Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان……ڈی ایم او منہاس صاحب کا دورہ بمبوریت…..محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

بدلتے دور کے تقاضے ہی ایسے ہیں کہ ان پر پورا اُترا جائے۔علم اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہم سے تھوڑی سی کوتاہی ہوئی تب اس کاخمیازہ بھگت رہے ہیں جس سائنس اور ٹیکنالوجی کی ابتداء ہم سے ہوئی تھی وہ ہم سے چھٹ گئی اغیار نے اپنایا تو ہم پر حکمران بنے آج ہم حیران و پریشان ہیں ایک دوسرے کو کوستے ہیں طعنہ دیتے ہیں ملامت کرتے ہیں۔ہمارے ہاں ڈھنگ کی یونیورسٹی نہیں۔معیاری تعلیم نہیں۔حکومت اس پہ ویویلا کرتی ہے حالانکہ یونیورسٹی اس کو بنانی ہے۔۔تعلیمی معیار مسلسل گر رہا اس کا رونا استاد روتا ہے حالانکہ تعلیم دینا استاد کا کام ہے بحیثیت قوم یہ ہماری بد بختی ہے۔۔گورنمنٹ کے اداروں میں تعلیمی عمل تسلی بخش نہیں یہ سب کو پتہ ہے۔۔اس میں قصور حکومت کا بھی ہے والدین کا بھی ہے اور بچوں کا بھی ہے لیکن سب سے بڑا قصور اساتذہ کا ہے۔۔وہ اپنے کا م کو مشن اور جذبہ نہیں سمجھتے۔محض مزدوری سمجھتے ہیں۔اس لئے جس کام میں خلوص شامل نہ ہو اس کام میں معیار نہیں آتا۔۔حکومت کا سکولوں میں مانیٹرنگ سسٹم بہت خوش آئند ہے اس میں سکولوں کے ذمہ داروں کو اس سسٹم کو کامیاب بنانا چاہیے تاکہ اُستاد کے کام کا محاصبہ ہو۔استاد کو احساس ہو کہ اس کا کوئی نگران بھی ہے اس کے کام کی نگرانی ہو رہی ہے۔۔سکولوں میں ماہانہ ڈی سی ایم ائیز کا آنا اچھی کاوش ہے۔اس سسٹم کے متعارف ہونے کے بعد دو چار ڈی ایم اوز کے ساتھ کام کا تجربہ رہا۔طارق صاحب،مظہر صاحب،صالح صاحب اور منہاس صاحب نے میرے سکول کا دورہ کیا۔۔سب کا استادی کا تجربہ تھا سب نے مسائل کا پوچھا۔۔سب کے پاس خلوص اور درد تھا۔۔مظہر کو اساتذہ کا اتنا خیال تھا کہ ان کے سامنے رجسٹر بھی چیک نہ کرتا۔کہا کرتے۔۔یہ معاشرے کے کریم ہیں۔ان کو اساتذہ کاپاس لحاظ بہت تھا۔آج کے اس مادہ پرستی میں جہان ظاہری شان آن کا راج ہے وہاں ان خاموش کرداروں کی قدر کرنا بڑائی ہے۔۔منہاس نے بیس دسمبر کو ہائی سکول بمبوریت کا دورہ کیا۔سکول میں کلاش فسٹیول کی وجہ سے بچے بہت کم تھے۔سکول کے پرنسپل محمد اجمل خان اپنے سٹاف کے ساتھ موجود تھے۔سکول کا مختصر دورہ ہوا۔ بچوں سے ملے کلاسوں میں گئے۔بچوں کی تعریف کی۔ یہ رسمی سی باتیں ہیں لیکن منہاس کا درد جو تھا وہ دیدنی تھا اس نے اس رسمی دورے کو میرے نزدیک رسمی ہونے نہ دیا۔۔اس کے سینے میں درو تھا اس کو اس قوم،قوم کے مستقبل اور قوم کے نونہالوں کی فکر تھی اس کو لگتا تھا کہ سب اس موضوع پہ بات کریں اس مسلئے کو چھیڑیں۔اس کا حل ڈھونڈیں۔اپنے عزم کااظہار کریں۔تعاون کا یقین دلائیں اور بر ملاکہہ دیں کہ اس قوم کا مستقبل انکے ہاتھ میں ہے۔۔مگر اساتذہ تھے کہ موضوع بدلتے۔۔فضول گپ شپ لگاتے۔۔اپنا منہ میاں مٹھو کرتے۔دعویٰ کرتے کہ اُن کابہت کچھ کرنے کا ارادہ ہے اور کر بھی چکے ہیں۔منہاس کو ایسے دعوؤں سے کتنے گن آتا ہوگا۔۔مجھے سراپا شرمندگی ہو رہی تھی کہ میرا جو کام تھا ادھورا ہے،میرا مشن ادھا ہے میں نے اس قوم کو کیا دیا۔۔ایک استاد کو بہت دعویٰ ہوتا ہے کہ میرے شاگرد۔۔مگر شاید شاگرد کو دعویٰ نہ ہو کہ یہ میرا استاد ہے۔۔اس نے واقعی زندگی کا درس دیا ہے۔۔دنیا کے عظیم اساتذہ اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے کہ میں استاد ہوں۔۔معاشرہ خود اس کو مقام دیتا ہے۔منہاس کو اس بات کا احسا س تھا۔کہ اس کے اداروں میں اساتذہ کا کردار مثالی نہیں۔۔اس کے وجیہ چہرے پہ یہ افسردگی نمایان تھی۔انھوں نے بڑے پر درد الفاظ سے مجھ سے کہا۔۔سر! سکولوں میں ہمارے اساتذہ دوسرے دن آکر حاضریاں لگاتے ہیں۔۔میں زمین میں گڑھ سا گیا۔۔خواہ وہ باجیاں ہوں یا بھائی ہوں۔۔وہ سچ کیوں نہیں بتاتے۔۔وہ چھٹی کیوں نہیں لیتے۔وہ اپنے کام میں جان کیوں نہیں کھپاتے۔سر!ہمارے ایک پرایؤیٹ سکول میں تنازعہ ہوا مسئلہ زیادہ کام کا تھا لیکن سر اساتذہ نے قبول کرلیا۔۔اساتذہ اللہ کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے۔۔نہیں نہیں مثالی اساتذہ بھی ہیں۔۔ان کے سینے میں درد ہے وہ ڈیوٹی کو زندگی اور اور موت کا مسئلہ سمجھتے ہیں منہاس کو اُمید تھی کہ اس قوم کے اساتذ ہ وقت اور دور کے تقاضوں کو محسوس کریں گے اور اس قوم کو بدلنے میں کردار ادا کریں گے۔ منہاس ایک عظیم علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں اس کی خاندانی شرافت اس کی آفیسری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔وہ ہر ایک کا دل سے احترام کرنے پہ مجبور ہیں۔وہ ایک ضلعے کا ذمہ دار ہے مگر اس ضلعے کو اپنا گھر سمجھتا ہے۔وہ ایک پر عزم اور بانکا آفیسر ہے۔اس کو کام میں سکون ملتا ہے۔اس لئے فرض کو فرض سمجھتا ہے۔وہ اداروں میں جاکرپہلے مسائل کا پوچھتا ہے پھر ان کے حل کا سوچتا ہے۔اس کے پاس ایک عزم ہے ایک ہدف اور منزل۔۔زندگی کو جد وجہد گرداننے والے ایسے ہی ہوتے ہیں وہ کبھی بھی سرنڈر نہیں کرتے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں۔منہاس سے اُمید ہے کہ وہ اداروں میں اپنے خلوص کی طاقت سے اصلاح لانے میں کامیاب ہونگے۔مجھے چترال کے نوجواں آفیسروں سے یہی اُمید ہے۔اگر روشن تاروں کا یہ جھرمٹ بھی چترال کے اندھیرے آکاش کو منور نہیں کیا تو آگے ٹاکمٹوئیاں ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
30443