Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آرزوئے سحر….. قوم پرستی کا بت ایک بار پھر PTM کی شکل میں…. تحریر: انشال راؤ

Posted on
شیئر کریں:

تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو نظر آتا ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی روئے زمین پہ بسنے والی قومیں کسی نہ کسی صورت تفاخر کے مرض میں مبتلا رہی ہیں، کوئی نسل یا قومیت کے فخر تو کوئی رنگ یا زبان کی وجہ سے خود کو دوسروں سے الگ سمجھتے، دین اسلام قومیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن شناخت کے لیے جس کا ذکر رب کریم نے سورہ حجرات میں کیا کہ ” ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو” لیکن افسوس کہ ہم نے قومیت کا غلط استعمال کیا اور اس نظریہ فاسد نے قوموں کو تقسیم کرکے نفرتوں میں مبتلا کردیا، پیر اکرم شاہ الازہری لکھتے ہیں کہ “اس شر انگیز نظریہ نے جنگ و جدل کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھا، یہ صرف زمانہ قدیم تک محدود نہیں بلکہ آج بھی اس کے ہاتھوں انسانیت کی قبا تار تار ہے قوم پرستی، رنگ، نسل اور زبان کے بتوں کی پوجا آج بھی اسی زور سے جاری ہے” اگرچہ آج دنیا ایک گلوبل ولیج کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس بت نے سماج کو دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے، سب سے پہلے اس بت کو رسول خدا حضرت محمدؐ نے توڑا اور انسانیت کا درس دیا، حضور اقدسؐ نے تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا اور مسلمانوں کو ایک ملت بنایا اور اسی نظریہ کی بنیاد پہ ریاست پاکستان کا وجود روئے ارضی پہ قائم ہوا لیکن افسوس کہ جلد ہی ہم نے اپنی اصلیت اپنی اساس کو بھلا کر رنگ، نسل، زبان کے بتوں کی پوجا شروع کردی جس کی وجہ سے ملک و ملّت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، پاکستان کی تاریخ لسانی قوم پرستی سے بھری پڑی ہے کبھی پشتون کے نام سے تو کبھی بلوچ، کبھی سندھی تو کبھی مہاجر اور بنگالی کے نام پہ تحریکوں نے جنم لیا اور تاریخ شاہد ہے کہ جتنا نقصان ملک و ملّت کو نسلی و لسانی نعروں کی وجہ سے پہنچا شاید ہی کسی اور چیز نے پہنچایا ہو، یہ نسلی و لسانی تفریق ہی تھی جس کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان جیسا عظیم حادثہ پیش آیا لیکن اس کے باوجود ہم نے سبق نہیں سیکھا، ہم لسانیت کی لعنت میں اس قدر غرق ہوچکے ہیں تمام تر اخلاقی اقدار بھی کھوچکے ہیں یہ حقیقت ہمارے روز مرہ مشاہدے میں ہے کہ ہم قاتلوں اور بدعنوانوں کی حمایت میں بھی اس بنیاد پہ کھڑے ہوجاتے ہیں کہ وہ ہماری زبان یا علاقے یا قبیلے کے ہیں، اس سے بڑھ کر پستی کیا ہوگی کہ لسانی بنیاد پہ ہم مظلوم کے مقابلے میں ظالم اور حق کے مقابلے میں باطل کا ساتھ دینے سے بھی گریز نہیں کرتے، مشرقی پاکستان میں لسانی نعروں کے بعد ایسی نفرت نے جنم لیا کہ بھائی نے بھائی کا گلا کاٹا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت ہم سے الگ ہوگیا جس پر اندرا گاندھی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوے کہا جس کا مفہوم یہ ہے کہ “مسلمان ایک قوم ہیں اس نظریہ کو آج ہم نے سمندر میں غرق کردیا ہے” اس کے باوجود ہم نے سبق نہ لیا اور اس کے بعد سندھ میں ایک طرف تو سندھو دیش تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تو ساتھ ہی اس کے مقابل مہاجر قومی موومنٹ کے نام پر مہاجر تحریک نے شہری سندھ میں پنجے گاڑ لیے جس کے بعد سندھ ایک عرصے تک جلتا رہا، بات حقوق کی کی جاتی رہی لیکن پس پردہ مقاصد کچھ اور ہی نکلے، MQM تیس سال اقتدار میں رہی لیکن آج بھی ان کا رونا وہی ہے کہ مہاجروں کے حقوق جبکہ جئے سندھ کی آڑ میں سندھیوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کے خود کے تو محلات بن گئے بچے یورپ و امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں بہت سے وہیں سیٹل ہیں لیکن عام سندھی و عام مہاجر کی حالت “ہنوز روز اول است” کے مصداق ویسی ہی ہے جیسی ان تحریکوں کے قیام کے پہلے روز تھی اور اگر کچھ حاصل رہا تو وہ بےمعنی و بےمقصد کی نفرت کے سوا کچھ نہیں، اس کے علاوہ بلوچستان میں پانچ بار بلوچ نیشنلزم کے نام پر شورش نے جنم لیا بہت سے گھر اجڑ گئے، اول تو بلوچستان تقریباً ہی نظرانداز رہا لیکن اگر حکومت یا افواج پاکستان نے ڈویلپمنٹ کرنی شروع کی تو بلوچ حقوق و ڈویلپمنٹ کے علمبرداروں کو برداشت نہ ہوا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ کوئی منصوبہ بلوچستان میں کامیاب نہ ہو لیکن افواج پاکستان نے قربانیاں دیکر بہت سی مشکلات جھیل کر بلوچستان میں نہ صرف امن قائم کیا بلکہ بہت سے منصوبے بھی کامیابی سے جاری ہیں، پاکستان جب قائم ہوا تو ہندوتوا دہشتگردوں اور صہیونیت کے پیروکاروں کو دلی صدمہ ہو لیکن افسوس کہ ان کے علاوہ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے نہ صرف پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی ممبرشپ کے خلاف درخواست بھی جمع کروائی، اس کے علاوہ اوائل میں ہی پشتونستان کے نام پر علیحدگی کی تحریک کو ابھارا اور پاکستان میں خوب دراندازی کی، داود خان کی قیادت میں افغانستان نے نہ صرف کراس بارڈر ٹیررزم کو پروموٹ کیا بلکہ بلوچ و پشتون علیحدگی پسندوں کی کھل کر سرپرستی بھی کی جس کے جواب میں ذوالفقار بھٹو نے افغانستان کے خلاف سخت رویہ رکھتے ہوے جلد ہی اسے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا جسکے بعد سے ایک لمبے عرصے تک اس جانب سے پاکستان میں سکون رہا لیکن طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر افغانستان پاکستان مخالف سازشوں کا گڑھ بن کر سامنے آیا اور جب تمام تر سازشوں کو افواج پاکستان نے ناکام بنادیا تو PTM کے نام سے پشتونستان تحریک کے گڑھے مردے میں جان ڈال دی، جس طرح نقیب اللہ محسود کی شہادت کی آڑ میں ڈرامائی انداز میں PTM کو وجود حاصل ہوا اور جس پیمانے پر منظور پشتین کی عالمی و ملک کے مخصوص میڈیا نے تشہیر کی وہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پولیس مقابلے تو پاکستان میں ہزاروں ہوے لیکن کبھی ان میڈیا پرسنز کو کسی پشتون یا غیرپشتون سے اتنی ہمدردی نہیں ہوئی جبکہ شہید نقیب اللہ ہوا لیکن مخصوص میڈیا تشہیر منظور پشتین اور PTM کی کرتا رہا، PTM کا نعرہ ہے پشتون حقوق کا لیکن یہ بھی حران کن ہے کہ آخر پشتونوں کے ساتھ ملک میں کونسی ناانصافی ہے شروع سے ہی ملکی اقتدار کے بڑے حصے پر پشتون قابض رہے آج بھی ہیں، بنگلہ دیش سے آنے والے بنگالیوں کو چالیس سے پچاس سال بعد بھی تارکین وطن کہا گیا لیکن بہت سے افغان پاکستان کے شہری بھی بن گئے اور یہاں بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بھی ہوگئے، خیبرپختونخواہ میں پنجابی بلوچ یا سندھی سیٹل نہیں ہوسکتے لیکن اس کے باوجود تینوں صوبوں کی مارکیٹوں پر پشتون تاجران غالب ہیں اور کسی نے ان سے نفرت کا اظہار نہیں کیا، سرکاری ملازمتیں ہوں یا کوئی بھی اسکیم اس میں بڑا حصہ پشتونوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود جھوٹا نعرہ لگایا جارہا ہے کہ پشتونوں کو حقوق حاصل نہیں جوکہ پشتونوں کے ساتھ ہی دھوکہ فریب کیا جارہا ہے کیونکہ ایک بار اگر اس سازش کو زرا بھی کامیابی مل گئی تو اس میں نقصان جتنا محب وطن پشتونوں کا ہوگا اتنا کسی اور کا نہیں ہوگا، افغانستان نہ کل پشتونوں کا ہمدرد تھا نہ آج ہے، کل بھی لر او بر افغان کا نعرہ لگانے والوں نے افغانستان کی سرزمین پر غریب پشتونوں کے ساتھ ظلم کیا آج بھی جاری ہے، زرا سوچئے اگر افغانستان میں پشتونوں کو حقوق حاصل ہوتے تو وہ ترک وطن کرکے پاکستان آنے پہ مجبور کیوں ہوتے اور پاکستان و پاکستانیوں کا جگر بھی دیکھیں کہ سالوں سے افغان تارکین وطن کو بھائی سمجھ کر بوجھ برداشت کرتے آرہے ہیں لیکن اس کے باوجود افغان نیشنلز پاکستان میں مختلف جرائم پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ہزاروں افغان پشتون بن کر پاکستانی شہریت حاصل کرکے پاکستانی پشتونوں کے حق پہ ڈاکہ ڈالے ہوے ہیں بہت سے افغان چند سیاسی مافیاوں کی سرپرستی حاصل کرکے سرکاری ملازمتوں پر براجمان ہیں، بہت سی مراعات لے رہے ہیں، بہت سی اسکیموں سے مستفید ہورہے ہیں جس سے متاثر ہونے والے ہمارے پاکستانی پشتون ہیں لیکن اس کے باوجود کبھی کسی طرف سے افغان بھائیوں سے نفرت کا اظہار نہیں کیا گیا مگر افسوس ہے کہ اس کے باوجود نعرہ لگایا جارہا ہے “لر او بر افغان” جس کی آڑ میں ایک بار پھر پشتونوں کو ایک نئی جنگ میں جھونکنا ہے، برطانیہ امریکہ و دیگر یورپی ممالک میں بیٹھے افغان حضرات آج پشتونوں کے زبردستی کے ہمدرد بنے ہوے ہیں کیا کبھی انہوں نے کسی پشتون کی خیر خبر بھی لی ہے اور آج خوامخواہ کے ہمدرد بنے بیٹھے ہیں، اس صورتحال میں ہمیں من حیث القوم ایسی نفرت انگیز سیاست و سازش کا گلا گھونٹ دینا چاہئے تاکہ ملک و ملّت یک جائی، اخوّت و محبت سے ترقی کی شاہراہ پہ قدم مستحکم کرنے میں کامیاب ہوسکے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
31580