Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گندھار تحقیقی مرکز کے قیام کی نوید…….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا حکومت اور جنوبی کوریا کے درمیان گندھارا تحقیقی مرکز کے قیام پر اتفاق ہوا ہے۔ صوبائی وزیر سیاحت کے ساتھ ملاقات میں جنوبی کوریا کے سفیر نے مذہبی سیاحت کے فروغ کے لئے صوبائی حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیر سیاحت نے کوریا کے سفیر کو بتایا کہ صوبے میں بدھ مت کے دو ہزار سے زیادہ تاریخی اور مقدس مقامات ہیں حکومت ان کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے تاکہ مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جاسکے۔خیبر پختونخوا کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی حسن سے مالا مال کیا ہے۔ یہ خطہ ازمنہ قدیم سے مختلف اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کا اہم مرکز رہا ہے۔ گندھارا تہذیب اس خطے کی قدیم ترین تہذیب مانی جاتی ہے اور یہاں جابجا گندھار تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔ ملاکنڈ، ہزارہ ڈویژن کے علاوہ کرم، اورکزئی، خیبر، باجوڑ، مہمند، شمالی و جنوبی وزیرستان کے پہاڑ کہیں گھنے جنگلات تو کہیں معدنی ذخائر سے بھرے پڑے ہیں۔ یہاں فلک بوس، برف پوش چوٹیاں بھی ہیں، شفاف پانی کے آبشار بھی ہیں، انواع و اقسام کے پھلوں کے باغات بھی ہیں، سرسبز اور لہلاتے کھیت کھلیاں بھی ہیں اور سب سے بڑی بات یہاں کی تہذیب و تمدن، اقدار، رسومات، روایات اور زبانیں ہیں۔دنیا کے لئے خیبر پختونخوا کی سیاحت کے دروازے کھول دیئے جائیں اور یہاں آنے والے سیاحوں کو سیکورٹی اور بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تو صرف سیاحت کے ذریعے نہ صرف یہ صوبہ بلکہ پورا ملک ترقی کرسکتا ہے۔مذہبی سیاحت کو فروغ دینے پر قیام پاکستان کے بعد پہلی بار حکومتی سطح پر توجہ دی گئی ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔جس کا کریڈٹ بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو جاتا ہے۔ چترال کے تین چھوٹے دیہات میں کیلاش قبیلہ آباد ہے۔ آج سے چھ سات سو سال پہلے پوری ریاست چترال پر کیلاش قوم کی حکومت رہی ہے جن کے آثار آج بھی ضلع کے مختلف مقامات پر پائے جاتے ہیں۔یہ تہذیب اب معدوم ہوتی جارہی ہے۔پانچ چھ ہزار کی آبادی اب باقی رہی ہے۔آج تک یہ راز کسی نے کرید کر افشاء کرنے کی سعی نہیں کی کہ واقعی کیلاش قبیلہ سکندر اعظم کی فوج کے باقیات میں سے ہے؟ کیلاش تہذیب و ثقافت کا مشاہدہ کرنے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح چترال آتے ہیں غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر بدھ مت، سکھ اور ہندو تہذیب کے آثار کو محفوظ بناکر ان مذاہب کے ماننے والوں کے لئے کھول دیا جائے توخیبر پختونخوا کواپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے بینکوں سے قرضہ لینے، غیر ملکی امداد اور وفاق پر انحصار کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ حکومت نے کرتاپور راہداری سکھوں کے لئے کھول کر دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں سکھ یاتری ہر سال حسن ابدال آتے تھے۔ اب کرتارپور ٹمپل کھلنے کے بعد ان کی تعداد لاکھوں میں ہوگی اور پاکستان کو کروڑوں اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ ملے گا۔ خیبر پختونخوا میں چالیس سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں صرف ضلع چترال میں چودہ زبانیں بولنے والے قبیلے موجود ہیں جن میں کہوار بولنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ کہوار زبان چترال کے ساتھ گلگت بلتستان کے علاقہ غذر،پھنڈر، اشکومن، یاسین، پونیال،سوات کے علاقہ مٹلتان کے علاوہ افغانستان، وسطی ایشیا اور چین کے بعض علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ کلاشہ زبان چترال کی وادی کیلاش کے گاوں بمبوریت، بریر اور رمبور کے علاوہ سکردو اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے بعض علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ وہاں بھی کیلاش قبیلہ چترال سے ہجرت کرنے کے بعد آباد ہے مگر ان پر کسی کی نظر اب تک نہیں پڑی، اس کے علاوہ چترال میں دری، یدغہ، دامیلی، گوارباٹی،پلولہ، ارسون وار، ڈنگری وار،وخی، شینا، شیخ وار، گوجری اور پشتو زبان بھی بولی جاتی ہے۔ہر زبان کے ساتھ اس کی اپنی تہذیب، اقدار، تاریخ اور تمدن وابستہ ہے۔ اس طرف ہمارے تعلیمی، ثقافتی اور نشریاتی اداروں نے بھی بہت کم ہی توجہ دی ہے۔ اگر بین الاقوامی سیاحوں کے لئے ان تہذیبوں کے در وا کردیئے گئے۔ تو ان پر تحقیق بھی ہوگی اور انہیں اصل حالت میں بحال کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ جنوبی کوریا کی طرف سے پشاور میں گندھارا تحقیقی مرکز کے قیام پر اتفاق اس لحاظ سے نہایت خوش آئند ہے کہ اس سے صوبہ بھر میں چھپی قدیم تہذیبوں پر کام کا آغاز ہوگا۔افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں بامیان اور سوات میں بدھ مت تہذیب کی نشانیوں کو نقصان پہنچائے جانے کے بعد اندازہ ہوا تھا کہ اس خطے میں قدیم تہذیبوں کے آثار جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔مگر ان بکھرے ہوئے موتیوں کو چن کر ایک مرتبان میں جمع کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی تھی۔


شیئر کریں: