Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بجلی ناپید، چترال میں نقص امن کا اندیشہ…………ایم شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

اپرچترال کے ہر گاوں اور قصبے میں احتجاجی مظاہرے شروع، شدید سردی کے باوجود ہزاروں افراد کو بونی چوک میں پیڈو کے خلاف دھرنا
10فروری تک بجلی کی سپلائی بحال نہ ہونے کی صورت میں ضلع اپرچترال کے عوام کو بونی سے پشاور تک لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان
آٹھ مہینے گذرنے کے باوجود گولین گول بجلی گھر کی ایک فرلانگ کی سیلاب سے متاثرہ حصہ مرمت نہ ہونے پر عوام سراپا احتجاج بن گئے
ریشن بجلی گھر2014کے سیلاب سے تباہ ہوا تھا۔ بجلی گھر کی مرمت اور بحالی کا کام شروع کرنے میں 6سال کا طویل عرصہ لگ گیا
گولین گول بجلی گھر سے فی الوقت صرف سات میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے جسے اپر اور لوئر چترال میں مساوی تقسیم کیا جائیگا، ایم پی اے
.
Booni upper chitral bijli jalsa mastuj 4 scaled

کہوار زبان میں گدھی کی شکایت ایک مقبول کہاوت ہے کہ نر بچہ بھی جن کے دیکھا اور مادہ بھی، لیکن میری پیٹھ پر لدا بوجھ کم نہ ہوسکا۔ وادی چترال کے عوام کو بھی آج کل یہی شکایت ہے کہ علاقے کے آبی وسائل کو توانائی کی پیداوار میں اضافے کے لئے بروئے کار لانے کے باوجود مقامی آبادی بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔108میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل گولین گول بجلی گھرسے گذشتہ سال بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی تھی تاہم جولائی2019میں گولین بجلی گھر کی نہر سیلاب میں بہہ گئی۔آٹھ مہینے گذرنے کے باوجود نہر کی مرمت کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا۔متبادل ذریعے سے بجلی گھر کو پانی تو فراہم کیا جاتا ہے مگر صرف سات میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے۔اور اس میں سے اپر چترال کو چوبیس گھنٹوں میں دو گھنٹے بھی بجلی نہیں دی جاتی۔منفی بیس سینٹی گریڈ شدت کی سردی کے باوجود بجلی جیسی بنیادی سہولت میسر نہ ہونے پر علاقے کے لوگوں کو پارہ چڑھنا فطری امر ہے۔ ریشن، اویر، لون،کوشٹ، وریجون، تریچ، تورکہو، کوراغ، چرون، بونی، مستوج، یارخون اور ضلع کے مختلف قصبات اور دیہات میں احتجاجی مظاہرے روز کا معمول بن گئے ہیں۔گذشتہ روز انجمن تحفظ حقوق چترال کی کال پر ضلعی ہیڈ کوارٹر بونی میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ ہوا۔
.
ضلع بھر سے ہزاروں افراد شدید سردی اور بارش کے باوجود بونی چوک میں جمع ہوگئے اور احتجاجی دھرنا دیا۔ چترال کے اکلوتے منتخب ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان نے بھی دھرنے میں حصہ لیا۔ انہوں نے دھرنے کے شرکاء کو یقین دہانی کرائی کہ گولین بجلی گھر سے پیدا ہونے والی سات میگاواٹ کی بجلی اپر اور لوئر چترال میں مساوی بنیاد پر تقسیم کی جائے گی۔ اگر ایک ہفتے کے اندربجلی کی سپلائی بحال نہ ہوئی تو وہ خود مظاہرین کی قیادت کرتے ہوئے بونی سے پشاور کی طرف لانگ مارچ کریں گے۔خیبر پختونخوا میں بجلی پیدا اور تقسیم کرنے کا نظام مختلف اداروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ واپڈا نے چھوٹے پن بجلی گھروں کا انتظام شائڈو نامی ادارے کو سونپ دیا گیا۔ ریشن گول میں چار میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا حامل بجلی گھر شائڈو کی نگرانی میں تعمیر ہوا تھا۔ تاہم وہاں صرف ایک ٹربائن سے کام چلایاجاتا رہا۔اور صرف اڑھائی میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی تھی۔
.
