Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آرزوئے سحر ………ہائبرڈ وار سقوط بنگال سے آج تک……..تحریر: انشال راؤ

Posted on
شیئر کریں:

غزوہ احد اسلامی تاریخ کا اہم ترین تاریخی موڑ ہے کہ جس کے بعد مسلمان سخت پریشان کن اور تکلیف دہ رہے کیونکہ غزوہ بدر کے بعد جو فضا پیدا ہوئی تھی وہ خاصی کم ہوگئی، قرب و جوار میں جو دھاک بیٹھ گئی تھی وہ جاتی رہی، ان نامساعد حالات میں اہل ایمان کو تسلی دی گئی کہ “مسلمانو! دل شکستہ نہ ہو اگر تمہیں زخم لگا ہے تو ایسا ہی زخم غزوہ بدر میں کفار کو بھی لگا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری وہ تو دوبارہ منظم ہوکر آئے، گھبراو نہیں، دل شکستہ نہ ہو، یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو” اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اہل ایمان نے اپنی کمزوریوں و غلطیوں کا جائزہ لیکر اصلاح کی، منظم ہوے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قیصر و کسریٰ کو اپنے قدموں میں جھکایا، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں انسان کو ہمت نہیں ہارنی چاہئے، اس وقت کچھ منافق بھی تھے جو مسلمانوں کے حوصلے پست کرتے پھرتے اور مختلف پروپیگنڈے کرتے پھرتے تھے اور جب وہ باز نہ آئے تو آپؐ نے سبق بھی سکھایا، بالکل ایک زخم ماہ دسمبر 1971 میں پاکستان کو بھی لگا جب ایک بڑا تغیر آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک قوم دوسری قوم میں بدل گئی اور تکلیف دہ بات یہ کہ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور 23 مارچ ہی کے دن پاکستان دولخت ہوا جب شیخ مجیب کے پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں سے بات نہ بنی اور مذاکرات ناکام ہوگئے اسی مذاکرات کی ناکامی کے بعد شیخ مجیب نے مکتی باہنی کے مسلح دستوں سے سلامی لی اور شیخ مجیب کی رہائش گاہ سمیت ڈھاکہ کی اہم عمارتوں پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرانے لگا، عوامی لیگ کے کارکنان نے پاکستانی پرچم نذر آتش کیا، قائداعظم کا پتلا بنا کر جلایا، عجیب تکلیف دہ منظر تھا کہ جس شہر سے مسلم لیگ نے جنم لیا جہاں پاکستانی پرچم بنا اسی شہر میں اس کا پرچم جلایا جارہا تھا، سڑکوں پر جے بنگلہ کے نعرے تھے اور ریڈیو سے سنار بنگلہ بطور قومی ترانہ نشر ہونے لگا وہ واقعی 23 مارچ جسے ہم یوم استقلال کے طور پر مناتے ہیں اسے یوم مزاحمت و بغاوت کے طور پر منا رہے تھے اور اسی کے ساتھ مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کردیا، جگہ جگہ سے پاکستان کی علامتوں کو ہٹادیا گیا اور ہر جگہ بنگلہ دیش کے پرچم نظر آتے تھے، یہ محض ایک دو مہینے کی کاروائی نہیں تھی بلکہ سالوں پہلے سے علیحدگی کے لیے چلائی گئی تحریک کا نتیجہ تھی جس کا اعتراف 16 دسمبر کو اپنے کالم میں بنگلہ تحریک کی سرگرم رکن میلیہ علی نے کیا کہ وہ 60 کی دہائی سے ہی آزادی یعنی علیحدگی کے لیے عوامی لیگ میں کام کرنا شروع ہوگئی تھیں اس کے علاوہ 7 مارچ 1971 کو شیخ مجیب کی تقریر میں علیحدگی کا اعلان کردیا گیا تھا ایسے میں پاک فوج پر غلط آپریشن کا الزام لگانا کسی طور بھی جائز نہیں اور یہ بھارتی پروپیگنڈے کا حصہ ہے جو اپنی مداخلت کو جائز قرار دینے اور چھپانے کے لیے پاک افواج پہ الزام لگاتے رہے ہیں حالانکہ آپریشن سرچ لائٹ تو 25 مارچ کے بعد شروع کیا گیا جوکہ مکتی باہنی کے قتل و غارت کے ردعمل کے طور پر کیا گیا، جس کا اعتراف خود شیخ مجیب کو مجبوراً کرنا پڑا جب ایک اطالوی صافی Fallaci نے شیخ مجیب سے سوال کیا کہ مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے ڈھاکہ اسٹیڈیم میں ہزاروں بیگناہوں کو قتل کیا تو شیخ مجیب نے پہلے تو نفی کی جس پر Fallaci ڈٹ گئیں کہ مجھ سمیت ہزاروں افراد اس کے گواہ ہیں تو شیخ مجیب نے کہا کہ وہ رضاکار تھے دہشتگرد نہیں، اور مودی کے دورہ بنگلہ دیش کے موقع پر مکتی باہنی میں شمولیت کے اعتراف کے بعد تو اب کسی دلیل یا ریفرینس کی ضرورت ہی نہیں لیکن کچھ آل عبداللہ بن ابئی سیاستدان و صحافی آج بھی افواج پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرانے پہ بضد ہیں جبکہ نریندر مودی کا اعتراف ان کی زبان پر ایک بار بھی نہیں آیا، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مکتی باہنی کے دو گروہ تھے ایک نیوموتوباہنی دوسرا گونوباہنی اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ نیوموتوباہنی کے دہشتگردوں نے شیخ مجیب کی 7 مارچ کی تقریر کے بعد سے غیربنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کو قتل کرنا شروع کردیا ہے جس کا ذکر بریگیڈئر صدیق سالک نے اپنی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” میں تفصیلاً کیا ہے، حامد میر و ہم خیال صدیق سالک صاحب کی کتاب کے ریفرینس سے آپریشن کی باتیں تو کردیتے ہیں لیکن ان کی زبانوں سے یہ کبھی کسی نے کہتے نہیں سنا ہوگا کہ مکتی باہنی کے دہشتگردوں نے پہلے کتنی قتل و غارت کی، بقول صدیق سالک جیسور میں مکتی باہنی دہشتگردوں نے تمام غیربنگالیوں کو قتل کردیا، حامد میر صاحب میجرمشتاق کی خودکشی کے مبہم واقعے کا تو ایسے ذکر کرتے ہیں جیسے ان سے بڑا دکھی کوئی نہ ہو مگر کبھی میجر ضیاالرحمٰن بنگالی آف چٹاگانگ کی کاروائی کا ذکر نہیں کیا کہ جب تک پاک فوج وہاں پہنچی تو 12 ہزار سے زائد فوجی و غیرفوجی پاکستانیوں کو شہید کیا جاچکا تھا اس کے علاوہ جودھے پور میں مکتی باہنی والوں نے کتنے ہزار شہید کیے حامد میر صاحب کبھی اس کا بھی ذکر کیا ہوتا اور یہ بات کردینا کہ آپریشن کی وجہ سے مکتی باہنی نے جنم لیا تو اس سے بڑا مذاق دنیا کی تاریخ میں نہیں سنا گیا کہ ایک دو ہفتے کی ٹریننگ کی بنیاد پہ مکتی باہنی منظم ہوکر کھڑی ہوگئی جبکہ مغربی محققین و مورخ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مکتی باہنی کو نہ صرف بھارت نے ٹرینڈ کیا بلکہ بھارتی افواج بھی اس میں شامل تھی اس کے علاوہ اہل مغرب اس بات پہ متفق ہیں کہ دو ہفتے میں اتنی منظم و تربیت یافتہ جماعت پیدا نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے پیچھے کوئی لمبے عرصے کی محنت و تربیت شامل ہے، پاکستان میں حقیقت کو مسخ کرکے پیش کرنا اور افواج پاکستان کو نشانہ بنانے کے پیچھے نہ تو کسی کی بنگالیوں سے محبت و ہمدردی ہے نہ پاکستان سے دلچسپی بلکہ یہ ایک دشمنان پاکستان کا دیرینہ ایجنڈہ ہے جو افواج پاکستان کا مورال ڈاون کرنا اور کمزور کرنے پہ برسوں سے عمل پیرا ہیں تاکہ پاکستان کو بھی افریقی ممالک کی طرح آسانی سے نوچا جاسکے، کتنی عجیب بات ہے کہ 1971 کی جنگ کا حقائق کے منافی ذکر تو بڑھا چڑھا کر کیا جاتا ہے جبکہ سوویت کے پرخچے اڑانے جیسی عظیم کاروائی کا ذکر غائب ہے اور اگر ہے بھی تو اسے بھی غلط رنگ دیکر پیش کیا جاتا ہے جبکہ امریکہ کی مثال سامنے ہے ویت نام میں شکست کے باوجود اہلیان امریکہ کی طرف سے کبھی مورال ڈاون نہیں کیا گیا بلکہ اپنی افواج پہ فخر کیا گیا، ایک پاکستان ہے جہاں چند نام نہاد دانشور و سیاستدان افواج پاکستان کو بلاجواز بلادلیل نشانہ بناتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افواج پاکستان نے 1948 کی جنگ میں بھارت کو دھول چٹائی تو ہی وہ بھاگتا ہوا اقوام متحدہ پہنچا، 1965 کی جنگ میں چاروں زانوں چت کیا تب ہی روس کی مدد کو بھاگا، 1999 میں کارگل جنگ میں بھارت کا کیا حال کیا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے اور وزیراعظم کا کردار بھی سب کے سامنے ہے، افغان جنگ میں سپرپاور سوویت کو جس طرح بنگلہ دیش میں بھارت کی مدد کرنے کا قرض سود سمیت چکایا وہ بھی محفوظ ہے، 1971 میں بھی اندرونی سازش تھی ورنہ پستی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا لیکن اس کے باوجود افواج پاکستان مقابلے پہ ڈٹی رہی اور جنگ بندی کی وجہ بھی کوئی شکست نہیں تھی بلکہ مکتی باہنی کے دہشتگردوں کے ہاتھوں پاکستان سے محبت کرنے والوں اور غیربنگالیوں کا قتل عام تھا جن کی جانوں کو محفوظ بنانے کے لیے یہ قربانی بھی دینا پڑی اور حامد میر جیسے دانشوروں کو موقع ہاتھ لگ گیا، کہا جاتا ہے بنگالیوں سے ناانصافی ہوئی انہیں محروم کیا گیا وغیرہ وغیرہ، اب اس سے بڑھ کر حقیقت سے مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ طبقہ جن میں سے زیادہ تر وفاقی کابینہ کا حصہ ہوں، دوسرا گورنر جنرل و دوسرا وزیراعظم خواجہ ناظم الدین بنگال سے ہو، ملک کے اولین چار وزراء اعظم حسین شہید سہروردی، محمد علی بوگرہ، نورالامین وغیرہ بنگال سے ہوں تو ایسے میں یہ بھونڈا الزام بھلا کیونکر مناسب ہوسکتا ہے کہ بنگالیوں سے ناانصافی ہوئی، اس کے علاوہ دیگر تجارتی معاشی و ملازمتوں کے اعداد و شمار آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جن کو آج کے ترقی یافتہ بنگلہ دیش سے بھی موازنہ کیا جائے تو حقیقت سامنے آجائیگی، اب جنرل مشرف پہ غداری کی تہمت لگادینا اسی دیرینہ پلاٹ کا حصہ ہے جو عرصے سے دشمنان پاکستان کا خواب ہے کہ وہ کسی طرح افواج پاکستان کو زیر کرکے پاکستان کو نگل سکیں لیکن انشاءاللہ دشمن کی یہ سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی، ہائبرڈ جنگ ہی کا نتیجہ تھا کہ بہت سے سادہ دل اہلیان بنگال پاکستان مخالف ہوے اور آج ایک بار پھر پوری شدت سے ہائبرڈ جنگ پاکستان پہ مسلط ہے مگر افسوس کہ بہت سے نامور صحافی، دانشور، سیاستدان اس بیرونی سازش میں پیش پیش ہیں اور اس کا حصہ ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
30282