Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گزشتہ رات تقریبا چارسومسافرلواری ٹنل کے مختلف مقامات پررات گزارنے پر مجبورہوئے

شیئر کریں:

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب کو چار سو کے قریب مسافر لواری ٹنل میں گاڑیوں میں رات گزارنے پر مجبور ہو گئے جن کو ڈپٹی کمشنر لویر چترال کے حکم پر روکے گئے تھے اور وہاں سے واپس جانے کا کہا جارہا تھا۔ ضلعی انتظامیہ نے کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے ضلع کےباہر سے آ نے والوں کو روکنے کا فیصلہ کر تے ہوئے گاڑیوں کو ٹنل سے ہی واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔
.
چترال سے قومی اسمبلی کے ممبر مولانا عبد الاکبر چترالی نے بتایا کہ انہیں رات 2 بجے روکے گئے مسافر وں کا کال آ نا شروع ہوا جس پر وہ ڈی سی سمیت دیگر افسران سے رابطہ کرنے کی بےسود کوشش کرتے رہے اور صبح 8بجے تک اس ٹھٹہر تی سردی میں وہان رہے۔ تاہم صبح کے وقت مسافروں‌کی جم غفیرکو واپس کرنے میں‌انتظامیہ ناکام رہی اورمجبوراانھیں ٹنل سے آمدورفت کی اجازت دیدی گئی.

مسافروں کا کہنا تھا کہ لواری ٹنل پہنچنے تک ان کو اس بندش کے بارے میں معلوم نہ تھا جبکہ انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ ان کو پشاور میں اڈے سے ہی واپس کردیتی تو انہوں اس تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔کوسٹر میں سوار مسافروں‌نے مذید بتایا کہ کئی گھنٹے انتظار کے بعد جب انھیں ٹنل عبورکرنے کی اجازت دیدی گئی تو روانگی کے وقت صرف گاڑی کے ڈرائیور سے پوچھ گچھ کے بعد انھیں چھوڑدیا گیا ،اسکریننگ یا وائرس زادہ علاقوں‌سے آنے والے مسافروں‌کے بارے میں کوئی سوال تک نہیں‌پوچھا گیا. انھوں نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کے پاس صرف مسافروں کو تنگ کرنے کے سوا کوئی اورجواز نہیں‌ہے.

انھوں نے ضلعی انتظامیہ اورصوبائی حکومت سے پرزورمطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف لاک ڈاون سے مسئلہ حل نہیں‌ہوگا. دوسرے تمام اضلاع میں ٹرانسپورٹ جاری ہے.انتظامیہ کرونا وائرس کو پھیہلنے سے روکنے کیلئے اگر سنجییدہ ہے توانٹری پوائنٹ پر اسکریننگ کا بندوبست کیاجائے اورمتاثرہ علاقوں‌سے آنے والے مقامی لوگوں‌کو اسکریننگ کے بعد مشکوک ہونے کی صورت میں‌ قرنطینہ میں رکھاجائے اورتندروست مسافروں کو گھروں تک پہنچنے دیا جائے. مگرانتظامیہ نے پانچ سے آٹھ گھنٹے مسافروں‌کو ٹنل کے مختلف مقامات پر روک کرانھیں انتہائی تکلیف پہنچائی. ان مسافروں‌میں بچے ، بوڑے اورخواتین بھی تھےجنھوں‌نے انتظامیہ کی اس کاروائی کی شدید مذمت کی . انھوں نے اس بات پر انتہائی تعجب کا اظہارکیا ہے کہ مسافروں میں ملازم پیشہ ، بیماریاعدالتی کاروائی کیلئے سوات ، پشاورجانے اورآنے کیلئے سفرکرنے پرمجبورہیں اورہر کسی کے پاس پرائیویٹ گاڑی کی سہولت موجود نہیں وہ کس طرح سفرکرینگے؟؟مجبورا پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارالیناپڑتا ہے مگرانتظامیہ نے انھیں بند کردیا،جبکہ عدالتیں‌ اوردفترات ازاد ہیں اورپرائیویٹ کمپنی وکاروباری مراکز سے منسلک ملازمین کو بھی چھٹی نہیں دی گئی ہے . لہذا انتظامیہ اورحکومت کو اس پربھی غورکرناہوگا.


شیئر کریں: