Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فکروخیال…..تعلیمی نظام اورسرکاری متاثرین کا جم غفیر….. فرہاد خان

Posted on
شیئر کریں:

چھاونی گراونڈ پر بےروزگار نوجوانوں کا جم غفیر دیکھ کر کچھ اندازہ لگانا بعید نہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام صرف اور صرف مفت کی ڈگریاں بانٹ کر بیروزگارون کی کھپپ میں اضافہ کررہا ہے اور کچھ نہیں۔ملک میں اپنی اپنی مرضی کے نصاب قیمت کے حساب سے دستیاب ہیں ملک پر قابض دو سے تیں فیصد اٌمرا کے لئے بلکل الگ اور پیسے کے مطابق معیاری نصاب ،مڈل کلاس کے لئے ان کی بساط کے مطابق تعلیم۔یعنی جتنا زیادہ پیسہ اتنی اچھی تعلیم جبکہ نوے فیصد سے زیادہ غریب طبقے کے لئے سرکار کا برائے نام وہ تعلیم کہ جس کی وجہ سے میٹرک پاس بیروزگاروں کا یہ سمندر چترال سمیت ملک کے ہر حصے میں آپ کو دھکے کھاتے دکھائی دیں گے۔
.
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ سفید پوش اٌمرا اور ملک پر قابض چند فیصد ٹولے کے اے لیول اور او لیول کے اعلی درجےکی تعلیم سے مستفید بچے ہم پر کوئی بیوروکریٹ کی حیثیت سے تو کوئی فوجی افیسر ،کوئی جج ،کوئی بیرسٹر تو کوئی سیاستدان کی حیثیت سےحکمرانی کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور یہی چند فیصد یہی سفید پوش نسل در نسل اسی قیمتی نصاب ،اعلی کوالٹی کی تعلیم اور اثرو رسوخ کی بنیاد پر اعلی درجے کے ملازمتون پر قابض ہوجاتے ہیں۔ ہمارے علاقے کا ایک استاذ جسکا نام لینا یہاں میں مناسب نہیں سمجھتا کا وژن یہ ہے کہ بچے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کسی طرح میٹرک پاس کریں پھر کوئی فوج کا سپاہی بنے گا تو کسی کو بارڈر فورس میں کھپایا جائے گا تو کوئی پولیس میں بھرتی ہوجائے گا ۔اب اگر یہ وژن یہ سوچ طالب علموں کی زہن میں سرایت کرجائے تو آخر اس قسم کی بھیڑ اور بیروزگارون کا ہجوم ہی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پھر اسی سوچ کو میٹرک میں کس طرح پروان چڑھایا جاتا ہے یہ بھی سب کے سامنے ہے۔
.
میٹرک کے امتحانات میں ان بیچاروں سے چندہ جمع کروا کر انہیں ہر حالت میں پاس کروالیاجاتاہے تاکہ ان نالائقوں سے جان چٌھوٹ جائے اور اگلے سال یہ ہجوم کوئی چھاونی گراونڈ پر ، کوئی کلاس فور ملازمت کے لئے سرکار کے کسی دفتر کے باہر اپنے سے سینئرز متاثرین کے ساتھ بیروزگاری کے مارے گھر کا چولھا جلانے کے ارمان لئے وارد ہوجائیں گے توکوئی بحالت مجبوری ملک کے نام مر مٹنے کی قسم کھانے،اور ملک کے اصل حکمرانوں کی وسیع تر مفاد میں ایندھن کا فریضہ سرانجام دینے خود کو سپرد کرنے حاضر ہوجائیں گے ۔ چونکہ یہ بھیڑ اسی وژن کے بل بوتے پروان چڑھتے ہیں اس لئے ان کی مجبوریون کے پیش نظر ان کی جو خاطر مدارت ہوتی ہے یہ سب اس بھیڑ میں واضح نظر آرہا ہے ۔ ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ملک کے پسے ہوئے بے بس لاچار لوگوں کی اولادیں ہیں جو سرکار کے آخری نمبر والے نصاب پڑھتے یہاں وارد ہوئے ہین جہان کوالٹی تعلیم تو کٌجا ان کی قسمت میں ہی اسی طرح کی تعلیم اور خوار ہونا جبرا لکھوایا گیا ہے۔
.
سرکار کے اخری درجے کے نصاب کو پڑھانے والےلاڈلے اساتذہ جن کے اپنے اولاد کبھی ان سرکاری سکول میں نہیں آتے۔ان کے اپنے اولاد مھنگے سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اور یہ لاڈلے صاحبان ایسے بیچاروں کی اکثریت کو نرسری سے سکینڈری تک نکما،نالائق،غبی اور کند زہن کے القابات سےنوازنےکےبعد برائے نام پڑھانےکا فرض ادا کرکے نقل کی بھینٹ چڑھاکر رخصت کردیتے ہیں جو اپنے اس وژن کے مطابق اور سرکار کی نااہلی کی بدولت ان کو اس مقام پر لانے میں برابر کے زمہ دار ہیں ۔اس بھیڑ کی کسمپرسی اور مجبوری کو سرکار کے تعلیمی پالیسی اور وژن کی ناکامی کا انجام ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ ہزاروں دعووں کے باوجود ابھی تک ایک قسم کا تعلیمی نصاب لایا جاسکا اور نہ معیاری تعلیم اگر ایسا کیاجاتا تو ملک کے نوجوان ایسے زلیل نہ ہوتے اور نہ بیروزگاروں کی ایسی بھیڑ ہوتی۔بیورکریٹ سے لیکر جنرلوں اور ججوں کے اولاد سے لیکر سیاست دانوں کے اولاد کو اگر ایک نصاب میسر ہوتا ،دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی اور اگر سرکار کے عیاشیوں کا دس سے بیس فیصد بھی تعلیمی نصاب کو ایک کرنے اور معیاری تعلیم پر خرچ کیا جاتا تو نوبت ایسا نہ ہوتا اور صورتحال اتنی دگرگوں نہ ہوتی۔
.
تبدیلی کے نعرون سے بننے والا سرکار بھی دعووں کے باوجود نصاب کو ایک کرنے اور طبقابی نصاب والا نظام بدلنے میں مکمل ناکام ہے ۔ یہ بھیڑ صرف چترال کا مسلہ نہیں پشاور ہو یا لاہور ،کراچی ہو یا کوئٹہ ،گلگت بلتستان ہو یا بلوچستان کا کوئی علاقہ سب علاقون میں ایسے متاثرین کاجم غفیر موجود ہوتا ہے اور جب بھی کسی نوکری کا اعلان ہوجائے تو ایسے بیروزگارون کا میلہ لگ جاتا ہے۔پھر اس بھیڑ کو نوکری کے نام پرجو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ بھی الگ داستان ہے۔تعلیمی نظام میں جب تک حقیقی تبدیلی نہیں لایاجاتا، نقل کی جب تک بیخ کنی نہیں کی جاتی،جب تک کالج سے لیکر یونیورسٹیوں تک ڈگریون کی پیسے کے عوض بندر بانٹ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا اور سب سے بڑھ کر فرسودہ نصاب اور فرسودہ امتحانی نظام جب تک تبدیل نہیں ہونگے تب تک ہم ہر سال بیکار ڈگریوں والےبیروزگارون کی کھپت میں اضافہ کرتے رہینگے اور کچھ نہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
32296