2014کے ہولناک سیلاب میں ریشن بجلی گھر کا بیشتر حصہ تباہ ہوگیا۔ بجلی گھر کی مرمت کا کام شروع ہونے میں چھ سال کا عرصہ لگا۔ جو شائڈو اور اس کی جگہ لینے والے ادارے پیڈو کے حسن انتظام اور اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ ریشن بجلی گھر کے متاثرین کے لئے غیر ملکی امداد سے شمسی توانائی کے پینلز منگوائے گئے۔ تین ہزار سولر پینلز میں سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ریشن کے لئے تین سو سسٹم مختص کئے گئے۔آٹھ سو گھرانوں پر مشتمل ریشن کے مکینوں نے بطور احتجاج تین سو پینلز لینے سے انکار کردیا۔ ان کے حصے کے پینلز بھی دوسرے علاقوں میں تقسیم کئے گئے۔ شندور میلے کے موقع پر اہلیان ریشن نے سولرائزیشن میں نظر انداز کئے جانے پر احتجاج کیا تو ان کے لئے ایک ہزار پینلز کی منظوری دی گئی۔ لیکن یہ پروگرام بھی سرخ فیتے کی نذر ہوگیا۔ حال ہی میں مزید تین ہزار سولر پینلز چترال پہنچ گئے ہیں جن میں ریشن کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ تمام سولر پینلز دور افتادہ علاقوں کو دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس دوران حکومت کی طرف سے ریشن بجلی گھر کی بحالی اور اس کے لئے فنڈز مختص کرنے کے اعلانات کئے جاتے رہے لیکن ان اعلانات کو عمل کا جامہ نہیں پہنایاجاسکا۔موجودہ حکومت نے مذکورہ بجلی گھر کی دوبارہ تعمیر کی منظوری دی ہے اور اس پر تعمیراتی کام بھی جاری ہے مگر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔اپر چترال کا علاقہ جنگلات کی دولت سے محروم ہے۔ گرین لشٹ سے لے کر تریچ میر کے دامن اور پرپش سے لیکر شندور، یارخون اور بروغل تک کے عوام سوختی لکڑی کی بیشتر ضرورت پوری کرنے کے لئے لوئر چترال کے جنگلات پر انحصار کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے جلانے کی لکڑی کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
.
چترال سے بیس من لکڑی لاسپور، یارخون، ریچ، موڑکہو، تورکہو، مستوج پہنچائی جائے تو اس کی قیمت پچاس روپے کلو تک پہنچ جاتی ہے جو عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہے۔ ایل پی جی گیس کے سیلنڈر بھی لوئر چترال سے ہی منگوانے پڑتے ہیں اور ان کی بھرائی کے لئے بھی سو ڈیڑھ سو کلو میٹر کا پہاڑی راستہ طے کرکے چترال ٹاون آنا پڑتا ہے۔ بجلی ہی توانائی کے حصول کا واحد ذریعہ رہ جاتا ہے تاہم 2014کے بعد یہ سہولت بھی برائے نام ہی رہ گئی ہے۔ اگرچہ ریشن بجلی گھر کی اڑھائی میگاواٹ بجلی کے لئے بچھائی گئی کمزور ٹرانسمیشن لائنیں گولین گول کی طاقتور بجلی برداشت نہیں کر رہی تھیں اور آئے روز بجلی کی سپلائی میں تعطل ہوتا رہتا تھا تاہم یہ بھی غنیمت تھی کہ لوگوں کو بجلی میسر تھی۔ تاہم بجلی گھر کی نہر سیلاب برد ہونے کے بعد گذشتہ آٹھ مہینوں سے اپرچترال کی تین لاکھ کی آبادی اس اہم اور بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ایک مستند سروے رپورٹ کے مطابق چترال کے مختلف مقامات پر پانی سے بجلی پیدا کرنے کے ایک درجن مقامات کی نشاندہی ہوئی ہے جن سے مجموعی طور پر آٹھ ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جو پورے خیبر پختونخوا کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سستی بجلی کے ان منصوبوں پر کام کون شروع کرے۔
.
صوبائی حکومت پن بجلی گھروں کی تعمیر اور ڈیم بناکر بنجر علاقوں کو سیراب کرنے کے اعلانات گذشتہ چھ سالوں سے کر رہی ہے مگر ان اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کی اب تک حکومت کو توفیق نہیں ہوئی۔ بجلی نایاب ہونے کی وجہ سے چترال کے پرامن علاقے میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ صوبائی حکومت اور پیڈو کو اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے کہ آٹھ مہینے کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود دو فرلانگ کی متاثرہ نہر تعمیر کیوں نہیں کی جاسکی۔ اور ریشن بجلی گھر کی بحالی میں چھ سال کو طویل عرصہ کیوں لگا۔نیشنل گرڈ سے اپر اور لوئر چترال کے صارفین کی ضروریات کیوں پوری نہیں کی جاتیں۔ چترال کے دونوں اضلاع میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ کھپت دس پندرہ میگاواٹ ہے۔ اس دور افتادہ اور پسماندہ علاقے کو بنیادی سہولیات کی فراہمی پر انصاف والی حکومت کو ترجیحی بنیادو ں پر توجہ دینی چاہئے۔ بجلی اور رسل و رسائل کی سہولیات میسر ہوں گی تو چترال کے سیاحتی مقامات کی طرف ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو راغب کیا جاسکتا ہے۔ جہاں بجلی جیسی بنیادی سہولت ہی میسر نہ ہو۔ وہاں سیاح جانا تو دور کی بات، مقامی لوگ بھی نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو نئے سیاحتی مقامات کی نشاندہی کے ساتھ وہاں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا بھی بندوبست کرنا چاہئے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
31740