Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

*چترالی موسیقی: خامیاں کہاں ہیں؟…………احتشام الرحمن

Posted on
شیئر کریں:

ثقافت ایک وسیع ٹرم ہے جس میں رہن سہن, اخلاق و ادب, فنون لطیفہ, موسیقی, رقص, کھانا پینا, وغیرہ شامل ہیں. چترالی موسیقی چترال کی ثقافت کا ایک اہم جزو ہے. چترال میں ثقافت کے باقی اجزاء کو نظر انداز کر کے موسیقی ہی کو مکمل ثقافت جان کر اسے ہی اول و آخر سمجھا جاتا ہے. (یہ ہماری خوش قسمتی ہے یا بد قسمتی ہے, یہ ایک الگ بحث ہے) لیکن باوجود اس سوچ کے اس کے ساتھ نا انصافی ہوتی آئی ہے. اس لئے چترالی ثقافت اپنی شیرینی اور انفرادیت کے باوجود وہ مقام حاصل نہ کر سکی جو دوسری ثقافتوں کو حاصل ہیں.

جیو ٹی وی کے پروگرام “جیو پاکستان” میں منصور علی شباب جو کہ چترالی موسیقی کے ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، یہ گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ چترالی موسیقی کو اپنی انفرادیت اور شیرینی کے باوجود سرپرستی سے محروم ہونے اور حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا، جس کا یہ حق دار ہے.

اس کی ایک بڑی وجہ بزرگوں کی عدم توجہ, مختلف پروفیشنلز اور موسیقاروں کی غیر سنجیدگی اور اہل علم لوگوں کی اس سے دوری ہے. بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ جو اس ثقافت کے امین ہیں وہ بھی اس سے مخلص نہیں ہیں. ان موسیقاروں کی اکثریت سال میں تین چار بار کہیں محفل جما کر, شراب کے نشے میں دھت ہو کر ایک دو گانے گا کر پورا سال اسی سرور میں مگن رہ کر باقی پورا سال ضائع کر دیتے ہیں. یہ نہ صرف اپنے پروفیشن کے ساتھ نا انصافی ہے بلکہ چترالی ثقافت کے ایک اہم جز (موسیقی اور رقص) کے ساتھ بھی نا انصافی ہے. کیونکہ جو لوگ اس کے مخالف ہیں وہ ان حرکات کی وجہ سے بلا وجہ اور بلا جواز موسیقی کی مخالفت کرکے اس کو مزید کمزور کر دیتے ہیں.

لیکن جہاں اکثریت کی یہ حالت ہے وہاں کچھ مخلص لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس کے لئے کافی کچھ کیا ہے. جہاں منصور علی شباب ملکی اور عالمی سطح پر چترالی موسیقی کو پیش کر رہے ہیں تو وہیں قاشقارئین بینڈ چترال کے لوک اور پرانے گیتوں کو جدید اور مقامی آلات موسیقی کے ذریعے سے پیش کرنے میں مگن ہے. اسی طرح عرفان علی تاج اور ذولفقار بھی خوبصورتی سے اس کام کو سرانجام دے رہے ہیں. لیکن انکے کاموں میں بھی بہت محنت کی ضرورت ہے. وگرنہ آٹے میں نمک کے برابر یہ لوگ موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں. یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان خامیوں میں صرف انکو مورد الزام ٹھہرانا جائز نہیں بلکہ پوری سوسائٹی قابل سرزنش ہے.

چترالی موسیقی کی زبوں حالی میں شعراء حضرات کا کردار بھی قابل غور ہونا چاہیے. سوائے تین چار شعراء کے سارے خود ساختہ شاعر بنے ہوئے ہیں اور ان کی شاعری کی سرحدیں عورت کے ہونٹوں, بالوں اور گالوں سے آگے نہیں بڑھتی ہیں. اور باقی ماندہ طنز و مزاح کے نام پر لغویات کو شاعری کا نام دیتے رہتے ہیں.

اس کے بعد اس میں قصوروار اہل علم و دانش ہیں جو اس کے ساتھ دلچسپی نہیں رکھتے ہیں. موسیقی (جو کہ ان کی نطر میں مکمل ثقافت ہے) کے لئے ان کا پورا “کردار اور انکی خدمت” سال میں کسی مشاعرے میں جا کر چند اسعار پیش کرنا یا رقص کے جلوے دکھانا یا پھر دوسروں کو رقص کرتے ہوئے دیکھنے تک محدود ہے. اس غیر سنجیدگی کی وجہ سے ہماری موسیقی حکومت کی سرپرستی سے محروم اور ان کی ان بچگانہ حرکات کی وجہ سے عام لوگ بھی چترالی موسیقی سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں.

تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ دو دن پہلے چترال سکاوٹس کے ایک جوان افسر علی کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں انھوں نے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ڈانس اکیڈمی کھولنے کے عزم کا اظہار کیا ہے. چترال سکاوٹس کا یہ جوان اگر اپنے اس خیال میں کے اظہار میں سنجیدہ ہے تو یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے کیونکہ وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جو آوٹ آف دے باکس سوچ رہے ہیں. وگرنہ ملک خداداد پاکستان میں اپنے شعبے سے یکسر ہٹ کر ہسپتال بنانے, وزیر اعظم بننے اور تبلیغ پر جانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے.

یہی حال میوزیشنز کا بھی ہے. ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ منصور شباب صاحب بھی کوئی اکیڈمی کھولتے. قاشقارئین بینڈ والے بھی اکیڈمی کھول کر موسیقی کے آلات بجانا سکھاتے. افسر علی جیسے تین چار لوگ پیدا ہوتے جو ڈانس کے گر سکھاتے. (رقص تو سارے کرتے ہیں لیکن اتنی بے ربطی سے رقص کرتے ہیں کہ ایک ہی ساز کے لئے چار ڈانسرز بیک وقت چار مختلف قسم کے سٹپز لے رہے ہوتے ہیں جو کہ چترالی رقص کے ساتھ نا انصافی ہی نہیں بلکہ بے عزتی بھی ہے).

یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ حکومتی سر پرستی سے مراد موسیقی کی کوئی محفل سجانا نہیں بلکہ ان موسیقاروں کو پلیٹ فارم مہیا کرنا جہاں وہ اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں. کوئی ریکارڈنگ سٹوڈیو قائم کیا جائے جہاں چترالی گانوں کو ریکارڈ کیا جائے.

اس کے علاوہ اہل علم لوگوں کو موسیقی اور شاعری کے حوالے سے تربیتی پروگرامات ترتیب دینے چاہئے. شعراء کو چاہئے کہ وہ موسیقی میں شاعری کی اہمیت کو اجاگر کریں. شارت ٹرم شٹریٹیجی کے طور پر موسیقاروں کو بھی اسٹیج پر پروفیشنلزم کا مظاہرہ کر کے اچھے طریقے میوزک پیش کر کے موسیقی کے ساتھ جو اسٹگما جڑا ہوا ہے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.

لانگ ٹرم پلاننگ کے طور پر منصور شباب جیسے پروفیشنلز کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی میوزک اکیڈمی بنا کر موسیقی کی ٹریننگ دے کر اپنے جیسے چند اور ہیرے پیدا کرنے چاہئے. افسر علی جیسے لوگوں کی نہ صرف مالی معاونت کی جائے بلکہ ان کو حکومت کی ہر ممکن تعاون فراہم کیا جائے چاہے وہ اخلاقی ہو یا سیکیورٹی کے حوالے سے ہو, کیونکہ ہم مجاہدین اور حاجیوں کے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں دوسروں کا کچھ کرنا مجرا اور اپنے کسی عمل کو ناچ کہا جاتا ہے. لہذا سب کو مل کر کام کر کے ٹیم ورک کا مظاہرہ کر کے proactive طریقے سے نہ صرف مخالفین کو قائل اور مطمئن کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کو وہ مقام دینے کی بھی اشد ضرورت ہے جس کا یہ متقاضی بھی ہے اور حق دار بھی.


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
31344