Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خدارا! کچھ تو سوچئے………..اجمل الدیں

شیئر کریں:


صد افسوس کہ ہمارا معاشرہ اتنی برائیوں میں ڈوب چکا ہے کہ اسکا سد باب نا ممکن نظر آرہا ہے. ہم اتنے ڈوب چکے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی نہ خود کو بچا سکتے ہیں اور نہ اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کو. جسکی وجہ نہ صرف تہذیب کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنا محال ہوا ہے بلکہ آنے والی نسلوں یعنی قوم کے معماروں کی تربیت کیلئے بھی وبال بن گیا ہے.


شاذونادر اکابرین کے علاوہ نہ صرف تعلیم یافتہ طبقہ بلکہ تجارتکار، سیاست دان، عوامی عہدیداروں اور ہر چھوٹے بڑے ادارے سے تعلق رکھنے والے افراد کو جھوٹ کی ایسی لت لگی ہے کہ وہ اب زبان درازی، لہولعب اور بدزبانی سے بھی نہیں کتراتے. فحاشی و عریانی، فضول، لایعنی، گالم گلوچ اور سب سے بری چیز یعنی جھوٹ کی تشہیر اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرتے ہیں. معاشرے کا ہر فرد ان برائیوں کے علاوہ الزام تراشی، بہتان اور ایک دوسرے کی عزتوں کا سربازار نیلام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے. حالانکہ دیں تو دنیا اور آخرت کی اچھی باتیں سکھاتا ہے. ایک دوسرے کی پردہ دری سے منع کرتا ہے اور ہم ہیں کہ ننانوے نہیں بلکہ ہزار خوبیاں چھوڑ کر ایک خامی کو اٹھاتے ہیں اسے طول دیکر بڑھا چڑھا کر ایک دوسرے کی عزتوں کا کباڑا بناتے ہیں. درس تو ہمیں سب برائیاں چھپا کر ایک ہی اچھائی بیان کرنے کا ملا ہے. لیکن ہمارے ہاں معاملہ بالکل 180 ڈگری الٹ ہے.

ایک بات یاد رکھیں اگر ہم ایک دوسرے کی پردہ پوشی نہیں کریں گے تو نبی اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے پاک ارشاد کا مفہوم ہے اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو گھر بیٹھے رسوا کرینگے اور ایسے دن انکی مدد سے اعراض کرینگے جب وہ مدد کا محتاج ہو یعنی روزقیامت.
ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ، برائیوں کا چرچا اور گالم گلوچ کا بول بالا ہو تو وہ معاشرہ کیا خاک ترقی کرے گا. اور بچوں کی اچھی تربیت کا تو سوچ بھی نہیں سکتے. اپنے اردگرد بچوں کے حرکات و سکنات اور ان کی زبان پہ ذرا غور کریں تو پتہ چلے گا کہ وہ کس نہج میں آگے جارہے ہیں. وہی بول اور حرکات بچے اپناتے جو اپنے اردگرد ماحول سے میسر ہوں. اگر معاشرے میں کوئی برائی عام ہے اور اسے سمجھنے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں تو بچے اسی برائی کو اچھائی سمجھ کر اپناتے ہیں. تو بلا شبہ معاشرے کے ہر خاص و عام کو اسکا ذمہ دار ٹھہرانا غلط نہ ہوگا.


 بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے کچھ سلجھے ہوئے لوگ بھی کسی کی ذات کو اٹھا کر ایسی اچھالتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے اور وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے. سب کی اصل وجہ سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال اور سچ سے کنارہ کشی ہے. لغویات اور پروپیگنڈے اتنے پھیلائے جاتے ہیں کہ سچ کو سچ ہوتے ہوئے بھی جگہ نہیں ملتی اور اسے بھی جھوٹ کے ساتھ ملاکر فتنہ و فساد برپا کیا جاتا ہے.


اور تو اور ہمارے معاشرے کے خواتین بھی اپنے مقام اور رتبے کو پہچاننے سے قاصر ہیں. دیں اسلام نے عورت کے حقوق اور معاشرے کی اصلاح میں انکا کردار بھی بیان کیا ہے مگر کچھ انکی حق تلفی ہمارا معاشرہ کرتی ہے اور جائز حقوق سے بھی انکو محروم رکھتی ہے. کچھ خواتیں اپنے رتبے اور مقام کو بدلنے کے لئے کم ظرفی میں ایسے بیہودہ حربے استعمال کرتی ہیں کہ وہ سب کے لیے شرمندگی اور رسوائی کا باعث بنتی ہیں. ڈرامائی اور فلمی زندگی اپنانے کی کوشش میں، زبان بھی انہی کی بولتے ہیں اور چال چلن بھی انہی کا اپناتے ہیں. اور ہوتے ہوتے اونچائی اور اعلیٰ سٹیٹس کے چکر میں رسوائی کے دلدل میں ایسے پھنس جاتے ہیں کہ اپنے ساتھ معاشرے کو بھی لے ڈوبتے ہیں. بالی وؤڈ، ہالی وؤڈ اور لالی وؤڈ کی فلمیں، انکے سیزنز اور ڈراموں کی ہر ہر قسط سے وہ واقف ہوتے ہیں لیکن نہیں اگر واقف تو صرف اپنے اصل مقام سے، اپنے حقوق سے، اپنی ذمہ داریوں سے، اپنے آباؤاجداد سے، اپنے بال بچوں سے، اپنے حدود سے، اپنے روئیے اور اخلاق سے. یہی حال کچھ لا علم مرد حضرات کا بھی ہے جنکی وجہ سے یہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں. گھر کا سربراہ اپنی سربراہی میں ناکام، باپ، بھائی، بیٹا اور شوہر اپنی ذمہ داریوں سے غافل. تو نتیجہ یہی تو ہوگا.


آخری بات عرض کرتا ہوں کہ ہمیں انگلی اٹھانے کی عادت کو ختم کرنا ہوگا. نصیحت اور عمل کا آغاز اپنی ذات سے اور ابھی سے کرنا ہو گا. خدانخواستہ ہم موجودہ روئیے کو پروان چڑھاتے گئے تو آنے والی قوم کے معماروں کا خدا حافظ. خدارا! کچھ تو خیال کیجئیے، وگرنہ ہمارا معاشرہ دجال کے آنے سے پہلے اسکے فتنے سے دوچار ہوجائیگا.
اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں.


لیکچرار زرعی یونیورسٹی پشاور


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
34195