Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ذرا سوچۓ….کروناسونامی۔۔۔۔ تحریر:ہما حیات سید،چترال

شیئر کریں:

   کچھ عرصے سے ہم نوجوان سونامی کا زبردست نعرہ لگا رہے تھے اور کورونا کی شکل میں اخرکار یہ سونامی آ ہی گئ۔ اب نعرہ لگاتے ہوۓ جتنی پرجوش ہماری اواز تھی اس سے کئ زیادہ پرجوش ہماری حکمت عملی ہونی چاہئے۔           

کورونا سے بچنے کے احتیاطی تدابیر کا تذکرہ کس قدر ہو رہا ہے اس کا اندازہ تو اپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میرے دو سال کا بھتیجا بھی مجھے ہاتھ دھونے کے طریقے بتا سکتا ہے۔ لیکن بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہو جاتی۔ ہاتھوں کو صاف رکھنے کے علاوہ ایک دوسرے سے فاصلہ بھی ضروری ہے۔      

 ﷲ کا شکر ہے کہ چترال میں اب تک کوئی کیس سامنے نہیں ایا ہے۔ اور یہ اس بات کا منہ سے بولتا ثبوت ہے کہ چترالی قوم ہمیشہ سے ایک ذمہ دار قوم رہی ہے لیکن اب یہ اندیشہ ہے کہ کئ ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو جائے۔ جیسے کہ اپ سب کو پتہ ہے کہ جو لوگ چترال سے باہر رہتے ہیں اب وہ بھی واپس آ رہے ہیں  اور انھیں بونی اور چترال کے ڈگری کالجوں میں 15 دن کے لیے قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔ میں اپ کو بتاتی چلوں کہ کالج کے اندر تقریباً 40 سے 50 کمرے ہیں، جن میں دفاتر اور لائبریری بھی شامل ہیں ۔ اب وہ لوگ جو باہر سے آ رہے ہیں، وہ سارے ایک جگہ سے تو نہیں اتے۔ اب خدانخواستہ اگر ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ وائرس موجود ہوا تو انجام کیا ہو سکتا ہے؟ میں مانتی ہوں کہ ڈگری کالجوں کو قرنطینہ مرکز بنانا درست فیصلہ ہے لیکن کئی کئی لوگوں کو ایک ہی جگہ جمع کرنا بھی کیا سابقہ فیصلے کی طرح دانشمندی کا فیصلہ ہے؟  اور جہاں تک ماہرین کا کہنا ہے تو کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں یہ وائرس تو موجود ہوتی ہے لیکن اس کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی حتٰى کہ اس شخص کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا۔ کیا ایسے صورتحال میں بھی ہمیں ان لوگوں کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ایک جگہ جمع کر نا چاہۓ؟ 

 اب سوال یہ ہے کہ اگر مسلۂ ہے تو حل کیا ہو گا؟ چترال میں بہت سے فلاحی ادارے ہیں جنہوں نے چترال کے لیے اج تک بہت سے خدمات انجام دیۓ ہیں پھر وہ سیلاب کے ستاۓ ہوۓ لوگ ہوں یا زلزلوں کے جھٹکوں سے خوفزدہ افراد۔ ان فلاحی اداروں میں ایک نام فوکس کا بھی ہے کہ جس نے ہر مشکل حالات میں اپنے فرائض سرانجام دیا ہے۔ اب بھی اس ادارے کو چاہیئے کہ اس کے پاس جتنے بھی ٹینٹ موجود ہیں انھیں کسی وسیع میدان میں لگائے اور باہر سے انے والوں کو 15 دن کے لیے الگ الگ ان خیموں میں رکھے۔  تا کہ ہم ہر اندیشے اور وسوسوں سے اذاد ہو جائیں۔                 

چترالی قوم کے ہر فرد کو بھی چاہیئے کہ اپ اپنے مثالی قوم ہونے کا مان رکھ لیں۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ جس شہر میں وباء پھوٹے وہاں نہ کوئی داخل ہو اور نہ وہاں سے نہ کوئی ہجرت کر ے۔ ایک اچھے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں احادیث پر عمل کرنا چاہیۓ۔            

چترال انتظامیہ سے بھی گزارش ہے کہ لواری ٹنل کو 15 دن کے لیے مکمل طور پر سفر اور دوسرے امور کے لیے بند کر دیں کیونکہ زرا سوچۓ۔۔۔ سوکھی روٹی کھا کر تو اپ زندہ بچ سکتے ہیں لیکن اگر یہ وائرس اپ کے پھیپڑوں تک پہنچ گئی تو سانس رک جانے کا خدشہ ہع سکتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
34539