Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

والدین کی پریشانی……….. تحریر: انعم توصیف، کراچی

Posted on
شیئر کریں:

قرآن پاک میں اللہ ﷻ ارشاد فرماتے ہیں
”وقل رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا“
.
ترجمہ: ”اور کہو اے میرے رب ان دونوں(میرے ماں باپ) پر رحم فرما جیسا کہ ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔“
بھاگتی دوڑتی اس زندگی میں نفسا نفسی کے اس دور میں معاشرتی مساٸل میں ایک اہم مسٸلہ یہ بھی ہے کہ والدین اکثر پریشان نظر آتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے فرماں بردار نہیں ہیں۔ وہ ہمیں وقت نہیں دیتے، ہم گھروں میں اکیلے ہوتے ہیں وہ بیوی بچوں یا پھر دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے، سیرو تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ یہ اج کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے۔۔
.
اب ہم اگر اس آیت پر غور کریں تو اس مسٸلے کی وجہ صاف ظاہر ہوجاۓ گی۔۔ افرا تفری، مادیت پرستی کے اس دور میں ہم اپنی اولاد کی تربیت کا بہترین ذریعہ مال و ذر کو سمجھتے ہوۓ پیسوں کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں۔ ماں جیسی ہستی جس کی گود کو اولاد کی پہلی تربیت گاہ کہا جاتا ہے۔ وہ ہی ”ماں“ آزادی کے نام پر صبح سے شام تک مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے میں فخر محسوس کررہی ہے۔ چاہے جاب کی ضرورت ہو یا نہ ہو محض وقت گزاری اور دنیا والوں کی واہ واہ سمیٹنے کے لیے عورتیں گھر کی چار دیواری کو قید خانہ سمجھتے ہوٸے اپنے بچوں کی پرواہ کیے بنا نوکری کرکے تھکنا پسند کررہی ہیں چاہے اس کی وجہ سے اولاد کی زندگی پر منفی اثرات ہی کیوں نہ مرتب ہورہے ہوں۔ اپنی مصروفیات میں گم لوگ، بچوں کو مکمل نظر انداز کرکے یا تو گھروں میں خادموں کے سپردکردیتے ہیں یا پھر ان معصوموں کو گھروں میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اب تو سونے پہ سہاگہ ڈے کیٸر سینٹرز بھی کھول دیے گیٕے ہیں جہاں چند روپوں کے عوض آپ کے بچے پالے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو واٸرل ہوٸی تھی جس میں واضح دکھایا گیا تھا کہ ایک ڈے کیٸر سینٹر کی ملازمہ بچے کو بری طرح ڈانٹ بھی رہی ہے، اسے مار بھی رہی ہے اور ساتھ میں اس سے یہ بھی کہہ رہی ہے کہ وہ اپنے والدین کو کچھ نہ بتاٸے۔ ذہنی و جسمانی ٹارچر کرتی اس عورت کی ہمت اتنی کیسے بڑھی؟
یہ سب والدین کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے والدین اپنی اولاد کو اتنی اہمیت دیتے نہیں جتنا کا حق ہے۔ والدین کے پیار، محبت، توجہ کے جو مثبت اثرات بچوں پہ پڑتے ہیں اس کا مقابلہ کوٸی بھی نہیں کرسکتا۔
.
ایسے بچے جن کو بچپن میں والدین کا پیار اور توجہ نہ ملے تو کیا وہ بڑے ہو کر والدین سے اس درجے کی محبت کرسکتے ہیں جن کے وہ حقدار ہیں؟ بھلا وہ اپنے والدین کے لیے رحم کی دعا کرسکتے ہیں جب کے ان کے والدین نے ان کو ویسے پالا ہی نا ہو جیسا کہ ان کا حق تھا۔ کیا ان کے بڑھاپے میں ان کی اولاد ان کو توجہ و محبت دے سکے گی؟ بچپن میں ہونے والے واقعات انسان کے ذہن پہ گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر آپ کی غیر موجودگی اور بے توجہی کی بنا پر آپ کے بچے کے ساتھ کچھ برا ہوا ہو تو وہ کہیں نہ آپ کو بھی اس کا ذمہ دار سمجھتے ہوٸے آپ سے بدظن ہوجاٸے گا۔ اس کا اظہار یا تو وہ اپنے برے رویے سے کرے گا یا پھر وہ خاموشی اختیار کرلے گا۔ یہ دونوں باتیں ہی آپ کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایسے بچے پھر نہ ہی اپنے والدین کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔۔ اولڈ ہومز پہ لکھی ہوٸی اکثر تحریریں نظروں سے گزرتی ہیں۔ کبھی سوچا بھی ہے کہ ان اولڈ ہومز تک رساٸی اتنی آسان کیوں ہوگٸی ہے؟ محبتیں مفقود کیوں ہوتی جارہی ہیں؟ غلطی ہر بار اولاد کی نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ اپنے اعمال کا بدلہ پاتے ہیں۔
.
اللہ رب العزت والدین کے لیے رحم کی دعا بھی ایسی اولادوں کی زبانوں پر جاری فرماتا ہے جن کے والدین بھلے ہی ان کو پر آساٸش زندگی فراہم نہ کرسکیں لیکن ان کی اعلی تربیت کریں۔ ان کو بھرپور وقت وتوجہ دیں۔ ان کو گھروں میں اکیلا چھوڑ کر خود سیرو تفریح نہ کرتے پھریں۔ ان کو خادموں کے سپرد کرکے بے فکر نا ہوجاٸیں۔ اپنی اولاد کواللہ کی طرف سے ذمہ داری سمجھتے ہوۓ ان کی بہترین انداز میں پرورش کریں۔ ایسے ہی لوگوں کی اولاد ان کی فرماں بردار ہوتی ہے۔۔ ان کو اپنی متاع عزیز جان کر وقت دیتی ہے۔ اللہ کریم بھی ان پر رحم کرتا ہے۔۔۔
ہم اپنی اولاد کو آج جو کچھ بھی دیں گے کل کو وہ ہی ہمارے بچے ہمیں لوٹاۓ گیں پھر چاہے وہ وقت ہو، عزت ہو، یا پھر محبت۔


شیئر کریں: