Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اسلام آباد؛ چترال اورگلگت بلتستان کے سرکاری افسروں کیلئے چارروزہ ورکشاپ

Posted on
شیئر کریں:

اسلام آباد(سیدنذیرحسین شاہ )اسلامی تہذیب نے عورت کو عزت واحترام دینے کے ساتھ ساتھ کائنات کا اہم ترین جز بھی قرار دیا،اسلام میں عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے، بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اسی قدر ضروری قرار دیاگیا ہے کہ جس قدر مردوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے۔جب ہم تصور زن کو دین اسلام کے رنگ میں دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بنیادی تخلیق میں مساوات زندگی کے بنیادی حق میں مرد وزن کی برابری، فرائض و عبادات میں کوئی تفریق نہیں ہے۔

ان خیالات کااظہارآغاخان رورل سپورٹ پروگرم پاکستان کے پروگرام منیجر جاویداقبال نے گذشتہ دنوں اے کے ارایس پی کے AQCESS پراجیکٹ اور پالیسی ادارہ برائے پائیدارترقی (ایس ڈی پی آئی) کے باہمی اشتراک سے چترال اورگلگت بلتستان کے سرکاری افسروں کے لئے جنیڈر،ماں اوربچے کی صحت،سول رجسٹریشن اوردیگرموضوعات پرمنعقدہ چاروزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
.
ورکشاپ میں چترال اورگلگت بلتستان کی سرکاری محکموں کے 25ذمہ داروں نے حصہ لیا۔تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے پالیسی ادارہ برائے پائیدارترقی (ایس ڈی پی آئی) کے بانی رہنما(ریٹائرڈ)بریگیڈرمحمدیاسین،ڈاکٹرشاہدمنہاس،ڈاکٹرعائشہ بابر،ڈاکٹرافشان ہما،سعدیہ ساٹھی،احمدعثمان،رضاء علی سید،ڈاکٹرعمران خالد،صفدررضاء،اے کے آرایس پی کے یاسمین کریم اوردیگرنے کہاکہ خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اورباعزت مقام دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرکے عورت کو معاشرے کا برابر شہری سمجھ کر اُن کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کیا جائے۔خواتین خاندان کی صحت کو فروغ دینے اور دیکھ بھال کرنے میں ایک اہم کردار ادا رہی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں مرد وخواتین کو برابر حقوق حاصل ہیں اور صنف کی بنیاد پر تفریق کی کسی بھی سوسائٹی میں گنجائش نہیں ہے۔ ایک معاشرے کے اندر مرد اور عورتوں کے درمیان برابری کی طرف پیش قدمی ایک بہتر معاشرہ کے قیام کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔انہوں نے کہاکہ جینڈر ریفارم پروگرام کے ذریعہ خواتین کو ہر سطح پر برابر لانے کا کام شروع ہے۔ قانونی تحفظ کے لیے قانون سازی کی گئی۔ صحت اور روزگار کے لیے بہت کام ہوئے مگر پاکستانی خواتین عالمی سطح اور جنوبی ایشیاء کے مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ معاشرتی رویہ ہے جو خواتین کے کام کے صلہ اور حیثیت کو کم کرتے ہیں عام طور پر خواتین کے کام کو گِنا ہی نہیں جاتا۔ دیہات میں خواتین مردوں کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ کام کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ شہروں میں بے شمار خواتین غیر روایتی شعبوں میں کام کرتی ہیں مگر انکے کام کو قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہاکہ چترال اورجی بی کے دور درزاورپسماندہ علاقوں میں خواتین کو علاج معالجے کی سہولیات کی یکسان فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے معاشرے کے تمام طبقوں میں آگاہی کی سطح کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
.
انہوں نے کہاکہ صنفی نا انصافی کی نمایاں صورتیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور ایک عہدسے دوسرے عہد میں مختلف ہو سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ صنفی نا برابری کے اثرات جوکہ مردوں اور عورتوں کی زندگیوں پر بری طرح سے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عورت کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے جوں جوں عورت اپنے حقوق حاصل کرتی جائے گی اسی رفتار سے ملک ترقی کرے گا۔
مقریرین نے کہاکہ ملک کے پسماندہ اوردورافتادہ علاقوں میں مائیں بچوں کو جنم دیتے ہوئے موت کے منہ میں چلے جانے کا تناسب کافی حد تک زیادہ ہے۔ اور جو بچ بھی جاتی ہیں ان میں سے بھی بڑی تعداد میں کمزوری کے باعث بچے میں مطلوبہ قوت کی منتقلی کے قابل نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے شیر خوار بچوں کی بڑی تعداد دنیا کا دلکش حصہ بننے سے پہلے ہی منہ موڑ جاتی ہے۔ ہمیں اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمارے معاشرے کے موجودہ حالات اور خواتین کی جانب ناانصافی اور عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے آپ کی بیٹی کو آپ کی توجہ کی ضرورت بیٹے سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ بے شک اسے وہ زیادہ توجہ نہ دیں، مگر کم سے کم اپنے بیٹے کے برابر ضرور دیں۔ مناسب لائحہ عمل کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم جنسی نا انصافیوں کے خاتمے، ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی لانے میں آج بھی ناکام ہے۔انہوں نے کہاکہ دوران حمل، بچے پیدائش اور دودھ پلانے کے دوران ماں کو خصوصی طور پر صحت کے بنیادی سہولتیں حاصل کرنے کا حق ہے تاہم اس کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری مائیں ان سہولیات سے استفادہ نہیں کرپاتیں ہیں۔جو بعد میں بہت ساری پیچیدگیوں، یہاں تک کہ اموات کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت کا بنیادی اصول تمام شہریوں کی آئینی، قانونی، سماجی اور معاشی مساوات ہے۔ ہم اپنے گھر، گلی محلے اور شہر میں جنس، عقیدے، ثقافت اور ذات پات کی بنیاد پر پسماندہ، از کار رفتہ اور غیر جمہوری رویوں کی حمایت کرتے ہیں اور اسمبلی میں جمہوریت مانگتے ہیں۔ جمہوریت ایک ریاستی بندوبست کے علاوہ ایک معاشرتی ثقافت بھی ہے۔
.
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اس حوالے سے تشویش اس لیے بھی پائی جاتی ہے کہ یہاں تعلیم کی کمی نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کرکے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ انسانیت میں یقین رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جو معاشرے میں خواتین کو برابری کا درجہ دینے کا حامی نہ ہو۔ اسلام مذہب کا اگر پوری ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے مردوں کے مقابلے کئی میدانوں میں عورتوں کو زیادہ حقوق دیئے ہیں۔ سماجی تنظیبموں کو خواتین کے حقوق کی آگاہی اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کیلئے اپنی جدوجہد کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ اسی سلسلے گھرگھرآگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔
.
شراکاء ورکشاپ سے خطاب کرتے مقریرین نے کہاکہ بچے ہرگھرکی رونق اورخاندان کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ تاہم صرف بچوں کی پیدائش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ ماں اوربچے کاصحت مند ہونابھی اتناہی ضروری ہے جتناکہ بچے کادنیامیں آنا۔ بچوں کاصحت وتندرستی کے ساتھ دنیامیں آنا ہرماں باپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔مقریرین نے کہاکہ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بچوں کی پیدائش میں وقفہ کی بات کی جاتی ہے توخاندانی منصوبہ بندی کی بات ذہن میں آتی ہے اور اس کے پیچھے کوئی سازش نظرآنے لگتی ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے درکنار اگریہ سوچاجائے کہ عورت جوبچے کو9ماہ اپنی گودہ میں رکھ کراسے پروان چڑھاتی اور جنم دیتی ہے، پھراس کی پرورش،رضاعت اورنگہداشت بھی اسی کی ذمہ داری ہے تو کیاوہ اس بات کی حقدارنہیں کہ سارے عرصے میں اس نے جوتکلیفیں سہی ہیں اورجن کمزوریوں کاوہ شکارہوئی ہے پہلے اس کاازالہ کرلیاجائے۔
.
انہوں نے مزیدکہاکہ ہمارامعاشرہ غذائی قلت کاشکارہے۔ متوسط طبقے کی آمدنی اتنی کم ہے کہ گھریلو اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے تو حاملہ عورت جسے اضافی غذائی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے پوری کرے۔ غذائی قلت ماں کی صحت کوتباہ کردیتی ہے کیونکہ قدرتی طورپربچے کی افزائش کاعمل کچھ ایساہے کہ بچہ تو ماں سے اپنی غذائی ضرورت پوری کرلیتاہے لیکن ماں کمزورسے کمزورترہوتی چلی جاتی ہے۔ بچے کی افزائش، پرورش اور بہتر نشوونما کے لیے ماں کی صحت کابہترہونابھی ضروری ہے۔
.
سول رجسٹریشن کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے مقریرین نے کہاکہ یہ ہر شہری پر فرض ہے کہ وہ اسے قومی فریضہ سمجھ کر پیدائش وموت، نکاح وطلاق کی صورت میں رجسٹریشن کو یقینی بنائے اور یہی آگے جاکر قومی ڈیٹا بیس کو بھی اپ ڈیٹ کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں منصوبہ بندی کا فقدان اس لئے ہے کہ ہمارے پاس زندگی کے مختلف شعبوں کے مختلف گوشوں کے بارے میں ڈیٹا کی کمی ہوتی ہے اور ہمارے منصوبہ کار بغیر کسی قابل اعتماد اعدادو شمار کے پلاننگ کرتے ہیں جوکہ آگے جاکر ناکامی پر منتج ہوتے ہیں۔مقریرین نے جی بی اورچترال کے گورنمنٹ کے ذمہ داران پر زور دیاکہ وہ سول رجسٹریشن کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں اور توانائی بروئے کارلے آئے۔SDPI اور AQCESSپراجیکٹ کے تحت تربیت کو نہایت سودمند قرار دیتے ہوئے ٹریننگ کے شرکاء پر زور دیاکہ سول رجسٹریشن کے بارے میں حاصل شدہ معلومات کو گھر گھر پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں جس کے ثمرات بہت جلد ہی سب سے عیاں ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ رجسٹریشن حکومتی اداروں کوشہریوں کیلئے بہترسہولیات مہیاکرنے کی منصوبندی کے لئے اعدادشمارمہیاکرتاہے اور ان اعدادشمارکی بدولت حکومتی ادارے صحت جیسے سہولیات کے لئے بہترحکمت عملی تیارکرسکتے ہیں جوگلگت بلتستان اورچترال جیسے پسماندہ علاقے کے لئے نہایت ہی اہم ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں مقامی حکومتیں باہمی اشتراک سے نادراکے ساتھ کام رہے ہیں تاکہ شہریوں کواس عمل میں دشواری نہ ہو۔شمالی علاقہ جات میں سول رجسٹریشن کے حوالے سے آگاہی انتہائی کم ہے اور اکثر والدین بچوں کی برتھ رجسٹریشن بھی نہیں کرواتے جوکہ والدین کی قانونی ذمہ داری اور بچے کا بنیادی حق ہے۔
.
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ریاست کے پلاننگ کے عمل کیلئے بنیادی اعداد و شمار کا حصول ضروری ہوتا ہے جب ہمارے پاس بنیادی اعداد و شمار موجود نہیں ہونگے تو ہم کسی بھی شعبہ میں بہتر منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہاکہ اہم نوعیت کے اعداد و شمارکے حصول کیلئے محکمہ لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی اپنا بھرپور کردار ادا کرناچاہیے۔پیدائش اموات، شادیوں، طلاق اور دیگر بنیادی ڈیٹا کا حصو ل ممکن ہو سکے گا اور اس کو کمپیوٹرائزڈ کرکے نادرا کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔
.
دوران ورکشاپ (ایس ڈی پی آئی)کے زیرنگرانی الشفاء ٹرسٹ ہسپتال اوررہنمافیملی پلان ہسپتال اسلام آبادکادورہ کرایاگیاجہاں ڈاکٹرعائشہ بابر،ریجنل ڈئریکٹررہنمافیملی پلان ہسپتال زاہد،ڈاکٹرنورین فلاک نے ہسپتال کے اعرازمقاصدبتاتے ہوئے ہسپتالزکاتفصیلی معائنہ کروایااوروکشاپ میں گروپ ورک کرکے دوران ڈیوٹی مسائل کامشق کرایا۔پروگرام کے آخرمیں شراکاورکشاپ کوتعریفی اسنادسے نوازاگیا۔
akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 1

akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 11

akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 4

akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 3
akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 7


شیئر کریں: