Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد …….. بیگمات اور بد عنوانی …….. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

بد عنوانیوں پر قا نو پا نے کے 101طریقے ازمائے گئے لیکن وطن عزیز پا کستان میں بد عنوا نیاں بڑ ھتی ہی چلی گئیں ہمیں ٹراسپیرینسی انٹر نیشنل کی تازہ رپورٹ پر با لکل اعتبار نہیں مگر ہمارے ارد گرد جو کچھ ہو رہی ہے حکومت کے اس دعویٰ پر کامل یقین ہے کہ کرپشن کا خا تمہ ہماری پہلی تر جیح ہے تا ہم اس میں انگریزی کا لفظ کرپشن ہمارا منہ چڑ اتا ہے گھساپٹا سا پرانا لطیفہ ہے دفتر کا نیا سر براہ آیا تو اس نے پہلے دن تما م سٹاف کی میٹنگ بلائی اور دو ٹوک انداز میں فیصلہ سنا یا کہ آج کے بعد اس دفتر میں کمیشن نہیں لیا جائے گا اُسی روز ایک ٹھیکہ دار کے ساتھ نئے معا ہدے پر دستخط ہوئے ورک آڈر جا ری ہوا ٹھیکہ دار حساب کتاب کے بعد معقول رقم کا لفا فہ ہیڈ کلر ک کو تھما دیا ہیڈ کلرک نے کہا نئے بوس نے چارج لیتے ہی سب کو خبر دار کیا ہے کہ آج کے بعد کمیشن کسی سے نہیں لیا جائے گا ٹھیکہ دار نے کہا تمہارے بوس کی کتاب میں کمیشن کا نام ”چائے پانی“ ہے ہیٹ کلرک نے چائے پانی میں سے اپنا حصہ الگ کر کے بقا یا بوس کی میز پر رکھا بوس نے کہا یہ کیا ہے ہیڈ کلر ک نے کہا چا ئے پا نی ہے سر! بو س نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ لفا فہ کھو لا نقدی گن کر تسلی کر لی اور ما تحت سے پو چھا تمہا را حصہ مل گیا؟ ما تحت ے اثبات میں سر ہلا یا دفتر میں اوپر سے نیچے تک تمام سٹاف کو خوش خبری دی گئی کہ کمیشن کا نیا نام ”چائے پا نی ہے“ چنا نچہ پر نا لہ وہیں رہا جہاں پہلے تھا ہمارے ایک دوست سینئر بینکار ہیں ان کی تجویز ہے کہ بد عنوا نی وزراء، اراکین اسمبلی اور افیسروں کا کام نہیں بد عنوانی دراصل اُن کی بیگمات کا کام ہے اس اجمال کی تفصیل بتا تے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ لائف سٹائل،رہن سہن،بیرون ملک سیر سپا ٹوں اور اپنی اولاد کو اندرون ملک مہینگے سکولوں میں داخل کرنے یا بیرون ملک بھیجنے کا مقابلہ مردوں کے درمیاں نہیں ہوتا یہ مقا بلہ خواتین کے درمیان ہوتا ہے فلاں کا شو ہر دو سال وزیر رہا اُس نے بحریہ ٹاون میں گھر لیا،ڈیفنس میں دو پلاٹ لے لئے، دو مر سیڈیز گاڑیاں کھڑی ہیں تمہارا یہ حال ہے کہ پرانا گھر تبدیل نہیں ہوا پرانی آلٹو کار سے جان نہیں چھوٹی ایک رکن اسمبلی کی بیگم کہتی ہے لو گ چار سال یا 5سال کے لئے رکن اسمبلی بننے کے بعد ارب پتی ہو جاتے ہیں تمہاری حا لت یہ ہے کہ دو ٹکے پائی کما کر نہیں لائے حلقہ 420کے ایم این اے کو دیکھو 4بچے بیرون ملک تعلیم کے لئے گئے، اسلام اباد اور لا ہور میں کوٹھیاں خرید یں ہر کوٹھی میں دو دو گاڑیاں کھڑی ہیں تم سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ عید پر شا پنگ کے لئے مجھے ہا نگ کانگ یا دو بئی بھجوا دیتے 20لا کھ روپے کا تو خر چہ تھا وہ تم سے پورا نہ ہو سکا اسی طرح افیسروں کی بیگمات میں بھی مقابلہ ہو تا ہے ایک کی بیگم شاپنگ کے لئے دوبئی جا تی ہے تو دوسرے کی بیگم بھی دو بئی جانے کی ضد کر تی ہے ایک کی بیگم شا پنگ کے لئے لندن یا فرانس جاتی ہے تو دوسرے کی بیگم ضد کر کے آسمان سر پر اُ ٹھا لیتی ہے اگر ایک کی بیگم سیر سپاٹے کے لئے روم، جینوا یا برلن جاتی ہے تو دوسرے کی بیگم بھی ضد شروع کر دیتی ہے یوں بیگمات کی فر مائیش پوری کرتے کرتے وزراء،اراکین اسمبلی اور سرکاری افیسروں کے نام انٹی کرپشن آفس یا نیب کے ہیڈ کوارٹر پہنچ جاتے ہیں اور آمدن سے زائد اثا ثوں کا الزام ان کے سر تھوپ دیا جا تا ہے میرے بینکار دوست کا منصوبہ یہ ہے کہ کرپشن یا بد عنوا نی کے الزام میں جس کو پکڑا جائے ساتھ ہی اس کی بیگم کو بھی پکڑا جائے ریکوری شو ہر سے کی جائے قید تنہائی کی سزا بیگم کو دی جائے اگر چین کی طرح بد عنوانی کی بڑی سزا مقرر ہوتی تو تختہ دار پر بیگم کو لٹکا یا جائے عرصہ ہوا پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن چینل پر ایک ڈرامہ آیا تھا ڈرامے کا مر کزی کردار بد عنوانی کے الزام میں پکڑا جا تا ہے عدا لت سے اس کو بھاری جر مانہ اور قید کی سزا ملتی ہے جر مانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں قید کی مدت دگنی کر نے کا حکم ہو تا ہے وزیر مو صوف قید خانے سے پیغام بھیجتا ہے کہ فلاں جائداد فروخت کر کے جر مانہ ادا کرو اور مجھے قید سے رہا کراؤ گھر میں مشورہ ہوتا ہے اولاد اپنی ماں کے ساتھ اس بات پر اتفاق کر تی ہے کہ ابّو کو جیل میں رہنا چا ہئیے جائدادبڑی محنت سے بنی ہے اس میں سے ایک چوتھائی کو فروخت کیا گیا تو خسارے کا سودا ہو گا ابو کو جیل میں کچھ نہیں ہو گا ہم دوائیں ہر ما ہ جیل پہنچا دیا کرینگے اس بات پراتفاق رائے پید ا کر کے وہ جیل جاتے ہیں بیگم صاحبہ اپنے شوہر کو قائل کرنے کی کو شش کر تی ہیں کہ دیکھو یہ جائداد ہم نے کتنی محنت سے بنا ئی ہے او ر جس کوٹھی کو بیجنے کی بات کر رہے ہو یہ چھو ٹے بیٹے کے نام کی گئی تھی وہ بے چارہ امریکہ میں پڑھتا ہے واپس آئے گا تو کیا گہے گا بس اتنی قر بانی دو کہ چند سال قید کاٹنے کے لئے تیا رہو جاؤ یہ سُنکر سابق وزیر کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں وہ اپنے بیوی بچوں سے منہ پھیر لیتا ہے اور دیوار کی طرف منہ کر کے کہتا ہے ”کا ش بیوی بچوں کی فر مائش پوری کرنے کے بجائے تنخوا پر گزارہ کر تا ان حرام خوروں کے لئے جائداد نہ بنا تا تو آج مجھے یہ دن دیکھنا نہ پڑ تا“میری یا د داشت ساتھ نہیں دیتی ڈرامہ نگار اشفاق احمد تھا، بانو قدسیہ تھیں یا کوئی اور تھا جو بھی تھا اُس نے کہا نی میں ایک بڑی حقیقت سے پر دہ اُ ٹھا یا تھا اب، جبکہ کرپشن پر قابو پانے کے 101طریقے ازمائے گئے ہیں سب طریقے نا کام ہوئے ہیں پہلی تر جیح کے طور پر یہ طریقہ ازما یا جائے جو وزیر، ایم این اے یا ایم پی اے کر پشن میں پکڑا جائے اس کی بیگم کو سزا ئے موت دی جائے۔


شیئر کریں: