Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آرزوئے سحر……. قانون کی عملداری آسان طریقہ ترقی…… تحریر: انشال راؤ

Posted on
شیئر کریں:

موجودہ دور ترقی اور تہذیب کا بہترین نمونہ سمجھا جاتا ہے اور ہر فرد اس کا حصہ بننے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہے ایک وقت تھا کہ بھارت ماں کے ماننے والوں کی آنکھوں کے سامنے مسلمانان برصغیر نے اپنے اتحاد اور مسلسل جدوجہد سے بھارت کے ٹکڑے بھی کیے اور پاکستان بناکر بھی دکھایا، پھر ہندوتوا دہشتگردوں نے مکاری دکھائی تو کشمیر میں ایسی چھترول کی کہ بھارت اقوام متحدہ کی چھتری تلے فریاد لے کر پہنچ گیا، بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان جلد ہی ہم سے بچھڑ گئے لیکن اس کے باوجود ملک و ملّت ترقی و خوشحالی کی راہ پہ گامزن تھے، علمی، سفارتی، معاشی یا کوئی اور تقریباً ہر شعبہ بلندی کی جانب بڑھ رہا تھا ہمارے تمام ادارے منافع بخش کے ساتھ ساتھ دنیا میں اہم پوزیشن پر تھے، PIA جو آج پاکستان کے لیے درد سر ہے کل تک مختلف ممالک کو ایئر لائنز بناکر دیتا رہا، سرجان والٹن ریلوے اکیڈمی لاہور میں دنیا کے بیسیوں ممالک سے ریل کے افسران و عملہ ٹریننگ لینے کے لیے آتے اور پاکستان ریلوے پر رشک کرتے اور پھر ایک وقت آیا کہ آپسی نااتفاقی نے دشمن کو موقع فراہم کردیا نتیجتاً پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، جن کو ایک لڑی میں پرو کر قائداعظم نے پاکستانی بنایا اور حضور اقدسؐ کی تعلیمات کے مطابق بھائی بھائی بنایا وہ دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر چند مفاد پرست سماج دشمنوں کے زریعے اقبال کے مصرع “یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی افغان بھی ہو” کے مصداق کوئی سندھی بن گیا تو کوئی مہاجر، کسی نے پشتون ہونے پہ فخر جتایا تو کسی نے بلوچ، کوئی جاگ پنجابی جاگ کہنے لگا تو کوئی سرائیکی بن بیٹھا اور یہی وہ اندرونی خرابی تھی جس پر اندرا گاندھی نے کہا تھا “عنقریب ایک اور خوشخبری دینگے” اس کے بعد 70 اور 80 کی دہائی میں جو لسانی و مذہبی تصادم ہوے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، 90 کی دہائی سے شروع ہونے والی ملکی نظم و نسق کی تباہی کے نتیجے میں معاملات اس قدر تیزی سے تنزّلی کا شکار ہوے کہ دنیا میں پاکستان کے لیے کہا جانے لگا کہ “الٹی گنتی شروع ہوگئی” جس میں وزن بھی تھا، ناکام ریاست کے القابات ملنا شروع ہوے، Rule of Law کے مقابلے میں شخصیات زیادہ موثر بن کر ابھرتی آئیں، ترقی سے تنزّلی، بلندی سے پستی، عروج سے زوال کیسے ہوا اور اس زوال پذیر معاشرے کا حل کیا ہے؟ ہر پاکستانی کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں پاکستانی معاشرے کو زوال سے عروج کی طرف بڑھتا دیکھ لے، انتخابات 2018 کے بعد تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو عوام کے دلوں میں ایک امید قائم ہوئی کہ اب کچھ تبدیلی آئیگی، مایوس نوجوان سمجھنے لگے کہ اب ان کا خون جلنا بند ہوجائیگا لیکن وقت گزرتے کے ساتھ ساتھ عوام کی آس امیدوں کے برعکس حقیقت سامنے آئی کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ روایت پر قائم ہے وہی پرانے گھسے پٹے طریقے، منہ کی فائرنگ، اصلاحات لائینگے، کٹے وچھے، مرغی انڈے، فلاں کارڈ فلاں کارڈ، چینی اور آٹے کا بحران پیدا ہوا حکومت دیکھتی رہی وہی فضول کی باتیں بیوقوف بنانے والے طریقے کہ کمیٹی بنادی گئی، وزیراعظم نے نوٹس لے لیا، رپورٹ طلب کرلی، ہنگامی میٹنگ وغیرہ وغیرہ، لوگ چیختے چلاتے رہے لیکن حکومت کمیٹیاں بناتی رہی اور اجلاس بلاتی رہی، جہانگیر ترین و دیگر حکومتی شخصیات پہ تنقید ہوتی رہی تو حکومت کو ناگوار گزری لیکن اب جہانگیر ترین صاحب کے اعترافی بیان کہ بیس ہزار ٹن چینی ان سے 67 روپے کلو لے لیں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ذخیرہ اندوزی کرنے میں شامل ہیں اس کے علاوہ ان کی پوری ٹیم موجود ہے یقیناً جن کے اپنے اپنے اسٹاک ہونگے، معروف تجزیہ نگار کلاسرا صاحب نے انکشاف کیا کہ اسد عمر نے سبسڈی نہ دی تو ان کو انہی گاڈفادرز کے کہنے پہ ہٹایا گیا، پاکستان ایگری فورم متعدد رپورٹیں جاری کرچکی کہ کس طرح حکومت میں شامل مافیا عوام کا استحصال کررہی ہے لیکن کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی، حقیقت سامنے آئی تو عوامی امیدیں بھی جھوٹی ثابت ہونا شروع ہوگئیں، مایوسیوں نے ایک بار پھر ڈیرے جمالیے اور ایک بار پھر پاکستان کے عام لوگ کسی مسیحا کی منتظر ہیں اور خدا سے امید باندھے ہوے آسمان سے کسی غیبی مدد کے منتظر ہیں کہ وہ اس زمینی خدائیت کے جال سے چھٹکارہ پاسکیں، کپتان صاحب آج بھی کہتے ہیں کہ وہ نظام کو تبدیل کرکے رہینگے لیکن ان کے بیانات سے یہ صاف جھلکتا ہے کہ وہ اپنے مشیروں وزیروں کے کہنے پہ چلتے ہیں، حکومتی پالیسیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک آج بھی نظام کی تبدیلی PPP اور PMLN و دیگر جماعتوں کو ڈاکو ثابت کرنے سے مشروط ہے، یہی وجہ ہے کہ کپتان لاہور پہنچنے کے لیے کوئٹہ کی ٹرین میں سوار ہوگئے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنی کارکردگی بہتر کی جاتی عوامی امنگوں کے مطابق قانون کی عملداری پہ توجہ دی جاتی تو ازخود عوام تک یہ حقیقت پہنچ جاتی کہ کون کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ کپتان اور فوج ایک پیج پر ہیں کپتان فوج کا بلیو آئیڈ ہے، اب اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں یا تو یہ محض مخالفین کا پروپیگنڈہ ہے یا پھر کپتان یا فوج میں سے کسی ایک کی نیت ٹھیک نہیں جو نہیں چاہتے کہ نظام ٹھیک ہو، کچھ سال پہلے پروگرام چوراہا میں ن لیگ کے جھگڑا صاحب نے ایک حقیقت پہ مبنی بات کہی تھی کہ “فوج اور عدلیہ دو ایسے ادارے ہیں اگر ایک بھی سچا ہوجائے تو یہ نظام دنوں میں بدل سکتا ہے” بالکل اگر عدلیہ چاہے تو دنوں میں یہ نظام ٹھیک ہوسکتا ہے، پاکستان کے تمام مسائل کی ماں قانون پہ عمل نہ ہونا ہے اور بچہ بچہ واقف ہے کہ قانون کے نفاذ کی ذمہ داری انتظامیہ یعنی بیوروکریسی کی ہوتی ہے، لاکھوں کیسز عدالتوں میں موجود ہیں جو افسران کی غفلت یا خدائیت کی وجہ سے لوگ عدالت جانے پہ مجبور ہوے، آج عدلیہ یہ فیصلہ کرلے کہ جس کیس میں کسی سرکاری اہلکار کی غفلت عدم تعاون عدم فرض شناسی سامنے آئے اس میں صرف معاملہ حل نہ کرے بلکہ متعلقہ سرکاری اہلکار یا افسر کو قانون کی پیروی نہ کرنے پر کڑی اور بے رحم سزا سنائے، صرف چند کیسز میں ایسا ہوجائے تو لاکھوں کیسز عدالتوں سے خودبخود لوگ اٹھالینگے کیونکہ سزا کے ڈر سے افسر شاہی قانون کے مطابق کام کرنا شروع کردیگی لیکن المیہ یہ ہے کہ جج صاحبان صرف معاملہ حل کرتے ہیں اور ستم یہ کہ عدالتی فیصلے پر بھی افسر شاہی اس وقت تک عمل نہیں کرتی جب تک کنٹیمپٹ نہ لگ جائے اور یہ معمول کا طریقہ ہے، کاش وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف و دیگر یہ فیصلہ کرلیں کہ قانون کی عملداری کروانی ہے تو صرف اس ایک طریقے سے ملک میں بہار لوٹ آئیگی نہ کسی پہ تنقید کی ضرورت پڑیگی نہ کوئی اختلاف پیدا ہوگا نہ ہی مسائل و نفرتیں بڑھینگی۔


شیئر کریں: