Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مہجور زیست…..نیم حکیم خطرہ جان۔نیم ملا خطرہ ایمان… تحریر:دلشاد پری

Posted on
شیئر کریں:

کرونا وائرس کو لیکر ان دنوں ملک میں جو حالت چل رہے میں اس پہ کوئی تبصرہ کر نا نہی چاہتی کہ یہ ہے کیا اور اس کے سدباب کیا ہیں اور میرا تبصرہ سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ ان دنوں بناء ڈگری کے ہر کوئی ڈاکٹر بن کے نصیحتوں کے انبار لگائے ہوئے ہیں۔اور ان میں سے اکثر باہر نہ نکلنے کی تلقین کرکے خود باہر نکل کے وڈیو بناکے کروناسے بچنے کی احتیاطی تدابیر بتا رہے ہوتے ہیں۔ہر ایک علم اور شعبے کا الگ ایکسپرٹ ہوتا ہے۔عالم۔قانون دان اور ڈاکٹر یہ سب اپنے اپنے شعبے کے ما ہر مانے جاتے ہیں،اسلئے کیا اچھا نہی ہوگا کسی تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورہ کرکے اسکی احتیاطی تدابیر اپنائی جائے۔جب بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک اس وائرس کے سامنے بے بس ہو چکے تو اس معاملے کو ہمیں بھی سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔جو پاکستانی چین وغیرہ میں رہ کے ان تجربات اور حالات سے گزرے ہیں ان سے مشورہ کر لے۔ان کی مدد لی جائے۔
.
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ کہ جب بھی کسی جنگ یا مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پڑی تو خلفاء راشدین سے لیکر انصار و مہاجرین تک اپنے جان و مال کے نذرانے پیش کئے۔مگر اج کل جس وقت ہمیں ایک دوسرے کے سہارا بننے کی ضرورت ہے وہاں پہ ہم 20 روپے کا ماسک 100 روپے میں فروخت کرکے کاروبار چمکا رہے اور سب کو پتہ بھی ہے ان دنوں اگر موت اگئی تو اپنوں کا قبر میں ہمیں اتارنا بھی نصیب نہی ہوگا۔غریبوں کا خون نچوڑ کے ہم اسلام کے نام بھی لمبی تقریریں جھاڑ رہے50 روپے امداد د ے کر میڈیا میں شور مچا کر ان کی عزت نفس مجروح کر رہے۔ہم ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب مجبوری سے فائدہ اٹھا کر غریب عوام سے پیسے بٹور لے اور یہ ایمان فروشوں کو کرونا کی وجہ سے خوب مل گئی ہے۔
.
ان دنوں جب ملک کے کونے کونے میں پولیس،ڈاکٹر اور ریسکیو کے جوانان کرونا سے بچنے کے لئے حفا ظتی اشیاء میں ایکٹیو نظر ارہے ہیں یہاں ہمارے بدقسمت چترالی ڈیوٹی پہ مامور جوانوں کو ماسک اور داستانے تک صحیح میسر نہی۔ ڈیوٹی کرنا اپنی جگہ مگر کیا ان لوگو ں کی جانیں مفت کے ہیں؟؟پہلے ان کو حفاظتی سامان مہیا کی جائے۔ہمارے مغزز نمائندوں نے ملک کے کونے کونے سے انے والے چترالیوں کو چترال انے کی اجازت دینے کی بجائے حکومت کے نو ٹس میں لا کر ان کے لئے انہی جہہگوں میں ان کو بنیادی ضروریات پہنچا دینے چاہئے تھی۔پھر بھی اگر کسی مجبوری کے تحت ان کو اجازت مل بھی گئی ہے تو سکریننگ سسٹم کا بندوبست کرنا چاہیئے تھا. ۔کیونکہ اگر یہ وباء چین ایران اور اٹلی سے انے والوں کے زریعے پوری دنیا اور پاکستان میں پھیل سکتی ہے تو پاکستان کے کونے کونے سے انے والوں کے زریعے چترال جیسے چھوٹے علاقے میں بھی پھیلنے کے چانسس زیادہ ہیں۔ٖ

سوشل میڈیا میں دیکھیا جا رہا ہے کہ بہت سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں تیمر گرہ پہنچ چکے ہیں حالانکہ لواری ٹنل بند کرنے کا اعلان بہت پہلے ہو چکا تھا۔۔اور بہت سے لوگ تو چترال میں ملک کے دوسرے علاقوں سے بھا گ بھا گ کے اس طرح اچکے ہیں کہ جیسے وہ کسی کی شادی اٹینڈ کرنے ائے ہو۔کیا ان کو ان کے پیاروں کی زندگی عزیز نہی۔جب یہاں اہی چکے تو ان کی سکریننگ کا بندوبست کیا جائے۔تاکہ تمام لوگ اس موزی مرض سے بر وقت بچ سکے۔
.
اج تو بہت افسوس ہوا جب اپنے ایک رشتہ دار سے جو کہ پی۔ٹی۔ائی کا ایک سرگرم رکن ہے پوچھا کہ بھائی جس سکریننگ سسٹم کا زکر اپ لوگ اشتہارات اور فیس بک وغیرہ میں بتاتے رہے ہیں اس کا کیا ہوا۔ ہنس کے کہنے لگا کہ فی الحال ہم تو مشتبہ لوگوں کو پشاور بھیج رہے۔جب ملک کے دیگر علاقوں سے انے والوں سے پو چھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کوئی سکریننگ نہی ہو رہا۔کیا جو دیکھایا جا رہا تھا ہو صرف کتابی با تیں تھی؟؟؟میں اپنے منتخب لیڈروں سے ہاتھ جوڑ کے منت کر رہی ہوں خدارا اس معاملے کو سنجیدہ لے کیونکہ یہ انسانوں جانوں کی حفاظت کا سوال ہے۔جیتے جی ہمیں موت کے منہ میں نہ دھکیل دے۔نیوز میں بتایا جا رہا تھا کہ چین سے بہت سے حفاظتی الات اور سکریننگ مشینیں پاکستان پہنچا دیئے گئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوگا کہ موقع سے فائدہ اٹھا کر اسمبلی میں ہمارے حق کے لئے اواز اٹھا کیونکہ اگر ہزارہ کے ہسپتال کو یہ میسر ہیں تو دو اضلاع پہ مشتمل چترال کو کیوں نہی؟؟؟ اس جمہوری ملک کے ہم بھی باسی ہیں ہمارا بھی حق ہے اس پر۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
33473