Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میراجسم میری مرضی ……….مفتی محمدغیاث الدین چترالی

شیئر کریں:

“میرا جسم میری مرضی” کے نعرے کا ظاہری مفہوم یہ نظر آتا ہے کہ عورت جس کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنا چاہے اس کی مرضی ہونی چائیے،اس کو شرعی،معاشرتی اعتبار سے روک ٹوک نہ ہو۔اگر نعرہ لگانے والیوں کی مُراد بھی یہی ہے تو یہ صرف اسلامی نقطۂ نظر سے ممنوع نہیں ہے بلکہ تمام الہامی و غیر الہامی مذاہب میں اس کی گنجائش نہیں ہے،چنانچہ کوئی یہودی، عیسائی،ہندو اور سکھ اپنی عورت کواس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ اس نعرے کے مطابق زندگی جئے۔ اگر مذہب سے ہٹ کر صرف انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو دیکھیں تو بھی انسانی عقل اس کی اجازت نہیں دے گی۔ہاں اگر ہاں کوئی انسان درندہ ہو تو شاید وہ اس کا گوارہ کرے۔
.
اگر میرا جسم میری مرضی کا مقصد عورت کے جائز حقوق کا مطالبہ ہے تو اول بات یہ ہے کہ حقوق کے مطالبے کا “جسم میں مرضی” ہونے سے کیا تعلق ہے؟یعنی اس نعرے اور مطالبے میں کوئی میل نہیں۔اس کے بجائے نعرہ کوئی دوسرا ہونا چاہئےتھا۔جس بندے کواُردو سے تھوڑی سی شناسائی ہو وہ اس سے یہی مطلب مراد لے گا ہے کہ یہاں مقصود جسمانی تعلق میں مرضی ہوناہے،ظاہر ہے کہ یہ انتہائی شنیع اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے۔
.
اب آتے ہیں اب بات کی طرف کہ مختلف مذاہب میں عورت کےکیا کیا حقوق ہیں۔
یہودی روایات کے مطابق عورت اس کائنات کا ناپاک وجود ہے،اور اس کائنات میں مصیبت اسی کے سبب ہے،ان کے یہاں یہودیوں کے یہاں عورت مال ومتاع اور جانوروں کی طرح خریدی اور بیچی جاسکتی ہے اور اگراس کے بھائی موجود ہوں تو وہ میراث سے محروم ہوگی۔اسی طرح ان کے ہاں یہ قانون بھی ہےکہ اگر عورت بے اولاد ہو جائے تو پھر وہ اس کےفوت شدہ شوہر کے کسی بھائی کے لئے ہی مختص رہے گی اسے کسی دوسرے سے نکاح کا حق حاصل نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ ایسی عورت کو وہ لوگ حقیر بھی سمجھتے ہیں،اس کے علاوہ یہودیوں میں ایک بات یہ بھی ہےکہ وہ عورت کے ماہواری کے ایام میں اسے نجس سمجھتے ہے اس لئے وہ ان دنوں اس کے ہاتھ سے کوئی چیز نہ کھاتے اور نہ میاں بیوی ایک بستر پر سوتے۔
.
جو عورت لڑکا جنتی وہ چالیس دن میں مکمل پاک ہوجاتی ہے اور جو لڑکی جنتی اسے مکمل پاک ہونے کے اسی دن درکار ہوتے۔ایام ماہواری میں عورت ناپاک گردانی جاتی تھی جو کوئی اسے یا اس کے بیٹھنے کی جگہ کو چھو لیتا ہےوہ دوسرے دن تک ناپاک رہتا ہے،نیز اس سے کوئی چیز بھی نہیں لے سکتاحتی کہ کسی لمبی شئ کو بھی وہ دونوں سروں سے پکڑ نہیں سکتے۔اور ایسی عورت کو کوئی چیز دی جاتی تو پھینک کر دی جاتی ،ان ایام میں اگر شوہر بیمار ہوجائے تب بھی بیوی کو اجازت نہیں کہ وہ اس کو چھولےالبتہ بغیر اس کو چھوے اس کی تیمار داری کرسکتی ہے،لیکن اگر ایسی عورت بیمار پڑ جائے تو اس کے شوہر کو کسی حالت میں اس کی تیمارداری کی اجازت نہیں۔اور اگر کوئی ایسی عورت کو چھو لے یا اس کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھ جائے تووہ دوسرے دن تک ناپاک رہتا اور بغیر ٹھنڈے پانی سے غسل کئے پاک نہ ہوتا۔اسی طرح حائضہ عورت کا شوہر اسے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا سوائے اس کے کہ کوئی شخص گواہی دے کہ اس نے عورت کو غسل کرتے دیکھا ہے۔نیز یہودی مذہب کے مطابق شوہر بلاوجہ بھی اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔
.
مسیحیت میں بھی عورت کو گناہ کی ماں،بدی کی جڑ اور جہنم کا دروازہ اور مرد کا محکوم قرار دیا گیا ہے،بعض مذہبی شخصیات نے عورت کو شیطان کا حلیف قرار دیا ہے۔چرچ اور شہری قوانین میں عورتوں کو مارنے کی اور بیوی کے تمام اموال کو استعمال کرنے اجازت دی گئی ہےاور عورت کو کسی قسم کے اعتراض کا کوئی حق نہیں۔چرچ کی یہ ستم آزمائی عورت کے ساتھ کئی صدیوں تک رہی حتی کہ چھٹی صدی ہجری تک سلسلہ رہا اور مسیحی عورت 1882ء تک اپنے حقوق سے مکمل محرورم رہی اور اسے ملکیت اور عدالتی فیصلوں میں آزادی نہیں تھی۔
.
ہندومت کا مطالعہ کرتے ہیں تو عورت کو عار اور تکلیف کی بنیادی وجہ گردانہ گیا ہے،قدیم ہندو تہذیب میں بیٹی اپنے باپ کی ملکیت ہوتی تھی اور وہ اس میں جو چاہتاتصرف کرنے میں آزاد تھا۔جب عورت کی شادی ہو جاتی تو وہ اپنے شوہر کی زندگی میں اس کی غلام بنی رہتی جب شوہر بے اولاد مر جاتا تو یہ اپنے شوہر کے رشتہ داروں کی ملکیت ہوجاتی تھی۔
عورت کو ستی کے نام پر اپنے مرے ہوئے شوہرکے ساتھ زندہ جلا نا بہت بڑی عبادت سمجھی جاتی تھی۔1815ء سے لیکر 1825ء تک دس سال میں انہوں نے چھ ہزار عورتوں کو اس طرح ستی کے بھینٹ چھڑا دئے۔موجودہ زمانے میں ستی کے رسم کو اگرچہ ترک گیا گیا ہے تاہم اب بھی بیوہ عورت ہندوؤں کے یہاں نفرت آمیز اور دھتکاری ہوئی شمار ہوتی ہے۔انہیں پوری زندگی دوسری شادی کی اجازت نہیں ،لوگ اس کی طرف نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کی ذلت ورسوائی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسے دن بھر میں معمولی ساکھانادیتے ہیں وہ نئی قمیص نہیں پہن سکتی،چٹائی پر سوتی ہے سارے مشکل کام اس کے ذمے تھوپ دئے جاتے ہیں اور کبھی مبالغہ کے طور پر اس کو گنجا کر دیاجاتاہے تاکہ بیوہ ہونے کی نشانی رہے۔ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں 1996ء تک ان بیواؤں میں پندرہ ہزار کے قریب معصوم بچیاں اور چار لاکھ کے قریب نوجواں لڑکیاں تھیں جن کی عمریں پندرہ سال سے زائد نہیں تھیں۔
.
لیکن اسلام کا ماہتاب طلوع ہوا تو اس نے عورت کوجینے کے حق کے ساتھ ساتھ وہ مقام دیا جو اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا،اسلام نے مردوعورت کے درمیان اس فرق کا خاتمہ کیا جو اسلام کے علاوہ مذاہب میں مذہب کا حصہ سمجھا جاتا تھا،قرآن وسنت میں عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے حقوق کے بارے میں جتنی تاکیدکی گئی اتنی تاکید مردوں کے حقوق کے بارے میں نہیں کی گئی ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں،بیٹی ،بہن،بیوی غرض ہر حیثیت کے اس کے حقوق کو تفصیلاً بیان فرمایا ہے۔اس کو وراثت کا حقدار قرار دیاآپﷺ نے فرمایا:”الجنۃ تحت اقدام الامھات”جنت ماں کے قدموں کےنیچے ہے۔
.
اسلام کے اتنے حقوق دیئے جانے کے بعد بھی “میرا جسم میری مرضی “کا نعرہ لگانا نہ صرف اسلامی تعلیمات کی توہین ہے بلکہ آئینِ پاکستان کی بھی توہین ہے۔یہ نعرہ اگرغیر مسلم ممالک میں لگے تو اس کی کوئی تک بنتی ہے لیکن پاکستان میں ہرگز نہیں۔


شیئر کریں: