زرین موقع عنایت کیا ہےتاکہ انسان پھر سے ترقی کی منزلیں طے کرتے جائے جس کے لیے اسے خدا کے اس امتحان میں صبرو تحمل سے زندگی گزارنا پڑے گا۔ اسی فلسفے کو مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال رح نے اپنی خوبصورت شاعری میں بھی پیش کیا ہے۔


خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں


دراصل آج کے انسان نے بہت زیادہ ترقی کی ہے اور پہلے کی نسبت مادی ترقی اپنے عروج تک پہنچی ہے۔
روزگار ، تعلیم، صحت کی سہولیات نیز زندگی کے ہر شعبے میں بہت زیادہ آسانیاں پیدا ہوچکی ہیں مگر زندگی کے ان تمام پرتعیش سہولیات کے باوجود انسان کی اندرونی دنیا بےچین اور بےسکون نظر آتی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں جیسا کہ
۔ ہم دوسروں سے صبرو تحمل کی توقع تو رکھتے ہیں لیکن خود کے اندر پیدا نہیں کرتے۔
۔ اللہ کی دی ہوئی سہولیات سے خود استفادہ تو کرتے ہیں لیکن دوسرے انسانوں کو اس سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔


۔ دوسروں کو آمن و آشتی کی تعلیم تو دیتے ہیں لیکن خود بے امنی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔
دوسروں کو موجودہ حالات میں اس وبائی مرض سے بچنے کیلئے احیاطی تدابیر کی ہدایت تو کرتے ہیں لیکن خود ان اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے ۔


۔ دوسروں کو صبرو تحمل کی تلقین تو کرتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے معاشرے میں عدم اعتماد، عدم برداشت اور فساد پیدا ہوجاتا ہے۔
المختصر! ہمیں چاہیئے کہ موجودہ حالات سے سبق لیتے ہوئے ہمیں صبروتحمل اور برداشت سے کام لینا چاہئے۔ اور حکومت وقت کی جانب سے دی گئی ہدایات پر سختی سے عمل پیرا ہونا چائیے۔ اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی معافی بار بار مانگنی چاہئے انشا اللہ! اللہ کی رحمت ہم پر نازل ہوگی اور ہم اس وبا سے نجات پاکر پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔
وما علینا الاالبلاغ المبین!


شیئر کریں: