Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آرزوئے سحر…. اسلامی و مغربی تہذیب کے مابین تصادم اور پاکستان….. تحریر: انشال راؤ

Posted on
شیئر کریں:

شر کی طاقتیں امن کی ہر کوشش کا گلا گھونٹ کر ظلم کا راج قائم رکھنا چاہتی ہیں اور اس ظلم کی چکی میں سب سے زیادہ پسنے والے مسلمان ہیں، کشمیر ہو یا بھارت، مڈل ایسٹ سے افریقہ تک امت مسلمہ ہی ظلم و بربریت کے آتش کدے کا ایندھن بنی ہوئی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف مسلمان یا ممالک ہی اس آگ کی لپیٹ میں کیوں ہیں؟ اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے جس کا اظہار جذباتی طور پر صدر بش کرگئے تھے لیکن بڑی خوبصورتی سے دیگر مغربی ممالک نے اسے War against Terrorism کا نام دیدیا، 1993 میں سیموئیل ہنٹنگٹن نے ایک مضمون بعنوان “تہذیبوں کا تصادم” لکھا جسے مصنف نے مضمون میں اٹھائے گئے مباحث کو وسعت کے ساتھ مذکورہ عنوان سے کتاب میں لکھا، گزشتہ چند برسوں میں رونما ہونے والے واقعات اور حال کی صورتحال نے ہنٹنگٹن کے مباحث و پیشین گوئیوں کو سچ ثابت کردیا ہے، مصنف نے اپنی کتاب میں تمام امت مسلمہ کو اسلامی تہذیب کے طور پر ایک قوم کے طور پیش کیا جبکہ چینی، مغربی تہذیب اور بھارتی یا ہندو تہذیب شامل کیا، ہنٹنگٹن کی پیشین گوئی کے مطابق اسلامی تہذیب کا ہندو اور مغربی تہذیب سے تصادم اور اس میں چینی تہذیب کی شمولیت کیساتھ ہی یہ تصادم عالمی جنگ میں تبدیل ہوجائیگا، اس میں کوئی دو رائے نہیں اسلامی تہذیب و مغربی تہذیب یا رومی سلطنت کے مابین نفرت و دشمنی کی آگ شروع سے ہی موجود چلی آرہی ہے جو جدید دنیا کے وجود کے بعد کچھ عرصہ کے لیے بظاہر دب گئی لیکن اس عرصے میں بھی براہ راست تصادم نے دوسری شکلیں اختیار کرلیں جن میں سفارتی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور علمی خاص ہیں لیکن نائن الیون کے بعد ایک بار پھر سے مغربی تہذیب نے براہ راست اسلامی تہذیب کے خلاف علم جنگ بلند کرلیا، جیسا کہ صدر بش کے بیان کہ “ہم نے صلیبی جنگ کا آغاز کردیا ہے” پر پوری امت مسلمہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تو فرانس و دیگر یورپی ممالک اور دانشوروں نے اسے War On Terror کا نام دیدیا اور بش کے اعلان کو زبانی غلطی قرار دیا، مغربی ماہرین نے تہذیبوں کے تصادم کی صورت میں مغرب کا برابر نقصان کا خدشہ ظاہر کیا تو بڑی خوبصورتی سے انہوں نے مختلف ہتھکنڈوں کے زریعے اسلامی ممالک میں آگ لگانا شروع کی، 2009 میں پاول اور کونڈولیزا رائس نے متواتر کیساتھ دہرایا کہ “امریکہ مڈل ایسٹ میں جمہوریت و معاشی اصلاحات کا خواہاں ہے” ایک موقع پر کونڈو لیزا رائس نے کہا کہ “US is committed to the march of freedom in middle east” پھر 2011 میں اٹھنے والی عرب اسپرنگ جس نے پورے خطے کو آگ میں جھونک دیا، کیا اس بات کی تصدیق نہیں کہ مغرب ہی اس سازش کے پیچھے تھا اور پھر کس طرح مختلف گروہوں کو لڑوایا گیا، ایک وقت تھا کہ ایران کو امریکی تعاون حاصل رہا اور جب کام مکمل ہوا تو ایران پھر سے دہشتگرد بن گیا، محض امریکہ ہی نہیں تمام اہل مغرب اس کے جھنڈے تلے موجود ہے، اور کم از کم نقصان برداشت کرکے امت مسلمہ کو تباہ کرنے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے امت مسلمہ کو تقسیم در تقسیم کر رکھا ہے کہیں مذہبی بنیاد پر تو کہیں علاقائی یا نسلی و لسانی بنیاد پر، مسلمانوں کے خلاف مغرب و ہندوتوا ایک پیج پر ہیں اور پاکستان انکا پرائم ٹارگٹ ہے ایسے میں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کی نجات کا واحد زریعہ باہمی اتحاد ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں مادی طاقت کے اعتبار سے امت مسلمہ کی کوئی ریاست بھی اس قابل نہیں جو ان کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہو، امت مسلمہ میں کوئی مضبوط طاقت ہے تو وہ پاکستان ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے پاکستانیوں کو علاقائی، مذہبی، لسانی بنیادوں پہ تقسیم کرکے کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور افسوس کہ ہمارے چند مخصوص اینکرز و تجزیہ نگاروں کا تو مشن ہی نفرتوں کو ابھارنا ہے، مبشر زیدی (ڈان) ہی کو دیکھیں کوئٹہ بم دھماکے کے بعد بجائے اس کے کہ شہداء کے لواحقین و زخمیوں سے ہمدردی کرتے لیکن موصوف یہ کہہ کر کہ “ریاست میں اہل بلوچستان کی کوئی اہمیت نہیں” نفرتوں و احساس محرومی پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، حامد میر سے مبشر زیدی تک ان درجن بھر زبردستی کے دانشوروں کے نزدیک عوام سے محبت و ہمدردی اور جمہوریت کی آڑ میں نفرتیں ابھارنا تو فرض عین بنا ہوا ہے لیکن زرا سوچئے! کیا کبھی ان حضرات نے خالصتاً عوامی مسائل اور اہم اشوز پہ کبھی کوئی بات کی ہے؟ ان کے نزدیک صرف فالتو کی بکواثات ہی اہمیت رکھتی ہیں کبھی ایک موقع بھی ایسا نہیں کہ ان صاحبان نے تعلیمی، قانون، آئین و قانون کے عملی نفاذ، میرٹ، مساوات پہ بات کی ہو، اسلام و پاکستان دشمن قوتوں نے کبھی بھی براہ راست پھوٹ نہیں ڈالی بلکہ کچھ زرخرید بےضمیروں کے زریعے اپنے مقاصد حاصل کیے، آجکل پشتونوں کے دلوں میں نفرتیں ڈالنے اور جذبہ جہاد پشتونوں کے دلوں سے نکالنے کے لیے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے حتیٰ کہ مفتی کفایت اللہ جیسی شخصیت بھی اس کا شکار ہوکر یہ کہتے نظر آئے کہ پشتونوں کو کلاشنکوف اور جہاد پاکستان آرمی نے دیا، مفتی کفایت اللہ صاحب اتنا تو بتادیں کہ موجودہ جہاد کا الزام تو پاک فوج پہ لگادیا گیا لیکن ماضی کی افغان خانہ جنگی اور جہادی تاریخ کا کسے الزام دوگے؟ احمد شاہ ابدالی مسلمانوں کی مدد کے لیے پانی پت پہنچ کر مرہٹوں سے الجھ پڑا کیا الزام پاک فوج کو دوگے؟ غزنوی و غوری کی مہمات کا الزام پاک فوج کو دوگے؟ پشتون قوم جسے کل تک فخر تھا اپنے اجداد کی اسلام کے لیے قربانیوں پر آج انہیں پڑھایا جارہا ہے کہ ان کے اجداد جاہل تھے، جن پشتونوں کے اجداد کی بدولت اسلام کو قوت حاصل ہوئی آج ان کی اولادوں کو سبق پڑھائے جارہے ہیں کہ تم پختون ہو، کل تک جو پشتون ابدالی کیساتھ جاکر مرہٹوں سے صرف اس لیے لڑے کہ اپنے مسلمان بھائیوں پہ ظلم ان سے برداشت نہ ہوا اور جن پشتونوں کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر سے مسلمان افغان جہاد میں شامل ہوے ان کے جذبے پہ شک نہیں کیا جا سکتا وہ خالصتاً اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کو آئے تھے نہ کہ امریکہ کے لیے ورنہ ویت نام وار میں تو امریکہ براہ راست فریق تھا لیکن کوئی مسلم اس کا حصہ نہ بنا، آج ان ہی مسلمانوں کو آپس میں پنجابی پٹھان بلوچ سندھی مہاجر کے نام سے تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے اور بہانہ محرومیوں کا بنایا جارہا ہے، منظور پشتین ہو یا کوئی اور کسی ایک نے بھی آج تک کسی سیاستدان کا گریبان تو دور سوال تک نہ کیا کہ آپ کو ووٹ دیکر اسمبلی میں بھیجا تھا عوام کے لیے کیا کیا، قانون کی عملداری کیوں نہیں، روڈ سڑکیں تو جنگ زدہ افغانستان و عراق میں ہم سے بھی بہتر ہیں، محض روڈ سڑک کی بنیاد پہ کوئی معاشرہ ڈویلپ نہیں ہوتا، کسی مہذب معاشرے کے لیے قانون، عدل و انصاف، مساوات و آزادی، معاشی وسائل و مواقع ضروری ہوتے ہیں لیکن جہاں قانون کا عملی نفاذ نہ ہو تو نہ مساوات ہوگی نہ انصاف نہ معیشت نہ ہی باہمی اتحاد، لیکن زبردستی کے انقلابیوں و زبردستی کے غریبوں کے ہمدردوں نے مشکوک انداز میں فوج کو تو نشانہ ضرور بنایا لیکن کبھی اصل مسائل و ضروریات کا ذکر تک نہ کیا، درحقیقت اس بگاڑ ہی کو بنیاد بناکر دشمن قوتیں مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہیں اگر اس جانب توجہ دی جائے تو یقیناً دشمن کامیاب نہ ہوگا اور نہ صرف پاکستان بلکہ یہ آگے چل کر پوری امت مسلمہ کا اتحاد ثابت ہوگا۔


شیئر کریں: