Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مجھے یہاں نہیں رہنا …………… تحریر: مسرور حسین حیات

Posted on
شیئر کریں:

یہاں پر انسان کو قدرت سے کوئی محبت نہیں رہی۔ کوئی بھی چیز انسان کے وست بردسے محفوظ نہیں۔ ہر چیز بے ترتیب ہے۔ لوگوں کے دلوں میں دولت سے بڑھ کر کوئی چیز معنی نہیں رکھتا۔ دنیاوی خواہشات میں گھیرا ہوا ہے۔
.
نہ ذاتی سکون ہے اور نہ اطراف میں ہم آہنگی یہاں میرا دم گٹھ رہا ہے۔ مجھے کھلی فضاء چائیے۔ جہان پر میں تازہ ہوا میں سانس لے سکوں۔ انسانی آبادی کا شور شرابہ نہ ہو۔ شہر کے آوازیں مدھم پڑتی ہو۔ انسان کی پیدا کردہ غلاظت او ر گندگیوں سے پاک ہو، قدرت کے حسن دیکھنے کا موقع ملے۔ ایک ایسی جگہ جہان دوسری مخلوقا ت کو بنی نوع انسان سے ڈر نہ لگتا ہو۔ اور کسی شکاری کی بندوق چہچہاتے ہوئے پرندے کو ہمیشہ کے لیے خاموش نہ کردے۔ ندیاں اپنے راستے خود بناتی ہوں۔ رات مکمل تاریک ہو اور تارے پورے نظر آتے ہوں۔
nature and human behaviour 2
.
کیا کوئی ایسی جگہ باقی رہ گئی ہے یا پوری دنیا بنی نوع انسان کی ملکیت ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا دوسری مخلوقات کو آزادی سے جینے کا حق نہیں ہے؟
دیکھیں ہم انسان ان کی آماجگاہون پر قابض ہوچکے ہیں۔ بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی نسلوں کو بے حد نقصان پہنچ چکا ہے۔ بلکہ ان کی کئی نسلیں مخدوم ہو رہی ہیں۔ نایاب پرندے غائب ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے بہت سے انواغ انسانی مداخلت اور سرگرمیوں کی وجہ سے نا پید ہوچکے ہیں۔
nature and human behaviour 4
.
تو آئیں ہم مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ہم دنیا بانٹ دیتے ہیں۔ آدھا ہمارا آدھا انکا، تاکہ وہ اپنے حصے میں بغیر کسی انسانی مداخلت کے اپنی قدرتی زندگی گزار سکیں۔ مگر کون مانے اب انسان اتنا مہذب کہاں رہا۔ کہ جنگلی حیات کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ یہ جانتے بوجھتے ان کی تباہی پر تلا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف عوامی نمائندوں کے کھوکھلے وعدوں اومنصوبوں کی وجہ سے لوگون کے خواب ٹوٹے ہیں۔ اگر کوئی بات اپنی منطقی انجام تک پہنچے تو لوگ نفسیاتی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں۔ دوبارہ ایسی باتوں اور وعدوں کو مذاق سمجھنے لگتے ہیں۔
.nature and human behaviour 1

ان سب حالات کا ذمہ دار ہماری غیر متوازن ترقی اور صنعتی انقلاب ہے۔ جو ماحولیات کو برباد کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے درجہ حرارت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آگئی ہے۔ گلی کوچون سے لیکر کھیل کے میدانون تک گندگیوں اور کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ فضائی آلودگی سیاہ بادل بن کر سر پر منڈ لارہی ہے۔ مگر بات صرف اخبارات اور سوشل میڈیا تک محدود ہے۔
.
اب بھی ماحولیاتی تیدیلی پر قابو کچھ حدتک ممکن ہے۔ بشرطیہ کہ ایک ایسی سائنسی انقلاب آئے جو موجودہ صنعتی انقلاب کے بلکل الٹ ہو جس کے بنائے ہوئے انسانی ضروریات کی چیزوں اور مشنیوں سے ماحول پر برا اثر نہ پڑے۔
.nature and human behaviour 3
مثلاً کارخانوں اور گاڑیوں وغیرہ کے استعمال سے زہریلے گیس، دھوان وغیرہ کا اخراج نہ ہو۔ اور پلاسٹک کی بنی ہوئی چیزیں ایک مدت کے بعد قدرتی طور پر تحلیل ہوں۔
.
اس کے علاوہ معاشرے کا ہر شخص ماحول دوست مہم میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ کیونکہ یہ مسئلہ کسی ملک، پارٹی، ذات اور رنگ و نسل کا نہیں بلکہ آنے والی نسلوں اور دنیا ئے انسانیت کی بقا کی جنگ ہے۔

بے حسی شرط ہے جینے کے لیے
اور ہم کو احساس کی بیماری ہے


شیئر کریں: